غزلیات

زندگی میں تُو جو مجھ پر مہرباں ہو جائے گا
اِس کرم سے، میرا رُتبہ آسماں ہو جائے گا
چند دن ہی، لانے لے جانے میں پیغام و سلام
کیا پتہ تھا، نامہ بر، جادو بیاں ہو جائے گا
یوں ہی گر، روتا رہا فرقت میں اُس کی رات دن
عشق تیرا، اِس جہاں میں، داستاں ہو جائے گا
ہر طرف ہی ڈھونڈنے نکلیں گے، دیوانے تِرے
جب تجھے شہرت ملے گی، بے مکاں ہو جائے گا
اپنی منزل کے سفر میں، راہِ ویراں سے نہ ڈر
لوگ ملتے جائیں گے، اور کارواں ہوجائے گا
اب نظر آتے ہیں آثارِ قیامت ہر طرف
کچھ دنوں میں، یہ جہاں بھی، بے نشاں ہو جائے گا
بار بار اُس سے نہ کر، عرضِ محبت، اے رئیسؔ
’’ایسی باتوں سے وہ کافر، بدگماں ہو جائے گا‘‘

رئیس صِدّیقی
آکاشوانی و دوردرشن کے سابق آئی بی ایس افسر
نئی دہلی، موبائل نمبر؛9810141528

کس قدر وہ مرے انداز سے ہٹ کر نکلا
میں جسے موم سمجھتا تھا وہ پتھر نکلا

تم تو کہتے تھے رنگے ہاتھ پکڑ لوگے اسے
کیسے پھر بھیڑ سے قاتل مرا بچ کر نکلا

صرف دشمن ہی نہ تھے قتل میں مرے شامل
اک مرے دوست کے بھی ہاتھ میں خنجر نکلا

میں نے دنیا کی ہر اک شئے میں تلاشا جس کو
پھر ہوا یوں وہ مری روح کے اندر نکلا

یہ ترا طرزِ سخن اور یہ اشعار رفیق
بوند کی شکل میں تو ایک سمندر نکلا

رفیق عثمانی
آکولہ ، مہاراشٹرا
[email protected]>

یا الٰہی کب تلک یہ مختصر ہو جائے گی
مشکلاً جو کٹ رہی ہے کب بسر ہو جائے گی

عمر بھر دل پر مرے غالب رہی آوارگی
بعد میرے روح میری دربدر ہو جائے گی

شام کو پہلو میں میرے ہوکے یہ ہمدرد تھی
رات بھر اب یاد تیری دردِ سر ہو جائے گی

کہہ دو اپنی یاد سے تم روز نا آیا کرے
آئے گی جو روز ایسے بے قدر ہو جائے گی

تیرے آنے تک تو میری یہ عمر ہو جائے گی
بے نشاں بے نام سی میری قبر ہو جائے گی

خاک ہو جائے گی امیدِ نظر تب تک خلشؔ
جب تلک دل کو مرے میری خبر ہو جائے گی

خلشؔ
لارم اسلام آباد، اننت ناگ کشمیر
[email protected]

جہاں تیرا بنا ویرانہ جاں
لکھا کرتا ہوں میں افسانہ جاں

نہیں اُلفت وہ پہلی سی رہی
ہے جل کر راکھ اب پروانہ جاں

دئے اُس نے نئے ہی روز غم
مہر باں سب پہ ہے بے گانہ جاں

ہے ممکن غارسے نکلے پری
دے اِک نعرہ وہی مستا نہ جاں

بدن دل خواب گُل گلشن تِرا
مِرا کیا ہے جنوں،افسانہ جاں

مشتاق مہدی
مدینہ کالونی۔ ملہ باغ حضرت بل سرینگر
فون نمبر9419072053

سنا ہے تم بہت اترانے لگے ہو
نہ جانے کیوں دور جانے لگے ہو
کرے اظہار ملاقات ہم تم سے تو
تیڑا میڑا سا منہ بنانے لگے ہو
اور مرشَد کس بات پر ہے غرور
کیا آپ بیوٹی پالر کر جانے لگے ہو
آنکھیں اتنی نشیلی ماشااللہ اللہ
کیا کوئی نیا سرمہ لگانے لگے ہو
سنا ہے لوگ تم سے گلے ملتے ہیں
کیا ڈاو صابن سے نہانے لگے ہو
ارے صدیقیؔ تو پاگل ہو صنم
نہ جانے کیوں اسے دل لگانے لگے ہو

محمد ابو بکر صدیقی
طالب دارالہدی پنگنور

نا تو مرتے ہو نہ ہی کرتے ہو وصال
تیرے لہجے کی یہ نرمی ہے با کمال

اس قدر الجھی ہے میری یہ زندگی
دور ہوتے ہیں نہ غم ہی اور یہ ملال

تیرا سایا جب تلک ہے سر پہ ماں
نا مجھے ہے ڈر نہ ہے کوئی بھی زوال

اس محبت نے سکھایا ہے اب بہت
نا دغا دے گی کھبی یہ دے گی سوال

طلحہ قائم رکھ امیدیں اس ذات پے
جو ہے سنتا بے بسوں کے سب ہی یہ حال

جنید رشید راتھر (طلحہ)
آونورہ شوپیان