غزلیات

وہ جو میرا ہے، پرہوا تو نہیں
ایسے بچھڑا کے پھر مِلا تو نہیں
بے وجہ آس تلملاتی ہے
درمیاں کوئی سلسلہ تو نہیں
زندگی جس کو سونپ آیا تھا
زندگی! اُس کو میں جیا تو نہیں
دل میں ہلکی سی کسمساہٹ ہے
کوئی شکوہ، کوئی گلہ تو نہیں
اِک تمناہے آج بھی تازہ
ایک جذبہ ہے جو مرا تو نہیں
جانتے سب ہیں کِس پہ کیا گُزری
شہر میں کوئی بولتا تو نہیں
وہ جو میرا ہے، پرہواتو نہیں
ایسے بچھڑا کہ پھر مِلا تو نہیں

کے ڈی مینی
پونچھ،
موبائل نمبر؛8493881999

فلسفہ یہ عشق کا سُنتے ہیں اچھا کچھ نہیں
ہر قدم دشواریاں ہیںاور دیکھا کچھ نہیں

میں نے چاہا داستانِ غم غزل میں ہو رقم
آبروئے عشق رکھنی تھی ،تو لکھا کچھ نہیں

ہر قدم ،اس کی محبت میں رہے گا گامزن
زندگی کس موڑ پہ جائے گی، سوچا کچھ نہیں

ہم محبت کے سپاہی تھے، فقط اس واسطے
نفرتوں کے درمیاں بھی ،ہم نے دیکھا کچھ نہیں

یہ حقیقت ہے، حقیقت پر کروں کیا تبصرہ
’ــــــموج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں‘

یہ زمیں اقبالؔ کی اور شعر کہنا ہے رئیسؔ
اِک بڑے فنکار کے آگے، یہ چھوٹا کچھ نہیں

رئیس ؔصِدّیقی
سابق آئی بی ایس افسرآکاشوانی و دوردرشن
موبائل نمبر؛9810141528

داستاں دل کی زمانے کو سنانے سے رہا
اور غضب یہ کہ میں آنسو بھی بہانے سے رہا

کوئی ایک پل بھی نہ جی بھر کے میں دیکھا تھا تجھے
یہ الگ بات تعلق تو زمانہ سے رہا

قوتِ گویائی اب چھین ہی لے مجھ سے خدا
دل کا احساس زباں پر تو میں لانے سے رہا

دل کے دربان سے کہہ دو کہ کرے بند ہی در
اب وہ دل دار میرے دل میں تو آنے سے رہا

سوچتا ہوں کہ میں تیار ہی کروا لوں قبر
زندگی اور تیرے در پہ میں رہنے سے رہا

اب کہ سوچا ہے کہ راہی! نہ لکھوں کوئی غزل
جس نے پڑھنی ہے وہ جذبات سمجھنے سے رہا

شیخ سیف اللہ راہی
پنگنور،آندھرا پردیش
موبائل نمبر؛9491432393

اس زبانِ تلخ کا تلوار ہونا
ہائے نرگس کا چمن میں خار ہونا
تم نے پانی سے کھلائے ہونگے باغ
ہم نے دیکھا آب کا ہے نار ہونا
رُخ بدلنے میں تیرا فنکار ہونا
میرے دل کا صاحبِ افکار ہونا
ہے ضروری رات بھر اذکار ہونا
میری غزلوں میں تیرا کردار ہونا
ہےمؤحد میرا دل مشرک نہیں
عشق کا آساں نہیں سو بار ہونا
دل میں ہو ایمان یا ہو کفر
ہے ضروری سر پہ اب دستار ہونا
تم نےدیکھا ہے جنازے میں کبھی
لیٹی میت کا کبھی بیدار ہونا
تم گئے لیکن یہ عادت نا گئی
بے سبب بے ساختہ بے زار ہونا
ہجر کا ہے یہ خلشؔ عالی مقام
آنسوؤں میں جام کا خمار ہونا

خلشؔ
لارم اسلام آباد ،کشمیر
[email protected]

میری راتوں میں نہایت خامشی کا شور ہے
جس طرح جلتے گھروں میں روشنی کا شور ہے

جب سے کشتی کو کنارے وہ اکیلے لے گیا
اِس سمندر میں فقط بس شاعری کا شور ہے

رفتہ رفتہ اس جہاں میں گھٹ گیا ہے سب کا دم
ہر طرف اب بے وجہ ہی آدمی کا شور ہے

دیکھ واعظ تُو نے ملت کو ڈبویا آپ ہی
بندگی باقی نہیں اور بندگی کا شور ہے

آج برسوں بعد گلشن میں پلٹ آئی بہار
بر زبانِ غنچہ و گل تازگی کا شور ہے

ڈھونڈتا ہے گوہرِ مقصود کو یہ بے نگاہ
نا چشیدہ منطقی و فلسفی کا شور ہے

در حقیقت مجھ پہ ساگر وقتِ آخر یہ کھلا
اِس خرابے میں تو پنہاں زندگی کا شور ہے

ساگر سلام
کوکرناگ اننت ناگ
موبائل نمبر؛6006829932

گدا گر کو لعل و گوہر جیسے
ترا ملنا ہے پیاسے کو ساگر جیسے

ایک تم ہی تو ہو مرے ساتھ
گردش میں شام و سحر جیسے

اب تُو اُڑنے کی سوچتا ہوں میں
لگ گئے ہیں مجھ کو پر جیسے

بسے ہو تم ایسے میرے دل میں
آباد ہے کہ میرا گھر جیسے

اک تصور بھی تیر لے جانے کا
صورتؔ چبھوتا ہے مجھ کو نشتر جیسے

صورتؔ سنگھ
رام بن، جموں،
موبائل نمبر؛9419364549