غزلیات

قدرت نے جس کو صاحبِ وجدان کر دیا
اس کو جمالِ یار نے حیران کر دیا
دلکش خیالِ وصل ہے، سب کچھ یہی نہیں
پیدا مری حیات کا امکان کر دیا
ممکن نہ تھی رسائی، فقط رسمِ مستقل
میرے رقیب کو ہی نگہبان کر دیا
تکرار آج بھی ہے، شفق سا گلال بھی
جس بات پر کہ چاک گریبان کر دیا
عشرت کدوں میں واں ہیں بڑی بے نیازیاں
یاں دشتِ ہُو کو ہم نے شبستان کر دیا
ہے بزم بے ثبات ہراساں کئے ہوئے
آرائشِ جہاں نے پریشان کر دیا
محظوظ کیوں نہ ہوں وہ مرا حال دیکھ کر
دیوانگی میں دل کو بیابان کر دیا
مشکل میں گو حیات، تردّد میں جان ہے
دل کو ترے خیال سے گنجان کر دیا
اس سے بڑی مثال کرم کی نہیں کوئی
مجھ کو مِرے خدا نے مسلمان کر دیا

ڈاکٹر مظفر منظور
اسلام آباد اننت ناگ کشمیر
موبائل نمبر؛9469839393

 

خدشہ تھا جس کا باپ کو وہ بات ہوگئی
آخر لڑائی بیٹوں میں کل رات ہوگئی
دامن پسارے رہ گئے جتنے غریب تھے
تقسیم سب امیروں میں خیرات ہوگئی
تھی آرزو کہ چاند کو دیکھوں قریب سے
اچھا ہوا کہ تم سے ملاقات ہوگئی
بادل تمہاری یاد کے جب دل پہ چھاگئے
آنکھوں سے میری ٹوٹ کے برسات ہوگئی
جسکو سکھائے میں نے لڑائی کے داؤ پیچ
اس کے ہی ہاتھوں آج میری مات ہوگئی
مفلس جہیز دے نہ سکا , اس لئے رفیقؔ
واپس تمام دولہے کی بارات ہوگئی

رفیق عثمانی
آکولہ،مہاراشٹرا
[email protected]

میں کیا ہوں یہی نہیں معلوم
آگ، شبنم ، کلی نہیں معلوم

بے وجہ ،بے رخی نہیں معلوم
مجھ میں تھی کیا کمی نہیں معلوم

گر سمندر ہو پیاسا تو
اس کی تشنہ لبی نہیں معلوم

تم سے تعلق بنا تو لوں لیکن
فرض، واجب ابھی نہیں معلوم

یاد کرنے دے درسِ زندگانی
وہ ہے ، اچھی بری نہیں معلوم

دردِ دل ہے سزا نہیں معلوم
کیسی ہے بے کلی نہیں معلوم

مجھ کو ناؔزاں جبیں کہا کس نے
حور ہے یا پری نہیں معلوم

جبیں نازاں
لکشمی نگر ، نئی دہلی
[email protected]

اب کے کھلونے کم ہی مجھ کو بھاتے ہیں
چاند نگر سے جوگی لُٹ کر آتے ہیں

غیر تو غیر ہیں شکوہ کیا بے گانوں کا
کتنے ستم اپنے بھی ہم پر ڈھاتے ہیں

پہلے تھی شہروں کی فضائیں کتنی شانت
اب ہر موڈ پہ کالے کوئے ستاتے ہیں

دل کی باتیں بن بنجارے کی آواز
دور خلا سے پنچھی لوٹ کے آتے ہیں

جو گزری ہے اُسکا نشاں تو کچھ بھی نہیں
ہاں کم زیادہ شبدوں میں ڈھل جاتے ہیں

مشتاق مہدی
مدینہ کالونی۔ ملہ باغ حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر؛9419072053

آو پھر تعمیر گلستان کریں
مل کے سبھی جشن بہاراں کریں
گرا دیں نفرتوں کی مل کر دیوار
گلے مل جائیں محفل یاراں کریں
درد ہم سب نے سہے ہیں بہت
مل جائیں تو درد کا درماں کریں
آشیانے بہت اُجڑے ہیں چمن کے
گھر نئے ہوں کہ جشن آشیان کریں
بُھلا کر ظلم کی باتیں گلے مل جائیں ہم
مل کے دونوں علاج روح و جان کریں
دشمنی خوب کی اب دوستی کرلیں
مل جل کے تعمیر گلستان کریں
بھوکے ہیں سوالی ہیں ہمارے بچے
بم و میزائل بنانے سے گریزاں کریں
کیوں کریں مغرب کی غلامی ہم
یوں ہی قاتل کے لیے نالہ و فغاں کریں
آستینوں میں جو خنجر لیے بیٹھے ہیں
سر بازار ساقیؔ انہیں عریاں کریں

امداد ساقیؔ
لعل بازار، سرینگر
موبائل نمبر؛ 9419000643

کیوں چراغوں کو بجھایا جارہا ہے
اور اندھیروں کو بڑھایا جارہا ہے

اب غریبوں کی یہ حالت ہو گئی
آج پھر پانی پکایا جارہا ہے

کام آئیں گے تمہارے ووٹ ہیں
کیوں غریبوں کو ستایا جارہا ہے

دھوپ کے اب تو تماشے چھوڑ دے
کہ ہوئی ہے شام سایا جا رہا ہے

جب وفاداری مسرتؔ کی ہے ثابت
اب اسے کیوں آزمایا جا رہا ہے

مسرت جہاں مسرتؔ
نائب مدیرہ سہ ماہی’’ مشیر عصر‘‘ ،بجنور ،یوپی
[email protected]

سیاہ و سفید میں سمٹ گئے
رنگ جو تھے سب مٹ گئے

کیا تھا اُس نے ہر ایک وعدہ
ہم ہی تھے پیچھے ہٹ گئے

پہنچے منزلِ مقصود کو ہم
تن من سے ہی جب جُٹ گئے

رکھنا نہ پاس پھر کچھ اُس نے
فاصلے درمیاں کے جب مٹ گئے

صورتؔ پُھوٹی جو اک کرن اُمید کی
بادل گھنے تھے جو، چَھٹ گئے

صورت ؔسنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549