غزلیات

نعت رسول ﷺ
پہلے یہ زبان عطر وعنبر سے دھلی جائے
سرکارِ مدینہ کی تب نعت پڑھی جائے
قرآں کی تلاوت جو پاپندی سے کی جائے
پھر کیوں نہ بَلا گھر سے ہر ایک چلی جائے
اے مولا دکھائے گا کب شہرِ نبی مجھ کو
ہر لمحہ مرے دل کی بیتابی بڑھی جا ئے
جب پیش نظر میرے سرکار کا روضہ ہو
اے کاش اسی لمحہ یہ جان چلی جائے
ہر لفظ محبت کی خوشبو سے معطر ہو
مدحت مرے آقا کی اس طرح سے کی جا ئے
آفات و مصائب یہ لمحوں میں ہٹیں سر سے
سرکارِ دو عالم سے جو عاجزی کی جا ئے
جو دل میں نہ رکھتا ہو سرکار کی الفت کو
کیوں ایسے مقرر کی تقریر سنی جائے
جو اس کو بنانا ہے نورانی بہت “زاہد”
چہرے پہ مدینے کی بس خاک ملی جائے

محمد زاہد رضابنارسی
دارالعلوم حبیبیہ رضویہ
گوپی گنج، بھدوہی۔ یوپی

 

آمدِ نبیؐ
وہؐ آئے تو گلشنِ ہستی میں آئی بہار
وہؐ آٗے تو گو گلزار بن گئے سب ریگزار
وہؐ آئے تو اندھیروں پہ اُجالوں کا ہوا غلبہ
بساط طاغوت کی اُلٹ گئی یکبار
وہؐآئے تو عدل و انصاف کا ہوا قیام
وہؐآئے تو عہد و پیماں ہوئے استوار
وہؐآئے تو بس کس ہوئے شاد کام
وہؐ آئے تو یتیموں کو ملے غمخوار
وہؐ آئے تو آئین جہانداری قرار پایا
وہؐ آئے تو اخلاق پہ آیا نکھار
وہؐ آئے تو توحید کی قوتِ نو مل گئی
وہؐ آئے تو شِرک ہو اسرنگوں شرمسار
وہؐ آئے تو قسمتِ نسواں جاگ اُٹھی
وہؐ آئے تو انسانیت کا بڑھ گیا وقار
وہؐ آئے تو حیات انسانی نے کروٹ لی
وہؐ آئے تو آدم بنا صاحبِ وقارِ
وہؐ آئے تو دل لطف و کرم سے بھر گئے
وہؐ آئے تو رقابتوں کا بند ہوا بازار
وہؐ آئے تونغمۂ حیات ساتھ لائے
وہؐ آئے تو خدائی ہوئی آشکار

غلام نبی نیئر
کولگام، کشمیر،موبائل نمبر؛9596047612

 

شہدا ئے کربلا کے نام

شہید کربلا کی ذات کیا ہے
یزیدی جانتے ہیں مات کیا ہے

کٹا کے سر سرِ باطل جھکا یا
حسین ابن علی کی بات کیا ہے

جو گزری کربلا کے زخمیوں پر
کٹھن اس سے زیادہ رات کیا ہے

کیا ہے وار سجدے میں حسینؓ پر
یزیدی تیری منافقانہ گھات کیا ہے

شہادت معتبر ہوئی حسینؓ کی
یزید تیری یہاں اوقات کیا ہے

ملے سارا جہاں تو کچھ نہیں کوثر
شہادت کے سامنے سوغات کیا ہے

شیبا کوثر
آ رہ ،بہار
[email protected]

 

یوم آزادی
آ زاد یہ زمیں ہے
آ زاد یہ گگن ہے
آ زاد ہیں ہوائیں
آ زاد یہ چمن ہے

دامن میں بھر کے اپنے
خوشیاں ہزار لایا
تاریخِ ہند میں یہ
دن یاد گار آ یا

آ زاد ہم ہوئے تھے
تفریق ِ من و تو سے
آ زادیاں ملیں ،جب
سینچی زمیں لہو سے

اہلِ وطن کو جینا
تب سازگار آ یا
تاریخِ ہند میں یہ
دن یاد گار آ یا

باپو کی آ س ہے یہ
نہرو کا خواب ہے یہ
آ زاد ؔکی تمنا
اک آ فتاب ہے یہ

بامِ افق ہے روشن
اک زر نگار آ یا
تاریخِ ہند میں یہ
دن یاد گار آ یا

محمد اسد اللہ،ناگپور
موبائل نمبر؛9579591149

 

گاؤں کی اور
چلی پَون پِھر ساون رُت کی چھائی گھٹا گھنگھور
میرے مَن کا بِیا کُل پنچھی اُڑے گاؤں کی اور
چھائی گھٹا گھنگھور
میرے گاؤں میں ہوتی ہوگی امرِت کی برسات
فصلوں کو سہلاتے ہونگے پُروائی کے ہاتھ
دھانی دھانی منظر پَھیلا ہوگا چاروں اور
چھائی گھٹا گھنگھور
جُھول رہی ہونگی کنّیائیں نِیم پہ جُھولا ڈال
سُندرتا کی دولت سے سب ہونگی مالا مال
چُھوٹتی ہوگی لڑکوں کے ہاتھوں سے دِل کی ڈور
چھائی گھٹا گھنگھور
انگنائی میں گُونجتی ہوگی بارِش کی جھنکار
اور کبھی آتی ہوگی دالانوں تک بَوچھار
شام سلونی ہوتی ہوگی اُجلی اُجلی بھور
چھائی گھٹا گھنگھور
گُونج رہے ہونگے باغوں میں کوئلیا کے گیت
اور پپیہا ڈُھونڈتا ہوگا اپنے مَن کا مِیت
پی پی کرتا پیڑوں پر وہ کرتا ہوگا شور
چھائی گھٹا گھنگھور
جانے وہ کِس حال میں ہوگی جاؤں اِس کے پاس
کِھڑکی پر وہ بَیٹھی ہوگی ہو کر بہت اُداس
میری یاد میں کھویا ہوگا اُس کے مَن کا مور
چھائی گھٹا گھنگھور
بِیاکُل مُجھ کو کر دیتی ہے گاؤں کی اپنے یاد
قِسمت نے پردیس میں لاکر کِیا مُجھے برباد
جی کہتا ہے بھاگ چلیں جیراجپور کی اور
چھائی گھٹا گھنگھور
نیاز جَیراجپُوری
جالندھری ، اعظم گڑھ ، یو پی، موبائل نمبر؛9935751213

 

………
اردو ادب کا آج وہ معیا ر نہیں ہے
کرشن چندر و پریم سا فنکار نہیں ہے
ماتم کدہ ہیں آج کل اردو کے ادارے
کہتے ہیں اس پہ ر یختہ بیمار نہیں ہے
عشاؔق کشتواڑی کلاسیکی شاعری اور شعرا کے دلدادہ ہیں ۔میرتقی میرؔ، داغ،ؔ غالبؔ،حالی ؔ اور اقبال ؔ کے علاوہ فراقؔ،فیضؔ اور جگن ناتھ آزاد ؔ کی شاعرانہ عظمت کے قائل ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے متعدد اشعار میں ان شعرا کا ذکر بڑے ادب واحترام سے کیا ہے ۔’’نوائے شوق ‘‘کے شعری سرمایے میں عشاق ؔ نے ذاتی حالات وواقعات کے ساتھ ساتھ اُن تجربات ومشاہدات کو بھی شعری جامہ پہنایا ہے جنھوں نے ان کو متاثر کیا ہے یا اُن کی حسّاسیت پر کاری ضرب لگائی ہے۔مثلاً اُن کی دو نظموں ’’جیون اک فسانہ ہے‘‘ اور’’نغمہ ٔ یاس ‘‘سے ماخوذ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
یہی دستور ِ قدرت ہے یہ دستور ِ زمانہ ہے
یہ دُنیا دارِ فانی ہے یہاں آنا و جانا ہے
خیال وفکر میں اکثر غرور و فخر ہوتا ہے
جہاں میں تا ابد اپنا مکمل آب و دانہ ہے
مگر جب بھول کی اک دن طنابیں ٹوٹ جاتی ہیں
تبھی احسا س ہو تا ہے کہ جیو ن اک فسانہ ہے
(جیون اک فسانہ ہے)
مری خوابیدہ آنکھوں میں ہے منظر حال وماضی کا
مرے ایام ِ ماضی کیا عجب انداز میں گزرے
کسی بے نا م منز ل کی ہے جانب پھر سفراپنا
کوئی نادیدہ بستی پھر مرے تعاقب میں ہے شاید
نقاب ِ وقت اوڑھے پھر اندھیرے سائبانوں میں
کوئی زانوں پہ سر رکھ کر مجھے لو ری سُناتا ہے
شبستانِ تخیل کو عطا انداز کرتا ہے
یہی گوہر فشاں لمحے مجھے پھر شاد کرتے ہیں
گہے ِ پھر خود بخود کچھ کچھ مجھے ناشاد کرتے ہیں
(نغمہ ٔ یاس)
عشاؔق کشتواڑی کی اردو دوستی ،اردو شناسی اور اردو نوازی پر انہیں جتنی زیادہ داد دی جائے وہ کم ہوگی ۔اس لئے کہ اردو شعر وادب کا یہ شیدائی آج بھی دبستان لکھنو اور دبستان دہلی کی شعری محفلیں دیکھنے اور لکھنوی تہذیب ومعاشرت کا متمنی ہے ۔انھیں اس بات کا بھی دُکھ ہے کہ مغربی تہذیب ہماری ہندوستانی تہذیب پر منفی اثرات کے ساتھ غالب آگئی ہے جس کے باعث ہمارا معاشرتی نظام انتشار واختلال سے گزررہا ہے۔ اپنی کسی نہ کسی غزل یا نظم میں عشاقؔ نے اردو تہذیب کی عظمت کو ابھارنے پرزور صرف کیا ہے اور ساتھ ہی اس بات کا بھی رونا رویا ہے کہ اردو ہماری نئی نسل سے رخصت ہورہی ہے۔نمونے کے طور پر درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمایئے:
اُن کو ہی ثانی ٔ غالبؔ و حضرت میرؔ کہتے ہیں
جنہیں اہل زباں اکثر یہاں بے پیر کہتے ہیں
یہ مانو اہل دانش کا جہاں کچھ اور ہوتا ہے
وہ دُنیا علم و دانش کی جسے تصویر کہتے ہیں
وہی کم ظرف پھرتے ہیں لئے کشکول ہاتھوں میں
جہانِ فکر میں جن کو سبھی دلگیر کہتے ہیں
زبانِ میرؔ و حسرتؔ کا یہ رونا چھوڑیئے عشاقؔ
اسے اب نیم خواندوں کی اماں جاگیر کہتے ہیں
(نوائے شوق ،ص۲۱۰)
………
کاش ہوتی دیر پا یہ زندگانی دوستو
پھر جُدا ہوتے نہ ہم سے میرؔ و فانی ؔ دوستو
محفل ِ شعرا میں ہوتے آج پھر اقبالؔ و ذ وقؔ
اور ہوتی پھر سے محفل بیکرانی دوستو
پھر سے لکھنو اور دہلی کا سماں ہوتا بدید
مل کے باہم گر کہ ہوتی شعر خوانی دوستو
کاش ہوتے غالبؔ ومحروم ؔ چکبستؔباحیات
پھر سے ہوتی ریختہ کی قدر دانی دوستو
(کیا سناؤں آپ کو بیتی کہانی دوستو)
ان اشعار سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ عشاؔق کشتواڑی کے دل میں اردو شعر وادب کی نابغۂ روزگار ہستیوں کی قدر ومنزلت بہت زیادہ ہے۔ انھیں اس بات کا بھی افسوس ہے کہ اردو ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے جو اس کا صحیح حق ادانہیں کرتے بلکہ وہ نمود ونمائش اوراردو کے بڑے عہدوں پر فائز ہونے کی تڑپ میں شہرتوں کے کشکول لئے پھرتے ہیں ۔عشاؔق کشتواڑی کے مزاج میں بے باکی ،حق پسندی اور ظلم واستحصال کے خلاف آواز بلند کرنے کا مادہ موجود ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے شعری مجموعے ’’نوائے شوق ‘‘ میں بہت سی نظموں میں سماج ومعاشرے میں وقوع پذیر حالات وواقعات اوواردات ِ رنج والم کو شعری جامہ پہنایا ہے ۔
عشاؔق کشتواڑی کا تازہ اور تعداد میں ساتواں شعری مجموعہ ’’انشراح قلب‘‘میں شامل تقریباً۳۵ نظمیں ایسی ہیں جن میں شاعر موصوف نے کہیں اردو کی عظمت بیان کی ہے اور کہیں نوحہ۔ ایک سو چوالیس صفحات پر مشتمل یہ شعری مجموعہ ۲۰۲۰؁ ء میں عرشیہ پبلی کیشنز دہلی نے شائع کیا ہے ۔پروفیسر قدوس جاوید نے ’’انشراح قلب‘‘پر ایک نظر ‘‘کے عنوان سے اس کا پیش لفظ لکھا ہے۔زیر نظر مجموعے میں عشاقؔ نے اردو کے مرحومین شعرا کو بھی شاعرانہ خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔آخر ی صفحات پر کچھ قطعات کا بھی اندراج کیا گیا ہے۔’’انشراح قلب‘‘میں شامل بہت سے اشعار سماجی حالات اور اردو دشمنی سے بھی تعلق رکھتے ہیں ۔کہیں کہیں طنزورمز کی چبھن کا احساس بھی ہوتا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ عشاؔق کشتواڑی کی سرشت میں شوخی وظرافت کے ساتھ ساتھ طنزورمزکا خمیر بھی موجود ہے ۔اردو شعروادب کا یہ دلدادہ اپنے مذکورہ شعری مجموعے میں اردو کی عظمت کو کن الفاظ میں بیان کرتا ہے ،چند نمونے ملاحظہ کیجیے:
کتنی پیاری زبان ہے اردو
داغؔ وحالیؔ کی شان ہے اردو
اس کے لفظوں میں اک حلاوت
میٹھا میٹھا سا پان ہے اردو
(کتنی پیاری زبان ہے اردو)
………
روئے ہستی پہ اردو ہے اک سلطنت ایک اپنا ہے اس جہاں کا دوستو!
کوئی ا تفاق ہم سے کرے یا نہیںاس کا اپنا ہے طرزِ بیا ں دوستو!
ہم ترازو میں الفاظ کو تول کر اک عبارت کو تشکیل دیتے ہیں جب
خود ہی قاری ہمیں داد دیتا ہے پھر ایسا اپنا ہے شوقِ بیاں دوستو!
اس نے دکن میں جب آنکھ کھولی تو پھر اس کو پنجاب نے لیا جھٹ گود میں
رفتہ رفتہ یہ لکھنو کی رانی بنی اس کا ماخذ ہے ہندوستان دوستو!
اپنی پہچان اردو سے ہے دوستو! اتنا احسان کیا کم ہے اے دوستو!
ہم کو اردو ووُ دیعت ہوئی قدرتاً سب کی قسمت میں اردو کہاںدوستو!
(اردو زبان)
………
عشاؔ ق کشتواڑی ایک سیکولر ذہن ودل کے مالک ہیں جو اردو کی محبت میں سرشار وپُر خمار وجود رکھتے ہیں ۔اردو کی میٹھاس اور اس کی دلکشی نے اُنھیں بچپن سے اپنا گرویدہ بنالیا ہے ۔انھوں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ۔اردو کے مشاعروں اور ادبی محفلوں کو منعقد ہوتے دیکھا ہے ۔اردو کے قدآور شعرا وادبا کے ساتھ اُن کی ملاقاتیں رہی ہیں ۔گویا اُن کی نگاہوں اور یادوں میں اردو کا شاندار ماضی بار بار گھومتا ہے اور وہ بے تاب ہوجاتے ہیں ۔انھوں نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب اردو کو سب کی زبان اور ضرورت سمجھنے والے لوگ موجود تھے ۔علاوہ ازیں صحیح اردو بولنے ،لکھنے اور پڑھنے والے لوگوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔غرضیکہ اک کسک،احساس محرومی اور بہارِ اردو دیکھنے کے لئے عشاؔق کی آنکھیں ترستی ہیں ۔لیکن وہ اردو کے دور انحطاط کا اظہار اس طرح کے اشعار میں کرتے نظر آتے :
کرشن ؔچند رپریم ؔاور چکبست ؔکی ز باں کو
تُم بھولنا چا ہو گے گر ان ذود ِ بیاں کو
کم ظرف ہو نادان ہو ا ردو کے عدُو ہو
مذہب کے ساتھ جوڑیے مت اردو زباں کو
(کم ظرف ہو نادان ہو ا ردو کے عدُو ہو )
………
معدوم طبع ہوگئے اردو کے ایاغ دیکھ
بجھنے کو اب تیار ہیں روشن چراغ دیکھ
اہل وطن کو ناز تھا اردو زبان پر
اس کی ہی دین تھی یہاں اقبالؔ وداغ ؔ دیکھ
اپنے ہی گھر میں آجکل اردو ہے علیل
ہر جاہی اس کا پیرہن ہے داغ داغ دیکھ
(نذر خزاں ہوگیا اردو کا باغ دیکھ)
…………
غزل لکھ کے جو کچھ بیاں کررہے ہو
زبانِ ریختہ کا زیاں کر رہے ہو
سُخن میں نہ تیرے ہے رنگ تغزل
اماں! اس پہ ناحق گماں کررہے ہو
سوا اس کے ہیں اور اصناف کتنے
جنہیں تُم کہ مہمل بیاں کررہے ہو
کبھی مرثیہ یا قصیدہ لکھا کیا
عیاں خود کو شعلہ بیا ں کررہے ہو
بہر کیف عشاؔق کشتواڑی کی نظموں سے ماخوذ تمام مندرجہ بالا اشعار اُن کی اردو دوستی اور اردو زبان وادب کے لئے اُن کا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ قابل ستائش ہے ۔ یہ بات مسر ت کن بھی ہے اور حیران کن بھی کہ عشاق کشتواڑی جیسے اردو کے دیوانے نے بلاشُبہ ساری زندگی اردو کی خدمت میں گزاردی ہے ۔تاحال وہ اسّی برس کی عمر کو پہنچ چکے ہیں لیکن اس طویل عمری میں بھی مسلسل اخبارات ورسائل میں اُن کی نظمیں ،غزلیں اور مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اردو اُن کے جسم میں روح کی حیثیت رکھتی ہے ۔میں یہاں اُن کے شعری مجموعے’’انشراح قلب‘‘میں شامل اردو کے گیان پیٹھ ایوارڈ شاعر رگھو پتی سہائے فراق ؔ گورکھپوری کا اردو زبان کے بارے میں ایک بیان قلم بند کرتا ہوںجو عشاؔق کشتواڑی کی جنونی قسم کی ا ردو دوستی پر صادق آتا ہے۔بقول فراق ؔگورکھپوری:
’’ہماری اردو زبان میں کتنی وسعتیں اور کتنے امکانات پیدا ہوجائیں گے اگر اُردو لُغت میں دو اڑھائی ہزار سنسکرت الفاظ کا بھی اضافہ ہوجائے ۔کتنی قوّت اور دُور رسی ،کتنی تہیں اور کتنی جھلکیاں اور پرچھائیاں، کتنا رس ،کتنی سُگندھ ،کتنا رچاؤ ،کتنا سُگڑھا پن ،کتنی نئی گونجیں ،کتنی خوش تدبیریں ،کتنا تموج اور ٹھہراؤ،کتنی لوچ اور لچک اردو میں پیدا ہوجائے گی اگر سنسکرت کے الفاظ کی کرنوں کی کھنک بھی عربی،فارسی اورہندی الفاظ کی کھنک ،رس اور جھنکار کے ساتھ اردو میں سنائی دینے لگے۔ واجد علی شاہ کے عہد میں امانتؔکے منظومڈراما ’’اندر سبھا‘‘میں بھی ہندوستانی جھلک نظر آتی ہے‘‘
(مشمولہ۔’’ انشراح قلب‘‘ص۱۰)
عشاؔق کشواڑی نے اپنے شعری سرمائے میں عربی ،فارسی کے علاوہ بہت سے الفاظ ہندی اور کہیں کہیں سنسکرت کے الفاظ کو موقع محل کے مطابق استعمال کیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اردو واقعی اُن کے نزدیک ایک مشترکہ زبان کا درجہ رکھتی ہے جس کے ذریعے ہندو،مسلم ،سکھ،عیسائی ،بدھ اور جین مت کے لوگوں نے انسان دوستی،بھائی چارے اوررواداری کی تعلیم دی ہے۔عشاؔق کشتواڑی خوش اخلاق اور منکسرالمزاج انسان ہیں ۔اُن کی شاعری میں طنزوظرافت کے کئی نمونے پڑھنے کو مل جاتے ہیں ۔مثال کے طور پر اُنھوں نے ادیبوں کے بارے میں بڑے پتے کی بات اپنے ایک شعر میں اس طرح کہی ہے:
ادیبوں کی دُنیا بھی ہے کیا نرالی
خیالات اونچے مگر جیب خالی

���
سابق صدر شعبۂ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر؛7889952532

 

 

 

غزل
حوصلوں میں اُڑان رکھتے ہیں
کب وہ اپنے مکان رکھتے ہیں

ہم جو سادھو بنے سے پھرتے ہیں
اپنے اندر جہان رکھتے ہیں

آندھیاں بھی طواف کرتی ہیں
جو ہتھیلی پہ جان رکھتے ہیں

ہم تو سچ بولنے کے عادی ہیں
ایسی تیکھی زبان رکھتے ہیں

ان دنوں بس زمیں بچھونا ہے
اوڑھ کر آسمان رکھتے ہیں

جن کے اندر ہیں نفرتیں جاویدؔ
وہ بڑی آن بان رکھتے ہیں

سردارجاویدخان
مینڈھر، پونچھ
موبائل نمبر؛ 9419175198

 

گذاری زندگانی ہم نے تیکھی دھار کے نیچے
کبھی اِقرار کے نیچے کبھی اِنکار کے نیچے
چمکتا ہے، دَمکتا ہے، جَھلکتا ہے، چَھلکتا ہے
یہ تِل ہے یا سِتارہ ہے تیرے رُخسار کے نیچے
ہزاروں سال پہنے کتنی خوش تھی کتنی نازاں تھی
وہ پہلی اینٹ جو رکھی گئی دِیوار کے نیچے
مصوّر کیا بتائے اُس کی غُربت ہی بتائے گی
لکھا جائے گا کس کا نام اِس شہکار کے نیچے
ازل سے جل رہاہے تا قیامت بجھ نہیں سکتا
رہے بے شک دِیا اپنا ہوا کی مار کے نیچے
کبھی اُڑنا ہوائوں میں کبھی چلنا خلائوں میں
زمیں ٹھہرے بھی تو کیسے کسی فنکار کے نیچے
پِسے جاتے ہیں جس میں ہم سبھی کوہلو یہ کس کا ہے
کٹورا کس کا رکھا ہے لہو کی دھار کے نیچے
ضرورت آپڑی جب بھی تو پنچھیؔ نے دِئے بوسے
کبھی تلوار کے اُوپر کبھی تلوار کے نیچے

سردار پنچھیؔ
جیٹھی نگر، مالیر کوٹلہ روڑ کھنہ، پنجاب
موبائل نمبر؛9417091668

رو داد سن کے میری خدا خیر اب کرے
چھیڑی ہے بات ایسی دِل نا گزار میں
دنیا جتن کرے گی کسی کار زار کی
محبوب میرا ہے وہی جس کا نگار میں
کنجِ قفس میں قید ہے کیوں زندگی مری؟
وارفتگی ہے کوئی گل و لالہ زار میں
بست و کشاد سے میرا کہلا یہ بھیج دو!
صدیوں سے پل رہا ہوں میں مشتِ غبار میں
سینے پہ وار جو تیرے مارے دفن کیے
آتے نہیں ہیں اب کے میرے شمار میں
کانٹے ہیں سنگ و خشت ہیں دار و رسن ہے اور
“اتنی جگہ کہاں ہے دِل داغ دار میں”
آئینہ کہہ رہا ہے یہ یاورؔ حبیب سے
عکسِ قمر ہے عالَمِ نا پائیدار میں

یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ، کشمیر
☜ موبائل نمبر؛6005929160

 

عشقِ عاجز سے ہوئی ہے بے زبانی ہی سہی
دھل گئی گردِ گراں جو تھی پرانی ہی سہی
بے بسی ہے اس زباں کی کم بیانی ہی سہی
میری غزلوں میں ہو میری ترجمانی ہی سہی
تیرے سر الزام عہدِ شکنی کا ہے کیا ہوا
سر پہ میرے ہے قضائے ناگہانی ہی سہی
ہو مبارک یہ حقیقت والی تم کو زندگی
میرے حصے آگئی یہ بدگمانی ہی سہی
چھوڑ کے آیا خلشؔ اپنا مکانِ مُضطرِب
راس آئی میرے دل کو بے مکانی ہی سہی
تم دعائے مغفرت بھی مت کرو میرے لئے
قبرِ نم پہ کرنے آؤ گل فشانی ہی سہی

خلشؔ
لارم اسلام آباد کشمیر
[email protected]

 

نظم
دو لمحوں کی زندگی کیا گماں ہے تیرا
یہ دنیا تو عارضی اک مکاں ہے تیرا
ہاں شبنم کے قطروں سی زندگی ہے
کس طوفان سے لڑنے کا ارماں ہے تیرا
دار ِخلد میں کیا خبر ،کیا ملے گا
یہاں تو رونق بھرا ہے آسماں ہےتیرا
خودی کی رہبری کر خود اک مثال بن جا
ابھی تو رب بھی مہرباں ہے تیرا
یہ نصیحت بھرا کلام کس کے لیے سہیلؔ
زور شاہین نہیں کرگس نما ہے تیرا

سہیل احمد
ڈوڈو مرمت
[email protected]