غزلیات

کل ہوا آج تو اب آج کو ہے کل ہونا
اپنے افسانے کو آیا نہ مکمل ہونا
یعنی سب ٹھاٹ پڑا یوں ہی یہ رہ جائے گا
یعنی طے پایا ہے اس گھر کا مقفل ہونا
موسمِ وصل پہ اِتراو نہ بانکے رسیا
ہجر کی شاخ پہ لکھا ہے جو حنظل ہونا
گردشِ وقت سکھاتا ہے سمٹنا کیا ہے
دھوپ میں اپنی ہی چھاؤں پہ مفصل ہونا
خواب چاہت کے جہاں بوئے دھنک سے مانگے
کس کو معلوم تھا اس جاء کو ہے مقتل ہونا
ساعتِ وصل کا کفارہ ہے یہ فصلِ فراق
آنکھ روئے گی محبت میں ہے اَفضل ہونا
راکھ ہوتے ہوئے پروانے سے پایا شیدؔا
کس کو کہتے ہیں خسارے پہ توکل ہونا

علی شیداؔؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد، اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419045087

ایک ہی ساتھی ہے میرا جو کہ میرا یار ہے
ساتھ دینے کے لیے وہ ہر گھڑی تیار ہے

دھوکہ دے کرجب مجھے سب ہی چلے جاتے ہیں دور
پوچھنے وہ حال آتا روز ہی سو بار ہے

ہو گئیں رخصت جو خوشیاں، قرب میں رہ کر کوئی
کہہ رہا ہے حوصلہ رکھ ساتھ تیرے یار ہے

کیوں ہے منہ لٹکا ہوا یوں، پوچھتا اکثر ہے وہ
کیوں بنائی ایسی صورت تو نے آخر کار ہے

وہ لپٹتا ہے گلے مجھ سے کہ جیسے ہار ہو
دے رہا ہے اک اشارہ مجھ سے اُس کو پیار ہے

دوستی رکھوں خوشی سے کیوں بھلا شادابؔ میں
غم جو اپنا ہر غمی میں مونس و غمخوار ہے

غلام رسول شادابؔ
مڑواہ (کشتواڑ)
موبائل نمبر؛9103196850

جو سنگ دل ہے کبھی باوفا نہیں ہوتا
کہ پوجنے سے کوئی بُت خدا نہیں ہوتا

خدا کے واسطے چھیڑو نہ تم میرے دل کو
شکستہ ساز ہے نغمہ سرا نہیں ہوتا

وفا، خلوص، شرافت، جفا، ریاکاری
کسی کے چہرے پہ یہ سب لکھا نہیں ہوتا

ہجومِ درد سے گھبرا کے کب کے مرجاتے
کسی کے پیار کا گر آسرا نہیں ہوتا

خلوصِ دل سے جو مانگو تو کیا نہیں ملتا
نہ ہو خلوص تو سجدہ ادا نہیں ہوتا

بُرا سمجھنے کا اس کو کوئی جواز نہیں
برے تو ہم ہیں زمانہ بُرا نہیں ہوتا

راشد احمد راشدؔ
کشن باغ،حیدر آباد
موبائل نمبر؛9951519825

پھول اخلاص کے ہونٹوں پہ سجانے والا
میں ہوں دشمن کو بھی سینے سے لگانے والا
جاکے پردیس مرے گھر کا پتہ بھول گیا
اپنا بچپن مرے آنگن میں بِتانے والا
ایسا بچھڑا کہ خیالوں میں بھی آیا نہ کبھی
کتنا خوددار تھا وہ روٹھ کے جانے والا
میرے دشمن تجھے معلوم نہیں ہے شاید
مارنے والے سے بڑھ کر ہے بچانے والا
وہ جو پکڑا گیا اِک روٹی چُراتے بچہ
گھر میں اس کے نہیں تھا کوئی کمانے والا
اس کی یادوں کو کلیجے سے لگائے رکھئے
اب نہ آئے گا کبھی لوٹ کے جانے والا
کیسے کرتا میں شکایت بھی کسی سے اے رفیق ؔ
میرا اپنا ہی تھا دل میرا دکھانے والا

رفیقؔ عثمانی
آکولہ ، مہاراشٹرا
[email protected]

یہ کہو دل لگانے سے کیا فائدہ
خواں مخواہ دل جلانے سے کیا فائدہ

بھول جاؤ اسے خیر ہے اس میں یار
اشک ہر پل بہانے سے کیا فائدہ

وہ کسی پل نہ آئے میرے در تلک
آج آنے نہ آنے سے کیا فائدہ

جانتے ہو کہ عشق دھوکہ تو پھر
یار غم پھر اٹھانے سے کیا فائدہ

دیکھ کر وہ کبھی مسکراتے نہیں
بس ہم ہی مسکرانے سے کیا فائدہ

بشارت کریمی
موبائل نمبر؛ 9177695785

یہ تڑپ ،بے کلی نہیں جاتی
کیوں خموشی سہی نہیں جاتی
چاند سے چاندنی نہیں جاتی
طاق سے روشنی نہیں جاتی
روٹھ ہر خوشی نہیں جاتی
بے وجہ زندگی نہیں جاتی
حال ِ دل کس کو تم سناؤ گے
’’اب شکایت بھی کی نہیں جاتی ‘‘
یوں ترا پھر خیال آیا ہے
خوشبو دل میں بسی نہیں جاتی
بوجھ لگنے لگے ہیں سائے بھی
رات بھر تیرگی نہیں جاتی
سوکھ جائیں اگرچہ دریا بھی
آنکھ سے یہ نمی نہیں جاتی
میری چاہت کا اعتبار کرو
جان یونہی تو دی نہیں جاتی
شاخ سے ٹوٹتا نہیں جب تک
پھول سے تازگی نہیں جاتی
چھوڑ کر در ترا کہاں جاؤں
خاک در در کی لی نہیں جاتی
لاکھ دنیا بنائے باتیں اب
شاہیںؔ کی سادگی نہیں جاتی

رفعت آسیہ شاہینؔ
وشاکھاپٹنم آندھرا پردیش
موبائل نمبر؛9515605015

دلِ مجروح کو چین نہ آئیگا
شاید مر کر ہی یہ دوا پا ئیگا
اک بار راہ سے کیا بھٹکا میں
اب کیا ساری عُمر آزما ئیگا
تیری تلاش میں جُو نہی میں نکلوں
رقیب میرا یہ شبستان جلائیگا
عشق کی چوکھٹ پر رکھ تو قدم
بھید ازل کے تُو جان جائیگا
اوراق پہ جھوٹ کی سیاہی ہے
منصف کیا مجھے انصاف دلائیگا
مجھ سے میری پہچان کولےکر
اب کس ستم سے مجھے ڈرایئگا
بےوفائی تیری رگوں میں ہے
کیا وفا کا سبق مجھے پڑھیگا
صداقت یہاں مجروح ہورہی ہے
تو کب اپنے لبوں کو ہلائیگا
راشدؔ کشتی کو لہروں سے ٹکرا
تب تُو کنارے پہ پہنچ جایئگا

راشد اشرف
کرالہ پورہ، چاڈورہ