غزلیات

تمہارا قُرب پانے سے ہوئی ہے شام مستانی
ذرا سا مسکرانے سے ہوئی ہے شام مستانی
عجب خاموشیاں چھائی ہوئی تھیں چار سُو جاناں
تمہارے گُنگنانے سے ہوئی ہے شام مستانی
ستارے اوڑھ کر نکلی تُو جس دم ڈل کنارے پر
شکارے جگمگانے سے ہوئی ہے شام مستانی
رگ و پے میں سرایت کر گئی خوشبو عقیدت کی
ترے کمرے میں آنے سے ہوئی ہے شام مستانی
اُداسی بن کے تاریکی نے سب کچھ ڈھانپ رکھا تھا
ترا چہرہ دکھانے سے ہوئی ہے شام مستانی
قدم رکھتے ہی محفل میں چھلک اُٹھے ہیں پیمانے
ذرا گھونگھٹ اُٹھانے سے ہوئی ہے شام مستانی
ہماری یاد میں مل کر ہجومِ شہر میں یارو
بھری محفل سجانے سے ہوئی ہے شام مستانی
بُھلا کر کُلفتیں ساری لگے جب میکدے جانے
صُراحی ٹوٹ جانے سے ہوئی ہے شام مستانی
تری آغوش میں تھا جس گھڑی میں بے خبر سویا
صدا دے کر جگانے سے ہوئی ہے شام مستانی
کبھی ویران راتوں میں ہماری قبر پر آکر
تری چادر چڑھانے سے ہوئی ہے شام مستانی
قلم تیرا چلا کچھ اس طرح مانوسؔ صحرا میں
سُخن کے گُل کھلانے سے ہوئی ہے شام مستانی

پرویز مانوس ؔ
نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛9622937142

نظریں ملی ہے کب سے نظریں جُھکائیے
دل لُٹ رہا ہے ہر چند نظریں ہٹائیے

اب بات نہ شکایت مُنہ دیکھتے ہو کیا
دم بخود ہوا ہوں کب سے لب تو ہلائیے

رہے دوست میرے ، تیری بے رُخی سلامت
تو جہاں بھی رہے گا تجھے راس غم نہ آئیے

پلکیں اُٹھا اُٹھا کے ، برسا رہے ہو تم کیا
تم تیر مار بیٹھے اور تیر ہم نے کھائیے

خواہش نہ آرزو ہے بے رنگ زندگی میں
کس آس پہ جیوں میں ہم کو بتائیے۔۔۔!!!

مُضطردل یہ میرا، مشتاقؔ ہوں میں تیرا
تیری دیدِ عید میری رُخ تو دِکھائیے

خوشنویس میر مشتاقؔ
ایسو، اننت ناگ
[email protected]

باغ خوشبودار ہے پازیب کی جھنکار سے
ہر کلی سرشار ہے پازیب کی جھنکار سے

جانِ جاں نے خوب رویا میں نے جب اُس کو کہا
دل کو کتنا پیار ہے پازیب کی جھنکار سے

جانتا ہے ہی نہیں بندر جو اَدرَک کا سواد
اس لیے بے زار ہے پازیب کی جھنکار سے

گرچہ آنکھیں دیکھ سکتی ہیں نہیں میری،مگر
لگ رہا ہے یار ہے پازیب کی جھنکار سے

وہ جو آئی سی یو میں تھا اک زمانے سے، وہ بھی
ہو گیا ہشیار ہے پازیب کی جھنکار سے

صاحبِ فن کوئی تھا وہ ،خواب میں آ کر کہا
میر بھی فن کار ہے پازیب کی جھنکار سے

آج اُس معیار کی، غائب ہے چھن چھن کی صدا
لگ رہا بیمار ہے پازیب کی جھنکار سے

ہے مجھے معلوم بسملؔ میری اپنی کائنات
اصل میں بیدار ہے پازیب کی جھنکار سے

سید مرتضیٰ بسمل
پیر محلہ شانگس اسلام آباد
موبائل نمبر؛6005901367

بُجھا کر دل جلاجانا مگر اب ساتھ رہ جانا
یوں ہی تاعمر تڑپانا مگر اب ساتھ رہ جانا

نہ اپنانا نہ ٹھکرانا، جو جی چاہے تو جُھٹلانا
جو کرتے تھے وہ دہرانا مگر اب ساتھ رہ جانا

ازل سے ہی محبت کے مقدر میں تباہی ہے
بھلے پڑ جائے پچھتانا مگر اب ساتھ رہ جانا

نہ الفت کی روانی ہے، نہ فصلِ جاودانی ہے
نہ ہے موجود پیمانا مگر اب ساتھ رہ جانا

وفا کرلو ،جفا کر لو ،ہمیں پھر سے خفا کر لو
جو کرنا ہو وہ کر جانا مگر اب ساتھ رہ جانا

بہاریں لوٹ نا آئیں، جو کلیاں مل نہیں پائیں
تو کانٹے چن کے لے آنا مگر اب ساتھ رہ جانا

محبت کے سفر میں بھی ہوئی ہم سے خطائیں ہیں
سزاؤں کے ستم ڈھانا مگر اب ساتھ رہ جانا

تری قربت بھی تھی عذراؔدُعابھی تھی،دوابھی تھی
ہوا ممکن شفا پانا مگر اب ساتھ رہ جانا

عذرؔا حکاک
نوہٹہ، سرینگر ،کشمیر
[email protected]

دنیا کی جستجو میں زمانہ بہت ہوا
اب یاد کر خدا،کو بہانہ بہت ہوا
لب بستہ رہنے پر بھی ہنسے اہلِ بزم خوب
میں نے کہا نہیں جو فسانہ بہت ہوا
ہجرت کی آندھیوں میں نہ طائر فقط لُٹا
برباد شاخِ گُل بھی ٹھکانہ بہت ہوا
اک پل کے واسطے نہ ملی راحتیں اُسے
جو شخص سیم وزر پہ دِوانہ بہت ہوا
آشفتگی کے خواب نے مجھکو جگا دیا
اس بار شورِ سگ بھی شبانہ بہت ہوا
الزام آرزو میں فقط تو نہیں ملے
دل آشنا کے ہاتھوں نشانہ بہت ہوا
اپنا سمجھ کے عارفؔ جو سب نے لُٹادیا
خالی اسی طرح سے خزانہ بہت ہوا

جاوید عارف
شوپیان کشمیر
موبائل نمبر؛7006800298

جو خوشی کل ملی تھی آج نہیں
میرے غم کا کہیں علاج نہیں
دل کی دنیا الگ ہی ہوتی ہے
کیوں دلوں پر کسی کا راج نہیں
یاد ہے تیری بے رخی ہم کو
قافلے یاد کے تاراج نہیں
کتنا جلدی بدلتے ہیں موسم
موسموں کا کوئی مزاج نہیں
بے وفائی ہے آج لوگوں میں
ہنستا بستا کوئی سماج نہیں
ہر خوشی اُس کی چھین جاتی ہے
شاخِ گل کو کوئی خراج نہیں
ہاتھ ملانے سے کام بنتے ہیں
ہاتھ جوڑنے کا اب رواج نہیں
رِیت بدلی ہے اب زمانے کی
گھر میں رہتا کہیں اناج نہیں
سخت حیراں ہوں نسلِ انساں میں
اب ذرا بھی حیا و لاج نہیں
لوگ ملتے ہیں صرف مطلب سے
شاہیںؔؔ سے ملتا وہ مزاج نہیں

رفعت آسیہ شاہین
وشاکھاپٹنم آندھرا پردیش
موبائل نمبر؛9515605015

نہ میں زر مانگوں نہ پیار تیرا
بس یوں ہی ہوتا رہے انتظار تیرا

کبھی خوابوں کا کبھی خیالوں کا
محض میں کرتا رہوں شکار تیرا

دل پہ وار دے یا دل میں شاد دے
پھر بھی میں کرتا رہوں شمار تیرا

تو جام الفت پلا یا جامِ فرقت
یقیناً میں کرتا رہوں اختیار تیرا

یہ جو دیا ہے تحفہ مجھے جدائی کا
پھر بھی میں کرتا رہوں اعتبار تیرا

ممکن نہیں بچھڑجاؤ ںتجھ سے،اے جانم
یوہی کرتا رہوں دل پہ وار تیرا

بس اتنا ہی چاہتا ہے عاشقؔ تجھ سے
کاش گلی میں ہوجائے لیل و نہار

عارف حسین عشقؔ
طالب دارالھدی پنگنور
[email protected]