غزلیات

جاگتی آنکھوں میں کیسے کیسے بھر جاتے ہیں خواب
جو زمانہ کر نہیں سکتا وہ کر جاتے ہیں خواب
خواب جو شرمندۂ تعبیر ہو پاتے نہیں
دھیرے دھیرے آپ اپنی موت مر جاتے ہیں خواب
عشق جب کرتے ہیں انسانوں سے تووہ ایک دن
آدمی کی زندگی کی مانگ بھر جاتے ہیں خواب
کاٹتی ہے گھر میں وحشت بارہا یہ آنکھ بھی
کچھ سمجھ آتا نہیں آخر کدھر جاتے ہیں خواب
جب کبھی تعبیر کی تصویر بنتی ہے کہیں
دیکھ کر تعبیر کی تصویر ڈر جاتے ہیں خواب
آرزوؤں کے محل میں مست جب ہوتا ہے دل
چپکے چپکے روح کی چھت پر اُتر جاتے ہیں خواب
آنکھ کی آغوش میں جب نیند سوجاتی ہے تو
نیند کی سیڑھی سے آنکھوںمیں اُتر جاتے ہیں خواب
خوا ب کو میں دیکھتا ہوں اور مجھ کو خواب شمسؔ
آئنے میں دیکھ کر خود کو سنور جاتے ہیں خواب

ڈاکٹر شمس کمال انجم
صدر شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر؛9086180380

سینہ فگار درد کے مارے چلے گئے
ماتم کدے سے لوگ وہ سارے چلے گئے
خنجر چلانے والا نہ دامن بچا سکا
گردن سے اپنی خون کے دھارے چلے گئے
تشنہ دہن سے خوف زدہ کس قدر تھے وہ
لشکر لئے فرات کنارے چلے گئے
پرور دگار تیری سخاوت ہوئی نہ کم
ہم لوگ ہاتھ اپنا پسارے چلے گئے
بھرتے رہے ہم آہ انہیں دیکھ دیکھ کر
کھڑکی پہ گیسو اپنے سنوارے چلے گئے
گرمی سلگتی سانسوں کی تن کو جھلس گئی
ہم اس قدر قریب تمہارے چلے گئے
مقصود ساری عمر خوشی بالخصوص تھی
ہر دن نظر ہم اپنی اُتارے چلے گئے
شطرنج کی بساط نے برباد کردیا
گھر بار ہم بھی داؤ میں ہارے چلے گئے
محفل کی شرط نیم برہنہ لباس تھی
تہذیب دار شرم کے مارے چلے گئے
چادر نہ اپنے قد کے برابر اَنا کی تھی
باہر غیاثؔ پاؤں ہمارے چلے گئے

غیاثؔ انور شہودی
ہوگلی، ویسٹ بنگال
موبائل نمبر؛09903760094

کیوں محبت میں آخر وفا نہ ملے؟
درد ملتا رہے اور دوا نہ ملے
ایک ملنا تیرا سب سے دشوار ہے
ورنہ ملنے کو دنیا میں کیا نہ ملے
اِک زمانہ لگے ڈھونڈتے ڈھونڈتے
تیزی زُلفوں میں کوئی چُھپا نہ ملے
بہت حسرت سے کی تھی تمنا مگر
مسکراہٹ ہی دے دو ’’کہا‘‘ نہ ملے
ہیں حسیں نوجواں تو بہت آج کل
پر کسی میں ذرہ بھر حیّاہ نہ ملے
ہمیشہ یہی فکر لاحق رہی
کبھی کوئی ہم سے خفا نہ ملے
دشمنوں کو بھی خورشیدؔ تیرے کبھی
ملے یار تو بے وفا نہ ملے

سید خورشید حسین خورشیدؔ
چھمکوٹ کرناہ،
موبائل نمبر؛9596523223

میں تجھ کو سوچتی ہوں یہی کام کاج ہے
قبضے میں تیرے ہی تو مرا کل ہے آج ہے
تنہائی کا اُڑائے نہ میری کوئی مذاق
یہ میرے رنج و غم کا مکمل علاج ہے
آزادیاں تو بس یہاں لفظوں میں رہ گئیں
پابندیوں کا سارے زمانے پہ راج ہے
کس طرح سے بدل گیا گلشن کا یہ نظام
پھولوں کے سر پہ دیکھئے کانٹوں کا تاج ہے
مطلب نہیں کسی کو حقوق العباد سے
اپنے میں سب ہیں کھوئے یہ کیسا سماج ہے
قسمت نے کر دیا ہے غریبوں کو در بدر
کپڑے ہیں تن پہ اور نہ گھر میں اناج ہے
میں آگئی ہوں کون سی محفل میں اے ثمرؔ
جس کو بھی دیکھئے وہی عاشق مزاج ہے

سحرش ثمرؔ
اے- ایم- یو علی گڑھ

عشق میں یہ کس قدر جاہِل رہا
دل نہیں اب مُرشدِ کامِل رہا
جو رہا غالِب وہی غافِل رہا
یہ حیاتِ درد کا حاصل رہا
میں نہیں لائق اپنے دل کے اب
اب یہ دل بھی جانے کس قابِل رہا
پیاس صحرا کی بھی دیکھو بُجھ گئی
ہائے تِشنہ لب مگر ساحِل رہا
عاجزی میں ہوگئے بے آبرو
شادمانی میں یہ غم شامل رہا
تاجِ دارِ جان و دل تھا جو کبھی
تیرے کوچے میں وہی سائِل رہا
پاس ہوکے بھی رہا مجھ سے جُدا
کچھ تو تھا جو درمیاں حائل رہا
کیوں خلشؔ خاموش ہے تیری زُباں
کیوں قلم بھی خَستَہ پا کاہِل رہا

خلشؔ
لارم اسلام آباد کشمیر
[email protected]