غزلیات

اپنے پیچھے آرہا ہوں
خود سے آگے جارہا ہوں

بھوک کی اقسام ہیں یہ
جھوٹی قسمیں کھارہا ہوں

خود کو لانا بُھول بیٹھا
آپ رُکئے، لارہا ہوں

جنبشوں کے راستے پر
خود کو بس ٹھہرا رہا ہوں

ہجر زادی روئیے کیوں
دیکھئے میں گا رہا ہوں

سایہ اپناہاتھ آیا
دھوپ میں پھیلا رہا ہوں

ماپ لو شیدؔا خسارہ
اور اب کتنا رہا ہوں

علی شیدا ؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد،کشمیر
موبائل نمبر؛9419045087

دنیا کی جستجو میں زمانہ بہت ہوا
اب یاد کر خدا، کو بہانہ بہت ہوا

لب بستہ رہنے پر بھی ہنسے اہلِ بزم شب
میں نے کہا نہیں جو فسانہ بہت ہوا

ہجرت کی آندھیوں میں نہ طائر فقط لُٹا
برباد شاخِ گل پہ ٹھکانہ بہت ہوا

اِک پَل کے واسطے نہ ملی راحتیں اُسے
جو شخص سیم وزر پہ دِوانہ بہت ہوا

الزام آرزو میں فقط تو نہیں ملے
دل آشنا کے ہاتھوں نشانہ بہت ہوا

اپنا سمجھ کے عارفؔ جو سب نے لُٹا دیا
خالی اسی طرح سے خزانہ بہت ہوا

جاوید عارف ؔ
شوپیان کشمیر
موبائل نمبر؛7006800298

تجھ سے بچھڑ کر بہت غم کیا
خشک آنکھوں کو دریا سا نم کیا

تیری یاد کے نشان جہاں بھر آئے
اس جگہ ہم نے پھر چاک زخم کیا

خنجر کی کہاں ضرورت تھی جاناں
تیری چاہ نے ہی وہ درد و ستم کیا

یہ عشق جسے کہتے ہو، تم زہر
سنگ دل کو میرے بہت نرم کیا

میری وفا نہ وہ بے درد سمجھ سکا
جس کے شوق میں اپنا خدا برہم کیا

تیری فرقت سے ہی مر جاتا یہ جمیل
مفت زہر پلا کر تکلّف میرے صنم کیا

جمشید احمد میاں
پٹن،بارہمولہ

دیکھ پاتا ہے وہی بہاروں کو
جو سمجھتا ہے وقت کے اشاروں کو

خامیاں اپنی لکھنے لگتا ہوں
دیکھتا ہوں جب بھی بے قراروں کی

لالہ گُل سمجھا تھاہاتھ میرا جل گیا
بھول سے میں نے چُھو لیا شراروں کو

جیتے جی تھک سا گیاہوں دوستو
سوچتا ہوں اس لئے مزاروں کو

آنسوئوں کی تیری اوقات ہے کیا سعیدؔؔ
روتے ہوئے میں نے دیکھا کوہساروں کو

سید احمد سعیدؔ
احمد نگر، سرینگر
موبائل نمبر؛9906355293