غزلیات

میں سمجھتا تھا سمندر جسے دریا نکلا
آپ کا دل تو فقط بھاڑے کا کمرہ نکلا
تھک گیا جس سے میں کہہ کہہ کے مسائل اپنے
کیا ستم ہے کہ وہی آدمی بہرہ نکلا
بابا آدم تری دنیا میں جو دیکھا میں نے
دل مرا خون ہوا منہ سے کلیجہ نکلا
سانس بھر کرکے لگایا ہے جو غوطہ اس نے
بیچ موجوں کے چمک کرکے کنارا نکلا
استخارہ جو کبھی دل سے کیا ہے میں نے
خواب میں نور کی مانند اشارا نکلا
اپنی بربادی پہ افسوس نہیں ہے مجھ کو
غم مجھے یہ ہے کہ پھر ہاتھ تمہارا نکلا
تیری رسوائی کے پیچھے جو پڑا تھا اے شمسؔ
اس کی رسوائی کا بس کل ہی جنازہ نکلا

ڈاکٹر شمس کمال انجم
صدر شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر؛9086180380

جو کام مجھ کو کرنا نہیں تھا مگر کیا
تِری خوشی کے واسطے صرفِ نظر کیا

گھر بیٹھےمل رہے ہیں ہمیں میٹھے پھل بہت
پودے کو پال پوس کے ہم نے شجر کیا

دعویٰ ہے آزری کا اگر آپ کو تو پھر
پیکر کو میرے آپ نے کیا خوش نظر کیا

دیتا نہیں ہے ساتھ غموں کا کوئی یہاں
میں نے غمِ حیات میں تنہا سفر کیا

جیسے بھی گذری زندگی میں نے گذار دی
شکوہ نصیب سے نہ کبھی عمر بھر کیا

پوچھا نہیں ہے اُس نے کبھی آکے میرا حال
راشدؔ نے جس کو یاد بہت عمر بھر کیا

احمد راشدؔ
حیدر آباد، آندھرا پردیش، موبائل نمبر؛9951519825

ہوا کی تال پر سب ڈولتے ہیں
دلوں کی بات کم ہی بولتے ہیں

نوازیں گے گلابی آنکھ سے بھی
مگر پیالے میں پیلا گھولتے ہیں

تمہیں رَتّی سے بھی کم بار سمجھیں
مگر خود کو تو نَو مَن تولتے ہیں

گھٹا لہراکے جب بھی گھومتی ہے
اُسی دم بادباں ہم کھولتے ہیں

لہو میں ڈوبناتھااک تماشا
فرشتے کیا پتا پر کھولتے ہیں

مشتاق مہدی
مدینہ کالونی۔مَلہ باغ سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9419072053

وہ کچھ ہم سے الگ مزاج رکھتے ہیں
محبت نہیں، پر میری احتیاج رکھتے ہیں

اب گِلہ نہ شکوہ و شکایت ہوگی
چلو اِک دوسرے کی لاج رکھتے ہیں

راستے محبتوں کے ہموار کر دے !
چلو! رستے ہم بھی منہاج رکھتے ہیں

جب خاک ہی سے خاک ہونا ہے
کیوں ؟ سروں پہ بُوئے تاج رکھتے ہیں

ظُلم کی حد مُختصر کر دے ورنہ۔۔۔!!!
ہم بھی تو لہجے میں احتجاج رکھتے ہیں

بڑھ گئی دل کی بے قراری کیا
یاد اُن کی بطورِ خراج رکھتے ہیں

زخمُوں کا حِساب رکھ رہا ہوں میں
ایک ایک بات اندراج رکھتے ہیں

ہو محبت میں مشتاقؔ اُونچا مقام اُن کا
خستہ دلوں کی جو لاج رکھتے ہیں

خوشنویس میر مشتاقؔ
ایسو ( اننت ناگ)
[email protected]

اس نعرہ کفر سے کبھی دل نہیں ملا
حق کے ساتھ بھی ،کبھی باطل نہیں ملا
تو آپ جھومتے ہو کسی اور رقص میں
مطلب یہ صاف ہے کہ رقص بسمل نہیں ملا
ڈوب گیا جو عشق میں تو یہ عطا ہوا
کنارہ گر مل بھی گیا ساحل نہیں ملا
قبول مجھ کو کرواتا ہے نکاح یہ قاضی
مقدر مل گیا تو کیا، جب دل نہیں ملا
یہ کس کا خون ہے سڑک پر گرا ہوا
قتل ہوچکا ہے مگر قاتل نہیں ملا
ہے اس سماج میں ایسے بھی درد مند
کبھی کاسہ بھی نا ملے سائل نہیں ملا
جو بھی کیئے ہیں فیصلے اپنی طرف کیئے
زاہدؔ مجھے وہ آج تک کبھی عا دل نہیں ملا

زاہد الیاس
نور پورہ ترال ،پلوامہ
[email protected]

میرےآنسوؤں سے نہ کِھلاتیرےسینے میں جو شجر ہے
جو تو نے مجھ کو پلایا ہے وہ بس جدائی کا زہر ہے
نہ میں نے منزل پائی ہے نہ میں نے وفا پائی ہے
گذار جو رہا ہو میں یہاں وہ بس میرا تنہا سفر ہے
جہاں پر صداقت نے اب خاموشی اُوڈھ رکھی ہو
جانتا ہوں میں کہ وہی تیرا اب ویران نگر ہے
میں نے ترے حُجرے میں کبھی کج خلقی نہیں کی
میرا یوں ادب میں رہنا تیرے علم کا ہی اثر ہے
میری یہ ساری کلفتیں جہاں پر دوا پائیں گی
جانتا ہو میں بھی کہ وہ بس تیرا ہی در ہے
عالم ارواح سے عالم برزخ تک پہنچنے کیلئے راشدؔ
بس کچھ سانسوں کا تیرا یہاں پہ یہ سفر ہے

راشد اشرف
کرالہ پورہ چاڈورہ
موبائل نمبر؛9622667105

اگرچہ ہوں میں خوگر احساسِ درد و غمِ دِل و جگر مگر!
کیا حالت یہ مری دیکھ کرنہیں پھٹتا کلیجہ ترا ستم گر
ہاں میں نے کہا تھا کہ چھوڑ دے مجھ کو مرے حال پر
پر یہ کب کہا تھاسفاک! تو قسموں وعدوں سے بھی مُکر
تھا معلوم مجھ کو بھی ہونگی مشکلیں بہت سرِ رہ گزر
سب کچھ چھوڑ کے پیچھےنکلا تھاتری تلاش میں مگر
تو حیرت سے یوں ہاتھ نہ رکھ اپنے ان گلاب ہونٹوں پر
مرے پیر نہ دیکھ ،دیکھ پڑ گئے کتنے چھالےمرے دل پر
تو یہ مان لےکہ ہے مجھ کوتری بے رخی سے بھی محبت
غمگرپھر بھی سوچنا تم کچھ احساس مراہو جائے تجھے اگر
بیٹھا ہوں سینہ تھام کرترے ہجر میں ٹوٹ گئی ہے مری کمر
دل میں ہے ایسی شدتِ دردکہ نکل آئے نہ دہن میں جگر!
تُو نے کس اُمید پرمجھے چھوڑا تھااس دشتِ تنہائی میں
تھااک عاشقِ نامراد میں کیا تھا میں کیا بختِ سکندر؟
جب تو خاک سے خاک ہو جائےمیں خاک سے خاک ہو جاؤں
ہو پھر شایدیہ قصئہ الفت تری نظروں میں بھی برابر
کاش کہ تو دیکھتامری طرف اک نظرترا کیا جاتا ستمگر
بہار آجاتی چمن میں ہائےبس جاتا کسی دیوانے کا گھر
ہے ممکن کہ آخر ترا شہریارؔ بھول ہی جائے ہر درِدہر
پر یہ ممکن نہیں کہ بھول ہی جاؤں میں نقشئہ کوئے دلبر

توصیف شہریارؔ
یونیورسٹی آف دہلی
[email protected]