غزلیات

 

نیا سال آیا ہے گزرا پرانا
نہیں لگتا مجھ کو کہ تھا وہ سہانا
گرانی نے سب کی کمر توڑ ڈالی
سنائیں کسے درد کا یہ فسانہ
حوادث بھی دیکھے بہت سالِ رفتہ
رہا رات دن کام لاشیں اُٹھانا
نشہ کی وباء آجکل ہے جو پھیلی
ہے عاجز اُسی سے تو سارا زمانہ
کوڈ نے دوبارہ ہے سر جو اُبھارا
ہمیں اس سے خود کو ہے ہر دم بچانا
نہیں سامنے بات کرتا ہے کوئی
موبائل کا ہے آج کل جو زمانہ
اگر چہ ترقی بہت ہم نے کی ہے
مگر بے سکونی ہے شانہ بشانہ
ملی زندگی ہے فقط چار دن کی
محبت سے لازم ہے اس کو بِتانا
یہاں سچ بتانا ہے نقصان شادابؔ
زباں جس نے روکی وہی تو ہے دانا

غلام رسول شادابؔ
مڑواہ (کشتواڑ)
موبائل نمبر؛ 9103196850
درد سینے میں جو شدت پہ اُتر آتے ہیں
ضبط سے اشک بغاوت پہ اُتر آتے ہیں
جانے لہجے میں کمی کیا ہے کہ جس کو دیکھو
پیار دیتا ہوں عداوت پہ اُتر آتے ہیں
قید میں رکھ کے پرندوں کو وہ ڈالیں دانہ
گو کہ صیاد سخاوت پہ اُتر آتے ہیں
کس میں غیرت ہے گریبان میں اپنے جھانکے
دوسرے کی جو ملامت پہ اُتر آتے ہیں
کارواں جانبِ منزل نہ چلا، کیا چلتا!
جو بھی آتے ہیں قیادت پہ اُتر آتے ہیں
وصف اک یہ بھی تو پیوست ہے کم ظرفوں میں
ہار جائیں تو حقارت پہ اُتر آتے ہیں
دورِ حاضر کے چراغوں سے سنبھلنا عارضؔ
بات بے بات شرارت پہ اُتر آتے ہیں

عارض ارشاد
نوہٹہ، سرینگر
موبائل نمبر؛7006003386

اُس نے جی بھر کے دیکھا تو دل بھر آیا ہے
آنکھوں سے ہوتے ہوئے پلکوں پہ درّ آیا ہے

دریائے محبت میں جو ڈوب گیا سو ڈوب گیا !
اِک فقط میں ہی جو ساحل پہ اُتر آیا ہے

اب خموشی کوہی اپنی عافیت سمجھتا ہوں ورنہ!
ناکردہ گناہوں کا اِلزام بھی میرے سر آیا ہے

اب نگاہِ شوق میں پہلی سی وہ تاثیر ہی نہیں
تیر اگرچہ سینے سے دل میں اُتر آیا ہے

خود شناسی نہ اُن کی شناسائی مشتاقؔ
راستہ بھٹکا ہوں تو کِدھر آیا ہے

خوشنویس میر مشتاق
ایسو،اننت ناگ ، کشمیر
[email protected]

بدلے گی دعا سے ہی مری تقدیر تو اک دن
نکلے گی مرے خوابوں کی یہ تعبیر تو اک دن

کرتا ہوں جسے یاد وہ مجھ کو یاد کرے گا
توڑے گا وہ خود پاؤں کی یہ زنجیر تو اک دن

ہوگی اس سے تو میری جب یہ بات اس دل کی
درد کی ہم لائے گے یہ تصویر تو اک دن

پھرغم نہ رہے گا نہ درد کی پکار ہی
جب پھر سے روشن ہو گا یہ کشمیر تو اک دن

طلحہ ترے ان زخموں پر بھی ہو گا مرہم
جب ہو گی عیاں حق کی یہ تحریر تو اک دن

جنید رشید راتھر طلحہ ؔ
آونورہ شوپیان
[email protected]

اب تری بات پر اعتبار کر نہیں سکتا
تم بےوفا ہوتم سے پیار کر نہیں سکتا

وعدہ ہم سے کرتے ہو وفا غیروں سے
اب لمحہ بھر تیرا انتظار کر نہیں سکتا

بڑھا رہی ہے خلش تیری یادیں مجھے
ہجرزاد ہوں تیرا شمار کر نہیں سکتا

تو کوئ جبین فلک کا ستارہ تھوڑی ہو
بار بار حسن تیرا آشکار کر نہیں سکتا

لاکھ سمجھایا کہ مت کھیل يه دل سے
عاشقؔ اب تیرا ساز گار کر نہیں سکتا

محمد عارف عاشق (بہار)
طالب دار الہدی پنگنور
آندھرا پرديش