غزلیات

چاند کو چاند کہو یا نہ کہو
پیکرِ شب کو ستارا نہ کہو
کھول دیں گے کبھی یہ راز ترا
اپنے شعروں کو اَثاثہ نہ کہو
چاند کو کہنا ہلالِ نو کیا ؟
سچ جو کہنا ہے تو آدھا نہ کہو
روشنی سچ کی چُھپے گی کب تک
اس اُجالے کو اندھیرا نہ کہو
زخم کُھلتے ہیں تو کُھل جانے دو
شعر پورا کہو آدھا نہ کہو
شعر کو پھر میں کہوں کیا صاحب
قلب کے چھاپے کو چھالا نہ کہو
بات کرتا ہے ہنر خود عادلؔ
اپنے اشعار کو اعلیٰ نہ کہو

اشرف عادل
الٰہی باغ بژھ پورہ ،سرینگر
موبائل نمبر؛9906540315

یہ اچانک ہوا ہے کیا مجھ کو
کچھ پتا تو چلے خُدا مجھ کو

میں نے کوشش بڑی کی تھی، پر عشق
ایک ہی شخص سے ہوا مجھ کو

کوئی پوچھے اُسے وفا کیا ہے
کہہ رہا ہے جو بے وفا مجھ کو

کسی کے سامنے رہا ہر پل
اور کوئی ڈھونڈتا رہا مجھ کو

کوئی بے حد دُکھی ہوا مجھ سے
کوئی دیتا رہا دُعا مجھ کو

کوئی پاگل سمجھ کے چل پڑا اور
کوئی سنتا رہا کھڑا مجھ کو

صرف اِندرؔ کا ہی سہارا تھا
وہ بھی اک دِن بھُلا گیا مجھ کو

اِندرؔ سرازی
ڈوڈہ، جموں کشمیر
موبائل نمبر؛7006658731

تیرا وصال ہے، میں ہوں اور ملال ہے
اے زندگی ترا ہر لمحہ کمال ہے
کہنے کو زندگی تو میری ہی ہے مگر
مجھ سے زیادہ مجھ کو تیرا خیال ہے
دل کہہ رہا ہے ہر پل ہر لمحہ بار بار
تو ہی جوابِ ہر اک مشکل سوال ہے
یوں لگ رہا ہے اے دل تیرے بنا مرا
جینا وبال ہے اور مرنا محال ہے
حجرہ یہ جو مقفل ہے اس لئے کہ یاں
ان کے رخِ حسیں کے ابرو کا بال ہے
چہرے پہ میرے رونق پہلے سے بڑھ گئی
دن رات انکی فکر کا تحفہ کمال ہے
ملتا نہیں ہوں راہی ہاتھ اب کسی سے میں
مل کر گئے وہ جب سے تب سے یہ حال ہے

شیخ سیف اللہ راہی
پنگنور ، آندھرا پردیش
[email protected]

محفلِ جاناں میں میرا مذکُور نه تھا
دل دینے په وه اِتنا مغرُور نه تھا

اِک تجلی هی بنی بے خودی کا سبب
گرچه رُخ میرا جانبِ طُور نه تھا

الٰہی! تیری شان بیان هو کهاں ممکن
تیری وصفوں کا هم کو مقدُور نه تھا

تیری محبت میں سر تسلیمِ خم گوارا مجھ کو
تجھ کو چاها هے ورنه میں مجبور نه تھا

کوچه جاناں سے هم سرخُرو هوئے هی کب
هم تو رسوا ہی سهی وه بھی مشهور نه تھا

وه لذتِ غم سے کب آشنا تھے مشتاق
سر په سودائے عِشق دل مگر رنجُور نه تھا

خوشنویس میر مشتاق
ایسو، اننت ناگ
[email protected]

مکانِ مضطرب میں یوں مکینِ دربدر ہونا
بڑا مشکل ہے اپنوں میں خلشؔ تیرا گزر ہونا

نہ ہوتے یہ جو سینے میں بڑا آساں سفر ہوتا
مصیبت ہے یہ دل ہونا قیامت ہے جگر ہونا

میں ضبطِ غم کروں یا میں کروں ماتم جدائی کا
قیامت خیز ہے اُلجھن میں ایسی یوں بسر ہونا

کبھی دیکھا ہے ساون کا خزاں میں یوں برس جانا
تمہیں معلوم کیا ہے چشمِ نم کا بے بسر ہونا

مبارک باد دو ہم کو خوشی کی بات ہے یارو
حیاتِ غم رسیدہ کا اچانک مختصر ہونا

کبھی جب آہ و زاری بھی رہے بے سودبے حاصل
کمر یہ توڑ دیتی ہے دُعا کا بے اثر ہونا

خلشؔ
لارم اسلام آباد،کشمیر
[email protected]

میرا مرشد سے گلہ کچھ بھی نہیں
وہ تو کہتا تھا ترا کچھ بھی نہیں

جب سےسانسوں نے چُھوا تیری مجھے
لگتی ہے باد صبا کچھ بھی نہیں

ذکر اب توحید کا مغرب میں ہے
وہ تو کہتے تھے خدا کچھ بھی نہیں

وہ تو آذر بنتے پھرتے تھے مگر
اُن کے ہونے سے ہُوا کچھ بھی نہیں

ہم اگر تھے ساتھ میں شب بھر تو کیا
میں نے تاروں سے کہا کچھ بھی نہیں

جاذب ؔجہانگیرسوپوری
سوپور، بارہمولہ کشمیر
موبائل نمبر؛7006706987

قاتل تیرا پیترا ہی بے ہنر ہے، خبر ہے
تیرے ہاتھوں پر مرا خونِ جگر ہے، خبر ہے

مجھ کو اپنی ذات کے پنہاں یزید کا ڈر ہے
ورنہ اہلِ کوفہ کی مجھ پہ نظر ہے، خبر ہے

مجھ کو اپنی راہ پہ چلنے دے وقت کے ہمراہ
تیرے آگے اک نئی راہ گزر ہے، خبر ہے

تجھ پر تیرے ناقدِ حسن کی آنکھ ہے ورنہ
تیری سطرِ عشق بے زیر و زبر ہے، خبر ہے

میں اپنی چھت سے جسے داغ بہ داغ تکا ہوں
وہ تیرے افلاک کا تاباں قمر ہے، خبر ہے

ہائے کوئی تجھ سے ترا پتہ پوچھ رہا ہے
اے ساعد مظہرؔ تو کہاں ہے کدھر ہے، خبر ہے

ساعد حمزہ مظہرؔ
سر سید آباد، بمنہ سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛8825054483