شرم و حیا اور عفت و پاکیزگی کی اہمیت روشنی

مولانا نعمان نعیم

محسنِ انسانیت حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:’’حیا ‘‘ایمان کا ایک بنیادی شعبہ ہے۔ اسی بنیاد پر فرمایا گیا :جب تم حیا کو کھودو،تو جو چاہے کرو۔یعنی انسانی زندگی سے اگر شرم و حیا معدوم ہوجائے تو ایسی زندگی کی کوئی قدرومنزلت نہیں۔ اس لیے کہ شرم و حیا اسلامی معاشرے کے لازمی جزو ہیں۔ اسلامی تہذیب وثقافت اور مسلم معاشرہ برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم رکھتا ہے۔ دنیا میں اسلام سے بڑھ کر کوئی مذہب بے حیائیوں پر روک لگانے والا نہیں۔ قرآن و حدیث میں فحاشی کی بنیاد یعنی آنکھ کی بے احتیاطی کو سختی سے قابو میں رکھنے کی تلقین کی گئی ہے، یہ ایسی بنیاد ہے اگر صرف اس پر ہی قابو پالیا جائے تو ساری بے حیائیاں دنیا سے رخصت ہوسکتی ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اے نبی ؐ ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ۔ اے نبیؐ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔(سورۃ النور)سورۂ احزاب میں مومن عورتوں سے خطاب میں ارشاد فرمایا گیا : تم اپنے گھروں کے اندر رہو اور بے پردہ ہو کر باہر نہ نکلو ،جس طرح پہلے زمانے کے دور جاہلیت میں عورتیں بے پردہ باہر نکل کر گھومتی پھرتی تھیں۔حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ’’ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کی حفاظت کرے گا، میں اس کے بدلے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا‘‘۔ (طبرانی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافرمان ہے:’شبِ معراج ،میں نے کچھ مردوں اور عورتوں کو دیکھاکہ وہ سانپوں اور بچھوؤں کے ساتھ قید ہیں اور وہ انہیں ڈس رہے ہیں۔میں نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت فرمایا: یہ کون ہیں؟حضرت ‘جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا،یہ زانی مرد اور زانی عورتیں ہیں ۔حدیث شریف میں ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’عورت پردے میں رہے، جس وقت وہ بے پردہ ہو کر باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانک جھانک کر دیکھتا ہے‘‘۔(جامع ترمذی) ارشادِ نبویؐ ہے :بے شک، اللہ عزوجل حیا دار ہے ، پردہ پوش ہے ، حیاء اور پردے کو پسند فرماتا ہے ۔ ( سنن ابوداؤد)
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے حیائی جب کسی میں ہوتی ہے تو اسے عیب ناک بنا دیتی ہے اور شرم و حیا کسی میں ہوتی ہے تو اُسے زینت دیتی ہے۔ (سنن ترمذی)حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حیا ء ایمان کاحصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جانے والا ہے ،جب کہ بے حیائی ظلم میں سے ہے اور ظلم جہنم میں لے جانے والا ہے۔(سنن ترمذی )
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے، جو اس کی اللہ کے خوف سے حفاظت کرے، تو اللہ اس کے عوض اسے ایسا ایمان عطا کرے گا جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔(الترغیب و الترہیب:۳/۲۴)
کسی غیرمحرم پر نگاہ ڈالنا، بالخصوص جبکہ بدنظری کے ساتھ نگاہ ڈالی جائے،خواہ غیرمحرم کی تصویر ہی کیوں نہ ہو اور ایسی چیز کو دیکھنا جس سے شریعت نے روکا ہو۔اس سے اجتناب دین کا بنیادی تقاضا ہے۔ بدنظری بہت سے حرام کاموں کو جنم دیتی ہے جو انسان کے لیے مہلک ثابت ہوتے ہیں ،وہ حرام کام آدمی کورسوا کردیتے ہیں، جو کبھی عزت والا تھا آج وہ کہیں منہ نہیں دکھا سکتا۔ بدنظری سے بچ کر آدمی سیکڑوں گناہوں اور آفتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
حضرت ابومحمد حریریؒ فرماتے ہیں کہ جس پر اس کا نفس حاوی ہوجائے، وہ شہوات کا اسیر ہوجاتا ہے اور خواہشات نفس کی جیل میں قید ہوجاتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کے دل پر فوائد کے نزول کو حرام کردیتا ہے ،اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے نہ لذت پاسکتا ہے ،نہ اس پر عمل کرسکتا ہے۔
بدنظری اپنے دامن میں گناہوں کا سمندر رکھتی ہے اوراس کی سزائیں بھی سخت ہیں۔ بہت سے واقعات ایسے بھی سامنے آئے کہ جن سے معلوم ہوا کہ بدنظری کرنے والوں کو دنیا میں بھی بدنظری کی وجہ سے سزا بھگتنی پڑی۔چناںچہ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں خون بہاتے ہوئے حاضر ہوا، آپ ؐنے اس سے پوچھا تیری یہ کیا حالت ہے؟ عرض کیا میرے پاس سے ایک عورت گزری تھی میں نے اس کی طرف دیکھ لیا، اس کے بعد میری آنکھ اس کی تاک میں رہی اور میرے سامنے ایک دیوار آگئی، جس نے مجھے ضرب لگائی اور یہ کردیا ،جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ معلوم ہوا اللہ تعالیٰ کبھی کبھی بندے کو بدنظری کی سزا دنیا میں بھی دے دیتا ہے۔
بدنظری صرف اس کا نام نہیں ہے کہ غیرمحرم عورتوں کو دیکھ لیا ، بلکہ بدنظری ایک وسیع عنوان ہے جو بہت سے طریقوں اور صورتوں کو اپنے اندر جذب کیے ہوئے ہے، اگر بغور دیکھا جائے تو بہت سی صورتیں سامنے آئیں گی جن میں سے چند بیان کی جاتی ہیں۔اس کی مختلف صورتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی کسی دوسرے شخص کے گھر جائے اور داخل ہونے کی اجازت سے پہلے اس کے گھر یا کمرے میں دروازے، کھڑکی یا سوراخوں کے ذریعے جھانکے، یقیناً یہ بھی ایک خطرناک صورت ہے، جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے جو متفق علیہ ہے کہ جو شخص کسی کے گھر میں بلا اجازت نظر ڈالے تو گھر والوں کے لیے اس کی آنکھ پھوڑ دینا جائز ہے۔ (مسلم شریف:۲۔۲۱۲)حضرت عمربن خطابؓنے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے داخلے کی اجازت سے پہلے گھر کا صحن آنکھ بھر کر دیکھا، اس نے گناہ اور فسق کا کام کیا۔(شعب الایمان:۶/۴۴۴)
حیا اور ادب و احترام کا تقاضا یہ ہے کہ ہم تنہائی کے عالم میں بھی حتیٰ الامکان اپنے ستر کو چھپانے کا اہتمام کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حیا کرنے والا اور سترپوشی پسند کرنے والا ہے۔ اس لیے جب تم میں سے کوئی غسل کا ارادہ کرے تو کسی چیز سے آڑ کرلے۔
مگر افسوس کہ تنہائی میں ہم کیا اہتمام کرتے ،بلکہ آج دریاؤں، سمندر کے ساحل پر بھی ہم ستر کا خیال نہیں کرتے۔ یا درکھئے !والدین کے اعمال و اخلاق کا اولاد پر بہت اثر پڑتا ہے، اگر ہم شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوں گے تو ہماری اولاد بھی ان ہی صفات و خصائل کی حامل ہوگی اور اگر ہم شرم و حیا کا خیال نہ رکھیں گے تو اولاد میں بھی اس طرح کے خراب جراثیم سرایت کرجائیں گے۔ علاوہ ازیں سترپوشی میں لاپروائی کا ایک اور نقصان حضرات فقہا نے لکھا ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی پر بھول اورنسیان کا غلبہ ہوجاتا ہے اور ضروری باتیں بھی یاد نہیں رہتیں۔ہمارا ربّ اور ہمارا خالق و مالک تنہائیوں میں بھی ہمارے اعمال سے پوری طرح واقف ہے۔
شرم وحیا سے دوری اور بدنظری کا عمل نفس کی اصلاح کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ عمل انسان کے باطن کے لیے تباہ کن ہے کہ دوسرے گناہوں سے یہ بہت آگے بڑھا ہوا ہے اور انسان کے باطن کو خراب کرنے میں اس کا بہت دخل ہے۔جب تک اس عمل کی اصلاح نہ ہو اور نگاہ قابو میں نہ آئے، اس وقت تک باطن کی اصلاح کا تصور محال ہے، نظر کی حفاظت کے بعد ہی انسان کو رتبہ حاصل ہوسکتا ہے۔اس دنیا میں جہاں ایسے لوگ گزرے کہ وہ بُرے کام کرنے کی وجہ سے ہلاک و برباد ہوئے تو وہیں ایسے لوگ بھی وجود میں آئے،جو اپنی پاک دامنی اور گناہوں سے بچنے کے سبب اللہ کے مقرب بنے اور دنیا آج بھی انہیں یاد کرتی ہے، جب بھی گناہ کا شبہ ہوا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں،شرم وحیا کا راستہ اپنایا اور گناہ سے بچ گئے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جہاں ہر طرف بے پردگی، بے حجابی، عریانی اور فحاشی کا بازار گرم ہے، ایسے میں اپنی نگاہوں کو بچانا مشکل نظر آتا ہے۔ یہ ایک کڑوا گھونٹ ہے جسے پینا نہایت دشوار کام ہے۔ مگر اللہ کے جن نیک بندوں کو ایمان کی حلاوت حاصل کرنا مقصود ہو اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت منظور ہوتی ہے اور جنہیں باطن کی صفائی، تزکیہ اور طہارت مدنظر ہوتی ہے، وہ اس کڑوے گھونٹ کو ہمت کرکے پی جاتے ہیں اور جب ان کی یہ عادت پختہ ہوجاتی ہے تو وہ لوگ اس کی حلاوت محسوس کرتے اور چین و سکون سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر بے انتہا انعامات کی بارش فرماتا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ بہت سے ایسے لوگ گزرے ہیں کہ جنہوں نے اس کڑوے گھونٹ کو پیا توان کے مرنے تک ان کے جسم سے مشک و عنبر کی خوشبوئیں آتی رہیں۔
بے حیائی ،بے شرمی اور بدنظری سخت گناہ ہے اور اس میں انسان اللہ تعالیٰ کے غضب کا مستحق ہوجاتا ہے، مگر جو لوگ اللہ کے خوف سے گناہ سے رک جاتے ہیں تو رب العالمین ایسے لوگوں کو بے شمار انعامات اور ثواب سے سرفراز فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :’’جو شخص اپنے رب کے حضور پیش ہونے سے خوفزدہ ہوگیا ،اس کے لیے دو جنتیں ہوں گی‘‘۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں۔ یہ دو جنتیں اس شخص کو عطا فرمائی جائیں گی جس نے گناہ کاارادہ کیا ،پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے کے خوف سے گناہ کرنے سے رک گیا۔ (معارف القرآن)
حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب مسلمان گناہ کرتا ہے تواس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے، اگر اس نے توبہ کرلی اور استغفار کیا تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے اور اگر گناہ کرتا ہے اور توبہ نہیں کرتا تو یہ نقطہ پورے دل میں پھیل جاتا ہے اور پورا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے اور دل کو عبادت کی لذت محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کیا جائے،شرم و حیا اور عفت و عصمت کا خاص اہتمام کرتے ہوئےاصلاحِ نفس کی دعا کی جائے۔
نو باتوں کا حکم…!
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :مجھے میرے پروردگار نے نو باتوں کا حکم دیا ہے: (۱) ظاہر و باطن میں اللہ سے ڈرنا، (۲) انصاف کی بات کہنا غصے اور رضا مندی میں(ہر حال میں)، (۳) افلاس اور دولت مندی دونوں حالتوں میں میانہ روی اختیار کرنا، (۴) جو مجھ سے قطع تعلق کرے، میں اس سے قرابت کو قائم رکھوں، (۵) جو مجھے محروم رکھے، میں اسے دوں، (۶) جو شخص مجھ پر ظلم کرے میں اسے معاف کر دوں، (۷) میری خاموشی غور و فکر پر مبنی ہو، میرا بولنا ذکر الٰہی ہو، (۸) میرا دیکھنا عبرت کے لیے ہو، (۹) اور میں نیکی کا حکم دوں۔‘‘( مشکوٰۃ ،باب البکاء والخوف)