غزلیات

بھول سکتا ہوں ستم گر !کیسے میں تیرا شباب
ہجر کا غم میری خاطر بن گیا ہے اک عذاب
تک رہی ہیں میری آنکھیں ہر گھڑی راہیں تری
وصل کی چاہت میں اپنی ہو گئی حالت خراب
کیوں نہ بلبل کہ طرح میں تجھ پہ ہو جاتا فدا
جانتا تھا تُو کِھلا تھا باغ میں مثلِ گلاب
تھی یہ نادانی مری جو وقت کوسمجھا نہیں
اور کر دی تیرےآگے دل کی یہ پوری کتاب
اضطرابی کیفیت ہے میری کچھ ایسی بنی
گاہ میں ہوتا ہوں خورشید اورگاہے ماہتاب
پیار تم سے جو کیا وہ ہی تو تھی میری خطا
کاش تم سے مجھ کو پہلے ہی ملا ہوتا جواب
کیوں نہ مر مٹتا میں تیری ہر ادا ئے ناز پر
بھول سکتا ہی نہیں میں تیرا حُسنِ لاجواب
قیس تھا لیلیٰ کا عاشق جبکہ رانجھا ہیر کا
میں بھی رکھتا ہوں یہ خواہش تو ملے مجھ کو شتاب
تو لڑانا عشق فوراً چھوڑ دے شادابؔ جی!
پڑ نہ جائے تجھ کو ورنہ حسن کا سہناعتاب

غلام رسول شادابؔ
مڑواہ(کشتواڑ)
موبائل نمبر؛ 9103196850

صنم کا تبسم کرم ہوگیا ہے
تبھی دردِ دل تھوڑا کم ہوگیا ہے

معاون میرا درد و غم ہوگیا ہے
جو ہونا تھا وہ دم بدم ہوگیا ہے

جو پتھر کا بُت ہے میری جانِ جاں کا
رقیبوں کا بھی اب صنم ہوگیا ہے

وہ کاغذ سدا مُسکراتا رہے گا
تیرا نام جس پہ رقم ہوگیا ہے

ہوئی برفباری تو رستہ پہاڑی
تیری زلُف کا پیچ و خم ہوگیا ہے

بنایاہے حاکم غریبوں نے جن کو
اُنہیں کا کرم اب ستم ہوگیا ہے

خیالات ہیں رقصاں الفاظ ہوں گے
کہ پنچھیؔ کا پَر بھی قلم ہوگیا ہے

سردار پنچھیؔ
جیٹھی نگر، مالیر کوٹلہ روڑ کھنہ پنجاب
موبائل نمبر؛9417091668

بادل تھا سائبان اِسے کیا کہے کوئی
اونچا تھا آسمان اِسے کیا کہے کوئی

یخ بستہ تھے پہاڑ تو دھندلی تھیں وادیاں
موسم تھا بدگمان اِسے کیا کہے کوئی

برسے ہے اَبر آج ہمالہ کے اوج پر
دریا ہوئے روان اسے کیا کہے کوئی

کیونکر ہوطے جہانِ جنوں کا یہ سال پھر
کیونکر ہو یہ بیان اسے کیا کہے کوئی

ہم اُڑ رہے تھے دوشِ فضا پر ہوا کے ساتھ
موسم بھی تھا جوان اسے کیا کہے کوئی

اونچائیوں پہ آکے یہ عقدہ کُھلا نسیمؔ
یکساں ہیں سب مکان اِسے کیا کہے کوئی

ڈاکٹر حمید نسیمؔ رفیع آبادی
ڈائریکٹر انٹرنیشنل سینٹر فار سُپریچول سٹیڈیز
اسلامک یونیورسٹی اونتی پورہ
موبائل نمبر؛7006437393

کیسا ہے یہ میرا درد
کِس نے دِل میں بکھیرا درد
دِل سے دور نہیں جاتا
کہاں سے آیا لُٹیرا درد
پہلے آیاتھا ملنے وہ
اب کرتا ہے بسیرا درد
خُود ظلمت کی نشانی ہے
کہاں سے لائے سویرا درد
ہنستا رہاہے سُن کے اِسے
وہ نہیں سمجھا میرا درد
روشنی دیتی نہیں ہے خُوشی
کر دیتا ہے اندھیرا درد
ہم دونوں ہیں غم کے مارے
سانجھا میرا تیرا درد
کون اِسے سمجھے گا ہتاشؔ
تیرا درد ہے میرا درد

پیارے ہتاشؔ
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607

جو ہو ہوگا فقط اِک نورِ جاں سے
سحر ممکن ہے،نکلوں جب گماں سے

ہوائے رات گر وہ کاٹ پائے
اُجالا بھی اُگے گا خاک داں سے

تِرا آنا تو مانا حادثہ ہے
گزرنا ہی پڑے گا امتحاں سے

کبھی موجوں سے ہم نے دوستی کی
کبھی اُلجھے ہَوا سے،بادباں سے

تھی کوئی موج لے آئی یہاں پر
پہ کیوں اُلجھا سا نکلا آستاں سے

سنو مہدیؔ یہ رکھنا دھیان میں تم
نہ لوٹا تیر، جب نکلا کماں سے

مشتاق مہدیؔ
مدینہ کالونی۔ ملہ باغ حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9419072053

ظالم ہے دھوکے باز ہے باطل ہے زندگی
اس سے زیادہ کیا کہوں قاتل ہے زندگی

لوگوں کے اس خیال سے میں متفق نہیں
کہتے ہیں جو کہ پیار کے قابل ہے زندگی

قربان تجھ پہ کیوں نہ کروں اسکو اے خدا
’’ تیری نوازشات کا ،حاصل ہے زندگی ‘‘

چلنا بھی جان لیوا ،ٹھہرنا بھی پُر خطر
پیچھے ہے میرے موت ،قابل ہے زندگی

تجھ کو بھی لگ نہ جائے کہیں وقت کی نظر
رخسار پہ تیرے بھی کہاں تِل ہے زندگی

گر چاہئے تو آ تَرے قدموں میں ڈال دوں
زخموں سے چور پاس مرے دل ہے زندگی

جیتا ہوں اس لئے کہ ہوں مجبور اے رفیقؔ
ورنہ کہاں یہ جینے کے ،قابل ہے زندگی

رفیق عثمانی
سابق آفس سپرانٹنڈٹ BSNL
آکولہ ، مہاراشٹرا
[email protected]

یوں لگ رہا ہے یہاں سے جیسے، کسی پری کا گزر ہوا ہے
اِدھر کا چہرہ اُدھر ہوا ہے، اُدھر کا چہرا اِدھر ہوا ہے

وفا کے رستے میں آج دیکھو،کہیں پہ کانٹے کہیں پہ پتھر
اب اہلِ دل کے لئے محبت، بڑا ہی مشکل سفر ہوا ہے

کسی کی چاہت دیں اِس کو پانی، کسی کی مرضی ہے کاٹ ڈالیں
کئی زمانوں کے بعد صحرا میں جو یہ تنہا شجر ہوا ہے

ترے لئے تو میں رات جاگا، جلائی آنکھیں، بہائے آنسو
حوالے تیری سہانی یادوں، کے میرا خونِ جگر ہوا ہے

کبھی جو کہتے تھے ہائے ہیلو، سلام کرتے ہیں آج مجھ کو
یہ میری صحبت کا اُن کے لہجے پہ کتنا گہرا اثر ہوا ہے

کوئی تو ممتازؔ پوچھے اُس کو محبتوں کے عذاب کیا ہیں
وہ جس کے دل کی لُٹی حویلی، اُجاڑ جس کا نگر ہوا ہے

ممتاز احمد ممتازؔ
راجوری، جموں،موبائل نمبر؛7051363499

کتنی باریک بینی سے مجھ کو
اُلٹی دھارا دکھا گیا منظر
ہاتھ لے کر نجومی کیا کرتے
سب لکیریں مٹا گیا منظر
میرے سینے کی دھڑکنوں سے پُوچھ
کتنے طوفاں تمھا گیا منظر
میں ہمیشہ ہی دیر سے پہنچا
بیچ رستے میں آ گیا منظر
اب تو عادت سی ہو گئی، کیوں کہ؟
میری حسرت کو بھا گیا منظر
دیکھتے ہیں بچشمِ حسرت ہم
کیسے خوابوں کو کھا گیا منظر
کیوں دھڑکنے لگا دلِ مُضطر
جب سبھی کچھ لُٹا گیا منظر
اے شبِ غم مری دعا تھی جو
دردِ آسا کو بھا گیا منظر
کیوں بڑھائی چراغ لو یاورؔ
دیکھ کیا قہر ڈھا گیا منظر

یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ
[email protected]

صبرو سکوں یوں دلا دے زندگی
بچھڑے دلوں کوملا دے زندگی

کب تلک یہ بوجھ اٹھائے پھریں
شکوے گلے سب بھلا دے زندگی

درمیاں کے فاصلے بڑھتے گئے
دوریاں اب تو گھٹا دے زندگی

گھٹ رہا ہے دم اندھیروں میں یہاں
زندگی کو پھر جلا دے زندگی

سونی سونی میری دنیا آج ہے
غم زدہ ہوں مسکرا دے زندگی

نفرتوں میں ہم جئیں آزاد ؔ کیوں
کاش ا پنا پن جگا دے زندگی

ایف آزاد ؔدلنوی
دلنہ بارہمولہ
موبائل نمبر؛9906484847

قطعات
کہیں پھولوں میں، کہیں کلیوں میں جوانی دیکھی
کہیں جھرنوں میں، کہیں آبشاروں میں روانی دیکھی
نغمہ زن ہیں کہیں بلبلیں ، کہیں گُل قبا پوش
ذرّے ذرّے میں بس تیری نِشانی دیکھی

ہم روز خوابوں میں یونہی ملا کریں گے
دو پھول جیسے شاخِ گُل پہ کِھلا کریں گے
وصل کی شب ہم دونوں اگر مل بھی جائیں گے
بے وجہ ہی ہم اِک دوسرے سے گِلہ کریں گے

چمن آباد، شاداب ہونگے
جاگتی آنکھوں میں خواب ہونگے
چہکتے ہوئے عندلیبو تم سے
گُل ملنے کیلئے بے تاب ہونگے

خوشنویس میر مشتاق
ایسو، اننت ناگ
[email protected]