غزلیات

اک دھواں سا جہاں میں رہتا ہوں
اپنے خالی مکاں میں رہتا ہوں
مجھ کو لے چل جہاں تری مرضی
تُو جہاں ہے وہاں میں رہتا ہوں
اشک بن بن کے ہورہا نیلام
درد و غم کی دکاں میں رہتا ہوں
اپنے حصے کا نام کب آئے
ان کہی داستاں میں رہتا ہوں
چاند نے پھر یہی کہا ہو گا
جھیل کے آبداں میں رہتا ہوں
بے گمانی کے اک جزیرے پر
اِک گماں سا گماں میں رہتا ہوں
کُن فکاں سلسلہ کوئی شیداؔ
اور اس درمیاں میں رہتا ہوں

علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد،
موبائل نمبر؛9419045087

زندگی کی سب کہانی ختم ہے
کیونکہ سانسوں کی روانی ختم ہے
چار دن دنیا میں آ کر جی لئے
مان لو اب دانہ پانی ختم ہے
ساتھ جن کے تھی مری ان بن کبھی
ان سے بھی اب بد زبانی ختم ہے
جو بھی ہیں لگتا ہے سب احباب ہیں
بد ظنی اور بد گمانی ختم ہے
تھا کھڑا میں بھی ہمالہ کی طرح
حیف وہ عزمِ جوانی ختم ہے
مرگ کے اب بسترے پر ہوں پڑا
در حقیقت زندگانی ختم ہے
اک زمانے میں تو میری قدر تھی
واہ اب وہ قدر دانی ختم ہے
تھا مرا بچپن جو گزرا عیش سے
یاد وہ بھی تو پرانی ختم ہے
میں نصیحت کرتا رہتا تھا جنہیں
ان سبھی کی میزبانی ختم ہے
وہ سماعت وہ بصارت وہ حواس
ان کی بھی اب مہربانی ختم ہے
تھر تھر اہٹ ہے لگی شادابؔ کیوں
کیا تمہاری لن ترانی ختم ہے

غلام رسول شادابؔ
مڑواہ (کشتواڑ) ،موبائل نمبر؛ 9103196850

یہ خوابوں کی دنیا سرابوں کی دنیا
نہیں راس دل کو خرابوں کی دنیا

میں ہوں تیرگی کا مسافر مجھے کیا
تو پاس اپنے رکھ آفتابوں کی دنیا

ذکر پھر نہ چھیڑ اس جہاں کی کہ ہمدم
میں چھوڑ آیا ہوں وہ عذابوں کی دنیا

جو کانٹے بچھائیں انہیں دے بچھانے
بساتا جا تو خود گلابوں کی دنیا

خودی کا جہاں پایا ہے ہر ورق میں
جدا کتنی ہے یہ کتابوں کی دنیا

کراہت زدہ ہیں نگاہیں کہ کیسے
بدلتی ہے رنگ اضطرابوں کی دنیا

توصیف شہریار
اسلام آباد، اننت ناگ
موبائل نمبر؛7780895105

کسی کی یاد میں آنسو بہانا
سِکھائے کون یہ قصہ پُرانا
پڑا ہے نام ناداں کا عقلمند
حقیقت پر ہوا غالب فسانہ
اُجالے میں جلایا جس کو تم نے
یہ شاید تھا میرا ہی آشیانہ
ہر اِک سیماب پاہے کارواں میں
یہاں تو چُوک جاتا ہے نشانہ
بہاروں میں تلاشِ رنگ و بوکر
خزان کانٹوں کا ہوتا ہے خزانہ
محبت آرزو ہے، ہے عبادت
عبادت ہونی چاہئے عاشقانہ
توقع کے سہارے جی نہ ہادیؔ
بھروسے کے نہیں قابل زمانہ

حیدر علی ہادیؔ
زیارت بتہ مالو، سرینگر
موبائل نمبر؛9797552252

شبِ فراق آکے گذر جائے گی کبھی
یوں ہی رہا، اَنا میری مر جائے گی کبھی
میں خوب جانتا یہ آزردگیٔ ہجر
معلوم نہیں تھا وہ بھی ڈر جائے گی کبھی
پہلے ہی ستم خوب ہیں اس پر یہ ستم اور
میں جس کی زندگی ہوں وہ مر جائے گی کبھی
گھر اور سفر وحِضر میرے ایک برابر
اے عہد فراموش تو گھر جائے گی کبھی
نا امتحانِ ضبط لے نہ ظرف آزماء
ایسا نہ ہو کہ دل سے اُترجائے گی کبھی
دل سے گئی نہ نقلِ مکانی کی آرزو
اغلب تیرے کوچے سے گزر جائے گی کبھی
مرمر کے جی رہے ہیں غریب الدیار ہم
جینے کی تمنا منیبؔ مرجائے گی کبھی

مرزا ارشاد منیبؔ
بیروہ بڈگام
موبائل نمبر؛9906486481

مبنی ہے آپ پہ سدا میری یہ شاعری
لکھ پاتی ہے تری ادا میری یہ شاعری

ہونٹوں پہ شاعری ترے زلفوں پہ شاعری
تجھ سے نہیں رہی جدا میری یہ شاعری

تیرے بنا تو کیسے لکھوں کوئی شعر میں
بس ہے یہ تیرا مدعا میری یہ شاعری

میں دیکھتا ہوں ہر گھڑی اب تو یہی یہاں
ہوتی ہے آپ پر فدا میری یہ شاعری

طلحہؔ نہیں سہہ پاؤں گا دوری کبھی تری
ہے دیکھ لو تری صدا میری یہ شاعری

جنید رشید راتھر( طلحہ )
آونوہ شوپیان
[email protected]

دل و جگر پر وار کر کے چھوڑدیا
وہ مجھے گرفتا ر کر کے چھوڑدیا

وہ آنکھیں، وہ زلفیں،وہ ادا ئیں
یہ سب مجھے بے قرار کر کے چھوڑدیا

شیشے کی مثل تھی میری زندگی
پر اُس نے اسے بے کار کر کے چھوڑدیا

تکمیل ِ نظر ابھی با قی تھی کہ لحا ظہ
وہ مجھے بیدار کر کے چھوڑدیا

اس کی بے حیائی محبت نے عاشقؔ
زندگی کو گنہگار کر کے چھوڑدیا

محمد عارف عاشق ؔ
[email protected]

آج تیرا دل چُرانے آیا ہوں
دہر میں ہلچل مچانے آیا ہوں

دل کی ڈھڑکن چُھٹ گئی ہے اسلئے
سینے سے تجھ کو لگانے آیا ہوں

عشق میں تیرے سبھی ہارے گئے
آج میں تجھ کو ہرانے آیا ہوں

آنکھ میں تیری نمی طاری ہوئی
ڈوب کر خود کو بچانے آیا ہوں

عشق کرتاہوں مزملؔاُن سے میں
راز یہ سب کو بتانے آیا ہوں

مزمل معراج
نیو مارکیٹ کولکتہ، مغربی بنگال
موبائل نمبر؛8100366033

تیری الفت کا مرے دل کو دلاسا تو ملے
تُو اگر میرا ہے پھر کوئی اشارا تو ملے

پیار کا دریا رواں ہے مِرے دل کے اندر
بات اب یہ ہے یہاں کوئی پیاسا تو ملے

تُو جو کہہ دے تو میں خود کو بھی مٹا دوں جاناں
مجھ کو اے جانِ وفا تیرا سہارا تو ملے

چھوڑ آئوں گا غموں کی میں پٹاری بھی وہیں
راہِ اُلفت میں سُلگتا ہُوا صحرا تو ملے

لوگ سمجھے کہ مقیّد ہوں خوشی سے اپنی
بھاگ جائوں گا نکل کر مجھے رستہ تو ملے

چین آیا کیا اُسے توڑ کے دل، پوچھوں گا؟
امتیازؔ آ کے مجھے یار دوبارہ تو ملے

امتیاز گورکھپوری
ممبئی، مہاراشٹرا