سائبر کے سیاہ رنگ کہانی

ریحانہ شجر
آخر اس لڑکی کو کیا ہوا ہے، صبح سے اپنے آپ کو کمرے میں بند کئیے ہوئے بیٹھی ہے، کئی دنوں سے دیکھ رہی ہوں یہ لڑکی اپنے آپ میں نہیں ہے، شمسہ کی ماں فوزیہ حیات اپنے ساتھ بڑ بڑا رہی تھی۔
فوزیہ حیات، شمسہ کے کمرے کو دستک دے تو رہی تھی لیکن وہاں سسکیاں سنائی دینے لگیں، وہ بہت گھبرا گئی اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرنا چاہیئے۔ اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے بڑے پیار سے شمسہ کو بلایا اور مشکل سے دروازہ کھولنے کےلئے آمادہ کیا۔
شمسہ کو دیکھ کر فوزیہ پریشان ہوگئی کیونکہ اس نے رو رو کے اپنا برا حال کیا تھا۔ وہ مزید روئے جا رہی تھی۔ بہرحال فوزیہ کچھ دیر تک شمسہ کے پاس چپ ہو کر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد شمسہ ماں پر چلائی اور کہنے لگی تم کچھ بولتی کیوں نہیں ہو۔ فوزیہ نے ضبط سے کام لے کر شمسہ سے کہا میری جان تم نے اپنے آپ کو قید کیا ہے اور روئے جا رہی ہو تمہیں بولنا چاہئے کہ کیا بات ہے۔ مجھے بتا کیا ہوا ہے جو تم روئے جا رہی ہو۔ اپنی پریشانی مجھے بتا آخرمیں تمہاری ماں ہوں۔ ہر مسئلہ حل ہو سکتا ہے اگر شعور سے کام لیا جائے ۔
اس پر شمسہ اور زیادہ رونے لگی اور ماں سے کہا آپ جھوٹ بول رہی ہو، آپ تو کیا بابا بھی میری مدد نہیں کر سکتے ہیں، کوئی میری مدد نہیں کر سکتا ہے۔ آپ لوگ مجھ سے نفرت کرنے لگ جائو گے۔ مجھے مر جانا چاہئے۔
فوزیہ اندر سے ٹوٹ ہی گئی مگر بیٹی کی وجہ سے اپنے جذبات پر قابو کئے ہوئے تھی۔ اس کو اندازہ ہوگیا کہ بات چھوٹی نہیں ہو سکتی ۔ بچی کو اس قدر ٹوٹتے دیکھ وہ بہت بے چین ہو گئی مگر کیا کرتی۔ پھر اس نے حوصلے سے کام لے کر شمسہ کو اعتماد میں لیا اور اس کی پوری بات اطمینان سے سن لی۔ سارا قصہ سننے کے بعد فوزیہ خوفزدہ ہو گئی۔ بیٹی کے بعد اب اس کو شوہر کے ساتھ بحث کرنی تھی اور وہ اندر ہی اندر گھٹن محسوس کر رہی تھی۔ یہ سوچ کر کہ یہ ساری باتیں سن کر اس کے شوہر کا کیا رد عمل ہوگا اس کا دل بیٹھا جارہا تھا کیونکہ اس نے اکثر دیکھا تھا اولاد کی بہتر کارکردگی کو لوگ باپ سے جوڑ دیتے ہیں اور اگر یہی اولاد کوئی غلطی کر بیٹھے تو لوگ ماں کی تربیت پر انگلی اٹھاتے ہیں۔خیر خود کو حالات کے لئے تیار کر کے وہ بیٹھ گئی۔
فوزیہ حیات کے شوہر محترم سکندر حیات گھر پہنچ گئے ، فوزیہ پہلے اس کے چہرے کو دیکھنے لگی اور چائے پیش کی۔ چائے پینے کے بعد شوہر نے پوچھا شمسہ کہاں ہے ؟
فوزیہ نے کہا وہ اپنا کام کررہی ہے۔ اس کے بعد فوزیہ نے موقعہ پاکر سکندر حیات کے ساتھ شمسہ کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ دیر تک بحث کرنے کے بعد دونوں میاں بیوی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ کیونکہ سکندر حیات پولیس کے پاس جانے سے کتراتا تھا۔ لیکن فوزیہ اس بات پر ڈٹی رہی کہ پولیس کی مدد کے بغیر ایسی صورت حال کا اور کوئی حل نہیں ہوسکتا۔
بہت سمجھانے کے بعد مشکل سے سکندر حیات نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی۔ کیس کی نوعیت کے مطابق پولیس نے یہ کیس سائبر جرائم برانچ کو بھیج دیا اور کاروائی شروع کی گئی ۔
سائبر انسپکٹر محترمہ حادیقہ صمدانی نے شمسہ سے بنا کسی دباؤ کے ساری باتیں تفصیل سے بتانے کو کہا۔
شمسہ نے کہا کہ میں دسویں جماعت کی طالب علم ہوں اور جس لڑکے کے بارے میں بات کرنے والی ہوں وہ میرا ایک آن لائن فرینڈ ہے۔ میں پچھلے کچھ عرصے سے اس کے رابطے میں رہی وہ میرا اچھا دوست بن گیا تھا۔
سائبر انسپکٹر نے شمسہ سے پوچھا تم اس دوست سے کب ملی اور کیسے ؟
شمسہ نے کہا وہ میرے ایک آن لائن فرینڈ کے فرینڈ لسٹ میں شامل تھا۔ اس نے ایک بار فرینڈ رکیوسٹ بھیج دی ، میں نے ایکسیپٹ کی۔ اس کے بعد ہم لگ بھگ روز ہی دیر تک چیٹ کرتے تھے۔
میں اسے ساری باتیں شیئر کرتی رہی۔ وہ مجھ سے ہر بات کے بارے میں پوچھتا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے اس نے گروپ میں کہا کہ ہم سب کچھ نہ کچھ پرفارم (Perform)کریں گے۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے بور (Bore)ہو گئے ہیں۔ جس کو گانا آتا ہے وہ گانا گائے گا اور جو رقص اچھا کرلیتے ہیں وہ رقص کریں گے۔ کچھ فرینڈز نے پہلے پرفارم کیا اور اس کے بعد میں نے کلاسیکی رقص پرفارم کیا کیونکہ میں سکول میں ہمیشہ رقص میں اول آتی رہتی ہوں ۔ اس کے کچھ مدت بعد ہم نے آپس میں تصاویر بھی شیئر کیں۔ کبھی وٹس ایپ اور کبھی ای میل کے ذریعے بھیجتے رہے، اس کے ساتھ ہی شمسہ بہت رونے لگی۔
سائبر انسپکٹر نے اس کو ہمت رکھنے کو کہا اور پوچھا اس کے بعد کیا ہوا؟ شمسہ نے کہا اس نے اچانک چیٹ کرنا بند کردیا اور فون بھی نہیں اُٹھایا۔ میں پریشان ہو گئی مگر اس نے رابطہ نہیں کیا۔ وہ گروپ سے اچانک غائب ہو گیا۔ پھر ایک دن اچانک فون کیا اور کہا کہ تمہارے لئے ایک سرپرائز ہے۔ میں نے خوش ہو کر کہا کیاہے ؟ اس نے کہا اب سے میں روز آپ کو سرپرائز دیا کروں گا۔ اس کے بعد اس نے میری تصویریں اور ویڈیوز ایک ایک کرکے بھیجنا شروع کئے۔ ل۔۔۔۔۔ ی ۔۔۔۔کن۔۔۔! اس کے ساتھ شمسہ پھر سے رونے لگی۔ انسپیکٹر نے شمسہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا حوصلہ رکھو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ شمسہ نے کہا میڈم اس نے تصویریں مورف (morph) کر کے واپس بھیج دیں۔ ان تصاویر اور ویڈیوز میں میرے چہرے کے ساتھ کسی اور کی برہنہ نسوانی جسم کی تصویروں کے ساتھ ایسے جوڑ دیا تھا کوئی یقین نہیں کرسکتا کہ یہ میں نہیں ہوں۔ اس کے بعد پھر سے رابطہ ترک کیا اوروہ فون نہیں اٹھاتا تھا۔ پھر میں نے میسیج کیا اور بار بار کیا لیکن اس نے خاموشی اختیار کر لی۔ پھر ایک بار فون کیا میں تو نے اُس سے پوچھا کہ کیا بےہودہ حرکت ہے، یہ میری تصویروں کے ساتھ تم نے کیا کیا ہے۔ وہ ہنسنے لگا۔ جب میں نے اس کو کہا میں پولیس میں رپورٹ کروں گی تو اس کو غصہ آیا اور اس کے بعد سے وہ روز مجھ سے ان دھمکیاں دینے لگا۔ اب وہ مجھے ویڈیوز اور تصاویر کے عوض بڑی رقم طلب کر رہا ہے۔ جب میں نے کہا میرے پاس پیسے نہیں ہیں تو اس نے کہا ایک اور راستہ ہے، میں یہ ساری ویڈیوز وغیرہ ڈیلیٹ کر دوں گا اگر تم میری ایک بات مان لو گی، میں جب تم کو بلاؤں گا اور جس جگہ پر آنے کو کہوں گا تم کو آنا ہوگا ورنہ میں یہ ویڈیوز اور تصاویر وائرل کرنے والا ہوں۔
سائبر انسپکٹر نے پوچھا کیا آپ اس سے ملنے گئی ؟
شمسہ نے کہا نہیں میڈم ؟ اس نے کل بلایا ہے ۔
سائبر انسپکٹر نے والدین سے پوچھا آپ دونوں کو اس بارے میں علم تھا ؟
دونوں میاں بیوی نے نفی میں جواب دیا۔ البتہ شمسہ کی ماں فوزیہ حیات نے کہا کہ میں نے شمسہ کے برتاؤ میں تبدیلی پائی تھی اور شمسہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جب میں اس کو سبب پوچھتی تو وہ ٹال دیتی یا غیر شائستہ طور پر پیش آتی تھی۔
سائبر انسپکٹر نے شمسہ سے پوچھا آپ نے والدین سے کیوں چھپایا ؟
شمسہ نے کہا میں کیسے ماں اور بابا کو یہ تصویریں دکھاتی۔ ماں نے جب میری پریشانی بھانپ لی تو تب میں نے اس کو یہ سب تصویریں دکھائیں۔ میں نے کچھ نہیں چھپایا۔
سائبر انسپکٹر نے لمبی خاموشی کے بعد کہا یہ بہت اچھی بات ہے کہ مجرم نے شمسہ کو کل بلایا ہے ۔اس نے شمسہ کے والدین سے کہا اگر آپ واقعی چاہتے ہیں کہ مجرم پکڑا جائے تو آپ کو ہمارے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا، ہم شمسہ کو مجرم کی طےشدہ جگہ پر بھیج دیں گے پولیس مکمل تیاری کے ساتھ اس جگہ کا پہرہ دے گی۔
والدین نے انکار کیا انہوں نےکہا کہ ہم اپنی بچی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔
سائبر انسپکٹر نےکہا کہ اس سے آپ کی بچی کو مزید پریشانی لاحق ہو سکتی ہے۔یہی اچھا موقع ہے سائبر مجرم کو پکڑنے کا۔ سائبر کیس حل ہونے میں سالوں لگتے ہیں اور پھر بھی کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اگر ہم یہ موقع کھو بیٹھے تو یہ کیس تو چلتا رہے گا۔ لیکن آپ کی پریشانی ختم نہیں ہو گی۔ آگے آپ کی مرضی۔
فوزیہ حیات نے ایک دم سے کہا ہم یہ خطرہ مول لینے کے لئے تیار ہیں اگر مجرم پکڑا جائے اور شمسہ کی حفاظت کا بھی انتظام کیا جائے۔
سائبر انسپکٹر نے بھروسہ دلایا کہ ہمارا عملہ پوری کوشش کے ساتھ بچی کا خیال رکھے گا ۔
سائبر انسپکٹر نے شمسہ کو سمجھایا اور پوری تیاری کے ساتھ اس کو مجرم سے ملنے کےلئے بھیج دیا ۔
جگہ سنسان تھی آس پاس بستی نہ ہونے کے برابر تھی۔ دور ایک زیر تعمیر بڑی عمارت میں شمسہ کو مجرم نے بلایا جس سے پولیس نے اندازہ لگایا کہ مجرم کی نیت بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ شمسہ جب مجرم کے قریب پہنچ گئی تو وہ ڈر گئی کیونکہ مجرم کا چہرہ ڈھکا ہوا اور ہاتھ میں پستول تھی اور اکیلا بھی نہیں تھا اس کے ساتھ اس کے اور ساتھی تھے۔
پولیس نے دبے قدموں سے آگے بڑھ کر مجرموں کو گھیرلیا عین موقعے پر مجرم کو پولیس پر نظر پڑی اس نے پہلے شمسہ کے سر پر نشانہ باندھ کر گولی چلائی۔ شمسہ ایک دم زمین پر اوندے منہ گر گئی۔ اس کے بعد پولیس نے تین لوگوں کو حراست میں لیا۔ جنہوں نے تصویروں اور ویڈیوز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا اعتراف کیا اور اپنے غلط منصوبے کے بارے میں بھی بتایا۔
سائبر انسپکٹر کو خوش ہوئی خطرناک مجرموں کا گروہ ان کے ہاتھ آگیا ۔ لیکن اس بات کا شدید افسوس تھا کہ وہ معصوم بچی شمسہ کی جان بچانے میں ناکام رہے۔

���
وزیر باغ، سرینگر
[email protected]