غزلیات

 

بڑی آس لےکر میں آیا ہوں یا رب
قدم تیری جانب بڑھایا ہوں یا رب
مدد مانگ لوں کیوں بھلا میں کسی سے
تجھے ہی تو ہر سْمت پایا ہوں یا رب
بنا میرا دشمن ہےسارا زمانہ
میں سارے جہاں کا ستایا ہوں یا رب
کیا جس پہ تھا میں نے ہر دم بھروسا
اُسی سے میں دھوکا بھی کھایا ہوں یا رب
گناہوں میں ڈوبا ہوں نا کارہ بندہ
ندامت سے اب سرجھکایا ہوں یا رب
عبادت کروں میں شب و روز تیری
ارادہ میں پختہ بنایا ہوں یا رب
اگر توبہ میرے مقّدر میں ہوتی
سمجھتا ہدایت میں پایا ہوں یا رب
نبیؐ کے ہی صدقے مجھے بخش دینا
وسیلہ انھیں کوبنایا ہوں یا رب
زیارت کرے کب ترے گھر کی شادابؔ
تمنّا یہ دل میں بسایا ہوں یا رب

غلام رسول شادابؔ
مڑواہ (کشتواڑ)،موبائل نمبر؛ 9103196850

جان کا دشمن ہی میری جان بن کے رہ گیا
ایک کافر اب مرا ایمان بن کے رہ گیا
دیکھ کر اس کو زمانہ یاد کرتا ہے مجھے
وہ زمانے میں مری پہچان بن کے رہ گیا
ہر کوئی پڑھتا ہے مجھ کو پر سمجھتا کون ہے
میں تو گویا میر کا دیوان بن کے رہ گیا
اب کسی شیطان کی جگ میں ضرورت کیا رہی
آج کا انسان خود شیطان بن کے رہ گیا
بلبلاتی پھر رہی ہیں حسرتیں آزار سے
دل یہ میرا حشر کا میدان بن کے رہ گیا
وہ تو کب کا جا چکا لیکن خیال اس کا رفیقؔ
خانۂ دل میں حسیں مہمان بن کے رہ گیا

رفیقؔ عثمانی
آکولہ، مہاراشٹرا
[email protected]

وہی اندازِ کُہن شعروں میں برسوں کا ہے
تذکرہ آج بھی غزلوں میں حسینوں کا ہے
میں بصارت سے تو محروم نہیں ہوں لیکن
کیا نظر آئے گا موسم ہی اندھیروں کا ہے
آئے دن بستیاں آباد نئی ہوتی ہیں
مسئلہ پھر بھی یہاں خالی مکانوں کا ہے
جسم و جان کو لئے پھرتے رہیں کب تک آخر
ہم جہاں جائیں ہمیں سامنا خطروں کا ہے
مرکے بھی جانی نہیں خواہشِ شہرت شاید
سلسلہ قبروں پہ جو نام کے کتبوں کا ہے
عمر بھر جو بھی کمایا اُسے اپنا سمجھا
موت کے وقت یہ جانا کہ سب اوروں کا ہے
بند رہتے ہیں گھروں ہی میں قدآور دن بھر
زور کچھ ایسا ترے شہر میں بونوں کا ہے
پھول کو چاہنے والے تو کئی ہیں راشدؔ
مسئلہ شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتوں کا ہے

راشد احمد راشدؔ
حیدرآباد، موبائل نمبر؛9951519825

تمہارے وصل کا موسم تمہاری دید کا موسم
کہا کرتے تھے اہلِ دل اسی کو عید کا موسم
بکھرنے کو ہیں سب میکش پلا پھر اپنی آنکھوں سے
چلے مے خانے میں ساقی تری تقلید کا موسم
تمناؤں کو دفنایاتمہاری بے وفائی نے
پلٹ کر پھر نہیں آیا کبھی اُمید کا موسم
بڑی مدّت سے میخانہ عجب مستی میں ڈوبا ہے
مگر رندوں میں باقی ہے ابھی تمہید کا موسم
عجب اِک ہوشمندی ہے بظاہر جو کہ رندی ہے
پرانی مے کے صدقے ہو ہر اک تجدید کا موسم
یہاں بے تاب رہتے ہیں جبینوں میں کئی سجدے
یہاں پر ٹک نہیں پاتا کبھی تردید کا موسم
خیالِ پیرِ رنداں میں ہی طاہر ؔعیدِ رنداں ہے
صراحی ‘جام نے دیکھا ہے بس تائید کا موسم

ڈاکٹر تنویرطاہرؔ
گھاسی یار حول، سرینگر،موبائل نمبر؛70068048841

اجنبی راستے پر چلا آدمی!
کیا ملے گا اسے با وفا آدمی ؟
ظلم میں اس قدر پِس گیا آدمی
بے خطا دار پہ خود چڑھا آدمی
روزِ محشر سے غافل ہوا آدمی
زر کے پیچھے پڑا بارہا آدمی
موت سے قبل سمجھا بھلا آدمی
زندگی کی حقیقت ذرا آدمی
جرم کرتا رہا بارہا آدمى
خود کو سمجھا مگر پارسا آدمی
ڈھونڈتا کس لئے شہرِ ظلمت میں ہے
روشنی کی ضیا جا بہ جا آدمی
ہر بلا سر سے ٹل جائے گی شرط ہے
صدقِ دل سے کرے اک دعا آدمی

جاوید عارف
کشمیر
موبائل نمبر؛7006800298

ہے اپنی زیست کی اُلجھن سے پریشاں انساں
یہ چال ڈھال یہ گُلال سارے جعلی ہیں
بدن تو خاک کی پرتوں میں پسِتا جائے گا
سنہرے ریشمی سے بال سارے جعلی ہیں
کہیں پہ آگ جلائے کہیں زمیں نگِلے
چمکتے نین لال گال سارے جعلی ہیں
دمِ حیات سے تا مرگ بے کَلی طاری
ادِھر سکون کے سوال سارے جعلی ہیں
یہ قرُبتوں کے مراحل کی لزَتیں یکساں
حرام ہو کہ یا حلال سارے جعلی ہیں
دیوارِ چین ہو یا تاج اور اجنتا ہو
بشر کے ہاتھ کے کمال سارے جعلی ہیں
حقیقتوں کی نظر میں تو سارے پتھر ہیں
یہ کوہِ نور جیسے لعل سارےجعلی ہیں
مِلی جو صحُبتیں انِ کی تو فلکؔ جان گیا
یہ دکھ و درد کے وبال سارے جعلی ہیں

فلک ریاض
حسینی کالونی چھتر گام، کشمیر
[email protected]

آئے تھے کہاں اور کدھر چلے
اپنے گھر سے اپنے ہی گھر چلے
مُکرنے کی کوئی کھپت نہیں
ہم بھی جانے کیا عہد کر چلے
کون جائے گا اس گلی میں اب
وہ جوان تو کب کے مر چلے
تم جو سوچنے سے بھی ڈرتے ہو
ہم تو اس سے آگے گزر چلے
سرمئی نگاہوں سے اس کی سب
ویراں جو تھے گلشن، سنور چلے
ہو گئی بہت دنیا داری اب
دوست سارے اپنے گھر چلے
اب نہ کوئی بھی آسرا رکھیو
شہریارؔ کب کے مُکر چلے

توصیف شہریار
اسلام آباد، اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛7780895105

سوچتا ہوں تجھے دیکھنا چھوڑ دوں
تیری یادوں میں اب ڈوبنا چھوڑ دوں

یوں ہی رکھ کر تجھے دل میں کیا فائدہ
رات بھر کیوں مگر جاگنا چھوڑ دوں

یہ الگ بات اب کوئی رشتہ نہیں
پیار سے کیوں مگر دیکھنا چھوڑ دوں

میری قسمت میں شاید نہیں رہبریؔ
کیا خدا سے تجھے مانگنا چھوڑ دوں

محمد رہبراسلام رہبریؔ
طالب :دار الہدی پنگنورآندھرا پردیش

آغازِ محبت میں وفا نہیں ملا کرتی ہے
پہلی ہی رات یہ شمع نہیں جلا کرتی ہے

تیرے صبر کے امتحان کا ابھی آغاز ہوا
اتنی جلدی دعا قبول نہیں ہوا کرتی ہے

شب و روز اُس کے دیدار کو ترستے ہو
اور وہ دیکھ کے نظریں پھیرا کرتی ہے

اے زندگی تو بس روح کا تو لباس ہے
پھر کیوں تو رقیب سے اتنا ڈرا کرتی ہے

یہ دلکش نظارے میری قسمت میں کہاں
یہ آنکھ بس یہاں ظلم ستم دیکھا کرتی ہے

راشدؔ دل ستاں کی راہ میں تجھے کتنا درد ملا
تو نہیں مگر تیری ہر آنکھ بتایا کرتی ہے

راشد اشرف
کرالہ پورہ، سرینگر
موبائل نمبر؛9622667105