غزلیات

روزوشب غمگین رہنا ہی مری تقدیر ہے
کارگر ہوتی نہیں کوئی مری تدبیر ہے
ہر گھڑی رہتا ہوں کوشاں کام میں اچھّے کروں
پر نہ مل پائی ابھی تک بھی مجھے توقیر ہے
چاہتا تھا فکروکاوش سےملے منزل مجھے
اپنے خوابوں کی مگر دیکھی بُری تعبیر ہے
جس کسی نے جیسی بھی اپنی گزاری زندگی
اس کی سیرت ہی تو اس کی اک بڑی تفسیر ہے
دیکھنے میں دور ایسا آگیا ہے آجکل
اپنے پن کی کچھ بھی رشتوں میں نہیں تاثیر ہے
شور وغل کیسا مچا ہے گلستاں میں جا بجا
لگ رہا بلبل شجر پر ہر کوئی دلگیر ہے
گر خلوصِ دل سےبھی میں بات کرتا ہوں کبھی
اپنی خاطر کچھ سمجھتے ہیں اسے تحقیر ہے
اے بشر تو نے خدا کو کر دیا ناراض بھی
ساتھ میں یہ بھی گلہ ہے رب کی یہ تعزیر ہے
کر تیاری آخرت کی اب تو کچھ شادابؔ جی
موت کے آنے میں لگتی کب بھلا تاخیر ہے

غلام رسول شادابؔ
مڑواہ (کشتواڑ)
موبائل نمبر؛ 9103196850

تختۂ مقتل سے جانے کیوں پلٹ جاتے ہیں لوگ
اپنے اپنے بال و پر میں جب سمٹ جاتے ہیں لوگ

ہے کِیا اس عہدِ رفتہ میں قُمِ عیسیٰ کوئی؟
جانے کس امید سے اوروں پہ ڈٹ جاتے ہیں لوگ

آدمی ہی آدمی کا جان لیوا بن گیا !!!
اے نئے آشوبِ محشر تجھ سے گھٹ جاتے ہیں لوگ

ہولے ہولے سے چلی ہے عہدِ فردا کی ہوا
رگ و پے میں فتنۂ جفتہ سے لُٹ جاتے ہیں لوگ

نکہتِ انوار بھی ہے آج کچھ آشوبِ زا !!!
ایسے ویسے حادِثوں سے اب نمٹ جاتے ہیں لوگ

دیر سے یاورؔ مگر عیسیٰ تیرا آ ہی گیا
سیمِ ساعد دیکھ کر دم سے نکٹ جاتے ہیں لوگ

یاورؔ احمد ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ
موبائل نمبر؛6005929160

تیرا خوابوں میں یوں آنے کا تقاضا کیا ہے
کب کے بچھڑے ہوئےہیں اب یہ تماشا کیا ہے

ہے کبھی ہجر کی سختی کبھی اُمیدِ وصل
یا الٰہی مجھے بتلا دے اِرادہ کیا ہے

جاگتی آنکھ میں اُٹھتا ہے دُھواں سا کوئی
رات بھر دل نے مرے دل میں جلایا کیا ہے

میری ہر بات میں تھی میری محبت عاجز
تم نے مطلب مری باتوں کا نکالا کیا ہے؟

آخری ہے یہ ملاقات تکلف کیسا
بے وجہ بات کو ایسے یوں گُھماتا کیا ہے؟

یہ محبت کوئی اُلجھن، بے یقینی سی ہے
ہائے مشکل یہ مصیبت سی خُدایا کیا ہے

اک تصّور ہی ترا دل میں لئے سوتا ہوں
تیرے خوابوں کے سوا میرا گُزارا کیا ہے

خلشؔ
لارم اسلام آباد ، اننت ناگ،کشمیر

میرا تجھ سے ہی سِلسلہ ہے
تیری اُمید میرا حوصلہ ہے

زِندگی میری کیا ہے ؟
فقط پانی کا بُلبلہ ہے!

مجھے کیا پتہ کہ اُن کو
کس بات کا گِلہ ہے

ہنر ہم نے بھی آزما کے دیکھا
کہ نہیں میرا وہ ہم پلّہ ہے

کس بات کا غم میں مناؤں
ہار جانے کا جو حوصلہ ہے

جو مانگنا ہے مانگو مشتاقؔ
تیرے رب کا آج در کھلا ہے

خوشنویس میر مشتاق
ایسو (اننت ناگ) [email protected]

تیری چاہت کا دیوانہ ہوں میں
تُو شمع ہے تو پروانہ ہوں میں

لکھا ہے وقت نے جو صفحہ ہستی پر
درد و غم کا وہ افسانہ ہوں میں

بادہ کش نہیں ہوں میں اے ساقی
تشنہ لب ہوں، میخانہ ہوں میں

لوٹ کر آئوں میں اب کیسے
کہ گذرا ہوا زمانہ ہوں میں

دیکھا ہے جب سے تمہیں صورتؔ
ہوا ہوش سے بیگانہ ہوں میں

صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549

میں کچھ حسرتوں کو لُبھانے میں لگ گیا
فقط تیری محبت کو چھپانے میں لگ گیا

تھی وہ آرزوناز حسین دل کش بہت
میں تو خود کو ہی شعر سنانے میں لگ گیا

دلِ بدخواہ کو چاہیے غالبؔ جیسا مزاج
حالت جیسی بھی ہو شراب پینے میں لگ گیا

بنی پھرتی ہیں سب خواہشیں فکرِ حیات مگر
وہ پاگل اب قلندر بننے میں لگ گیا

دلِ جلوہ گر کو اب نہیں ہوتے ہیں الفاظ میّسر
خود قلم ہی غمِ حال سنانے میں لگ گیا

کروں موت سے اب میں کیا گلہ عثمانؔ
میں تو اب خودکشی کرنے میں لگ گیا

عثمانؔ طارق
ڈول، کشتواڑ
موبائل نمبر؛9797542502