شہادتِ امامِ عالی مقام ؓ ،ہمہ گیر و آفاقی پیغام شجاعت

آغا سیّد حامد علی موسوی

کتاب مبین قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(ترجمہ) ’’اور ہم تمہاری آزمائش کر کے رہیں گے، کچھ خوف اور بھوک سے اور مال و جان اور پیداوار کے کچھ نقصان سے اور (اے پیغمبرؐ) صبر کرنے والوں کو (فتح و کامرانی) کی بشارت دے دیجیے۔(سورۃ البقرہ)
اسلامی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ اس آیت میں جن آزمائشوں کا ذکر کیا گیا ہے، فرزند رسول ؐ امام حسینؓ بہ یک وقت ان تمام امتحانوں سے گزرے۔ نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دین اسلام کی بقا کی خاطر دشتِ کر بلا میں ہر امتحان کا سامنا کیا، اپنا گھر بار لٹا دیا، اپنے اصحاب باوفا کی قربانی دی، اپنے پیاروں کو بھوک اور پیاس سے بلکتے دیکھا، انہیں ذبح ہوتے اور ان کی لاشوں کو پامال ہوتے دیکھا، حتیٰ کہ اپنی مخدرات کی چادریں بھی قربان کردیں، لیکن پائے استقلال میں ذرا لغزش نہ آئی۔ دینِ خداوندی ، شریعتِ مصطفوی ؐ اور انسانی اقدار کے تحفظ کے لئے ان عظیم مصائب پر صبر کرنے والے نواسۂ رسول ؐ،شہیدِ کربلا حضرت امام حسین ؓ کو یوں فتح و کامرانی نصیب ہوئی کہ آج ہرقوم ،ہر زمانہ ،ہر انسان سیدنا حسینؓ کی عظمت و بزرگی کے سامنے سرجھکا رہا ہے ۔
اک پل، بس ایک پل تھی حکومت یزید کی
صدیاں حسینؓ کی ہیں ،زمانہ حسینؓ کا
صبر کی انتہاؤں کو چھونے والوں کے ساتھ کیا ہوا ،وعدۂ خداوندی نواسۂ رسولؐ امام حسینؓ کی عظمت و رفعت کی صورت دنیا بھر پر آشکار ہو چکا ہے ۔حدیث نبوی ہے :حضرت یعلیٰ ابن مرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: حسین ؓمجھ سے اور میں حسینؓ سے ہوں، اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسینؓ سے محبت رکھتا ہے۔ تاجدار صبر ووفا حسین ابن علیؓ کو اللہ نے کیسا عظیم رتبہ دیا کہ کائنات کا خالق حسینؓ سے ہی نہیں، حسینؓ سے محبت رکھنے والوں سے بھی محبت کا اعلان کررہا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا ہی نہیں آخرت میں بھی امام حسینؓ کو جوانان جنت کا سردار قرار دیا۔
آج ہر باضمیر، حسینؓ کو اپنا پیشوا سمجھتا ہے ،ہر حریت پسند حسین ؓ کے کردار سے جذبہ کشید کرتا ہے، ہر محروم و مظلوم حسینؓ کے دامن سے وابستہ ہونا باعث نجات سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں لکھنے والا مورخ ایڈورڈ گبن یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے ’’ امام حسینؓ کی شہادت کا پُردرد واقعہ بےرحم اور سنگ دل انسان کو بھی متاثر کردیتا ہے ‘‘ ۔آزادی ہند کی تحریک کے دوران مہاتما گاندھی کہتا نظر آتا ہے : ’’حسینی اصول پر عمل کرکے انسان نجات حاصل کرسکتا ہے۔‘‘ ہیروز اینڈ ہیرو ورشپ کا مصنف کارلائل اعتراف حقیقت کے طور پر لکھتا ہے : ’’ شہادت حسین ؓ کے واقعے پر جس قدر غور و فکر کیاجائے گا، اسی قدر اس کے اعلیٰ مطالب روشنی میں آتے جائیں گے۔‘‘ واشنگٹن ارونگ حیران نظر آتا ہے: ’’حسینؓ پر پڑنے والی مصیبتیں ایسی نہ تھیں جو کسی بھی فرد کو اپنے ارادے پر قائم رہنے دیتیں، لیکن حسینؓ آخر دم تک اپنے عزم و ارادے پر قائم رہے ‘‘ ۔
امام حسین ؓ کی باوقار اور پُرافتخار زندگی تاریخ ملل و ادیان کے لئے درس آموز ہے ۔خونِ حسین دین و شریعت کے ماتھے کی سرخی ہے،آپ کے خانوادہ ِ اطہارؓ کی قید و بند کی صعوبتیں دشمنانِ دین کی ذلت کا باعث اور آپ کی فدا کاری کی پیروی دنیائے انسانیت کی غیرت کا سبب ہے۔آپ کے صبر و تحمل اور جرأت وشجاعت سے آسمانوں کے فرشتے محوِحیرت ہیں۔ کسی شخصیت کی نقشہ کشی اس کے نمایاں ترین خواص ،علم و عمل ، جہاد و مبارزہ، ایثار و قربانی،استقامت، طہارت و اخلاص اور زہد و تقویٰ سے ہوتی ہے۔
ایک روایت ہے کہ چند صحابہ کرامؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جارہے تھے کہ سامنے سے حضرت حسینؓ آگئے ،سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر انہیں پکڑنا چاہا تو حسینؓ ادھر اُدھر دوڑنے لگے، یہاں تک کہ آپؐ نے انہیں اپنی آغوش میں اُٹھا لیا ،ایک دستِ رسالت حسینؓ کی گردن کے پیچھے اور ایک ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر حسین ؓ کے لبوں کو چوم کر فرمایا کہ حسین ؓ مجھ سے ہے اور میں حسین ؓ سے ہوں ،پالنے والے تو اسے دوست رکھ جو حسین ؓ کو دوست رکھے۔(طبقات ابن سعد)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عشاء ادا کر رہے تھے۔ جب آپ سجدے میں گئے تو حسنؓ اور حسینؓ آپؐکی پشت مبارک پر سوار ہو گئے۔ جب آپؐ نے سجدے سے سر اٹھایا تو دونوں شہزادوں کو اپنے پیچھے سے نرمی کے ساتھ پکڑ کر نیچے بٹھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ سجدے میں گئے تو وہ پھر کمر مبارک پر سوار ہو گئے۔ یہاں تک کہ آپ ؐ نے نماز مکمل کر لی۔ پھر آپؐ نے دونوں کو اپنے مبارک زانوؤں پر بٹھا لیا۔ (مسند احمد، المستدرک للحاکم، طبرانی فی الکبیر،سنن نسائی )نانا نے حسین ؓ کے لئے سجدہ طویل کیا تھا نواسے نے نانا کا قرض اتارتے ہوئے سجدۂ خالق میں سر کٹا کر سجدے کو معراج عطا کردی۔
محرم الحرام اپنے دامن میں غم و الم اور مصائب وآلام کی داستانیں سموئے ہوئے ہے۔ یہ نواسۂ رسول الثقلین شہزادۂ کونین حضرت امام حسینؓ سے خاص نسبت رکھتا ہے، جنہوں نے جذبہ صادق کے ساتھ اپنے جد، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو استحکام و دوام بخشنے کے لئے فساد پیکروں سے نبرد آزما ہوکر اپنے72جاں نثاروں کے ہمراہ شہادت کو گلے لگایا اور ظلم و بربریت،جبر و استبداد کو نابود کرکے عدل و انصاف کے الٰہی مکتب کی بنیاد رکھ کر انسانوں کو عملی درس دیا۔ آپ کا تاریخی انقلاب سیاسی حیثیت یا مالی فوائد کے لئے نہ تھا ۔بقول شاعر مشرق ؎
مدعائش سلطنت بودے اگر خود نہ کردی باچنیں ساماں سفر
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصدِ وحید اُمت کو ضلالت و گمراہی کے گڑھے سے نکالنا اور نجات دلانے کے لئے رشدو ہدایت سے نوازنا تھا۔ آپ ؓنے اس لیے قیام فرمایا، تاکہ اُمتِ مسلمہ کی اصلاح کرکے امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا فریضہ ادا کریں اور اللہ کی حاکمیت کا بول بالا ہو،چناں چہ بحار الانوار میں امام عالی مقام ؓ کا مقصدِ قیام اس طرح مذکور ہے کہ میں ظلم و زیادتی ،فساد و تفریق پیدا کرنے کے لئے نہیں، بلکہ نانا ؐ کی امت کی اصلاح ،معروف کا حکم دینے اور منکرات سے روکنے کے لئے قیام کررہا ہوں۔ آپ کا مقصدِ حیات نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ اقوام عالم کے مابین زندگی کو رواج دینا تھا، یہی وجہ ہے کہ بشریت آپ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔
نواسۂ رسولؐ جگرگوشۂ علی ؓ و بتول ؓ امام عالی مقام حضرت حسین ؓ نے اپنی ذمے داریاں نبھانے کے لئے یزیدیت و آمریت کے خلاف قیام کرکے فرمایا کہ بے شک، موت کو سعادت و کامیابی اور ظالموں کے سامنے سرجھکانا ننگ و عار سمجھتا ہوں۔ آپؓ نے یزید کو للکارا۔ 28رجب کو امام عالی مقام ؓنے مدینہ سے رختِ سفر باندھا۔ 8ذوالحجہ کو مکہ میں حج کو عمرے میں تبدیل کیا اور 2محرم کو واردِ کربلا ہوئے۔
شہادت حسینؓ کا فلسفہ اور اس کی مختصر تاریخ اس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ 7محرم کو اولاد و انصاران حسینؓ پر پانی بند ہوا ،10محرم کو تپتے صحرائے کربلا میں آپ نے اپنے 72جاں نثاروں اور جگر پاروں کے ہمراہ جانوں کے نذرانے پیش کرکے قربانی ابراہیم ؑ جسے قرآن نے ’’فدیناہُ بذبح عظیم‘‘ کہا ہے، سچ کر دکھایا۔ اسی لیے علامہ اقبال نے کہا کہ ؎
غریب وسادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ ،ابتدا ہے اسماعیلؑ
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ میں نے نصف النہار کے وقت خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا، اس وقت آپ کے بال مبارک بکھرے ہوئے تھے اور جسم پر گردو غبار تھا ،آپؐ کے پاس ایک بوتل تھی جس میں آپ کچھ تلاش کررہے تھے، میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،یہ کیا ہے ؟ فرمایا: یہ میرے حسینؓ اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے ۔راوی حدیث کہتے ہیں ہم نے وہ تاریخ اپنے ذہن میں محفوظ کرلی، بعد میں پتا چلا حضرت امام حسین ؓ اسی تاریخ اور دن کو شہید ہوئے تھے، جس دن حضرت ابن عباسؓ نے خواب دیکھا تھا۔ (مسند احمد )
حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے کہ جب عبیداللہ بن زیاد کے پاس حضرت امام حسینؓ کا سر مبارک لایا گیا اور طشت میں رکھا گیا تو ابن زیاد (ان کی آنکھ اور ناک میں) چھڑی مارنے لگا اور آپ کی خوب صورتی پر اعتراض کیا تو حضرت انسؓ نے فرمایا: حسینؓ سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے اور اس وقت حضرت امام حسینؓ کے سر اور داڑھی میں وسمہ کا خضاب کیا ہوا تھا۔(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 985 )
جس حسین ؓ کے لب و رخسار کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم چوما کرتے تھے، ان کے لبوں پر ظالم چھڑیاں مارتے رہے ۔تمام مظالم سہہ کر امام حسینؓ اور نبیؐ کے خانوادہ نے دین محمدی کو تحریف یزیدیت سے بچایا۔امام حسین ؓنے اعلیٰ دینی اقدار کی پاسبانی،اہداف ِ اسلامی کے حصول کے لئے شہادت کو معراج عطا فرمائی اور یزید کی ہر خواہش کو ٹھکرا کر دنیا پر واضح کردیا کہ خاصانِ الٰہی کسی دور میں اور کسی مقام پر بھی یزیدیت و آمریت اور استعماریت کے سامنے ہر گز نہیں جھکتے۔