دیپک بُدکی کے افسانچوں کی کائنات ’’یہ کیسا رشتہ ‘‘ کے حوالے سے

سہل سالمؔ

اردو کی افسانوی کائنات میں دیپک بدکی کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں کیونکہ وہ فکشن کے حلقوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں ۔ایک درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں۔حال ہی میں ان کے افسانچوں کا مجموعہ ’یہ کیسا رشتہ ‘ منصہ شہود پر آگیا ہے جو کہ 86 افسانچوں پر مشتمل ہے۔ان کے افسانچوں میں انسانی قدروںکاتنزل ،انسانی مصائب و مشکلات اور ان سے وابستہ مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں۔

دیکھا گیا ہے کہ زندگی کے نشیب و فراز میں کوئی بھی انسانی قدروں کا خیال نہیں رکھتا ہے۔ ہر ایک فرد کو بس اپنی ذات کی فکر رہتی ہے۔’یہ کیسا رشتہ‘ کے پہلے ہی افسانچے ’ہمدرد‘ میں ان مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیپک بدکی لکھتے ہیں:

’’لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں ۔کچھ لوگ پہلے اپنا گلاس پورا بھرتے ہیں اور پھر دوسروں کو مدعو کرتے ہیں جبکہ باقی ماندہ لوگ دوسروں کا گلاس بھرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں چاہے ان کااپناگلاس خالی ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘

(افسانچہ ’ہمدرد‘،یہ کیسا رشتہ ص۱۵)

اکیسویں صدی کو جنگ و جدل کی صدی بھی کہا جاتا ہے۔طاقت ور ممالک کمزور ملکوں کو اپنی شکنجے میں جکڑنا چاہتے ہیں ۔اس لئے کہیں پہ امن و آشتی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی  ہے ۔ ہر طرف خوف و دہشت پھیلانے والے خود کو امن کے سالار کہتے ہیں۔اس حوالے سے دیپک بدکی کا ایک اور افسانچہ ’امن کی آشا‘ ملاحظہ فرمائیں:

’’عراق اور شام پر بم برسانے کے لیے بمبار جہازوں کو رخصت کرکے امریکی صدر پیرس عالمی امن کانفرنس میں شرکت کرنے چلا گیا۔ ‘‘

(افسانچہ ’امن کی آشا‘، یہ کیسا رشتہ،ص۱۶)

دیپک بدکی نے شوہر اور بیوی کی اُس بے بسی کو بھی سمجھا اور جانا ہے جس میں ایک شوہر اپنی ازدواجی زندگی کے سکون کو درہم برہم نہیں کرنا چاہتا ہے اس لیے ایک ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتا ہے جہاں ایک عورت ہی دوسری عورت کی زندگی برباد کرتی ہے۔افسانچہ ’کرائے کی کوکھ ‘ میں لکھتے ہیں:

’’مسٹر اور مسز فرینک آسٹریلیا سے ہندوستان اس لیے آئے تاکہ کوئی کوکھ کرائے پر لے سکیں۔مسز فرینک بچہ جننے کے قابل نہ تھی۔ایک دوست کی وساطت سے انھوں نے راجستھان کے ایک گاؤں میں ایک مقامی عورت سے رابطہ کرلیا۔ قیمت طے ہوئی اور پھر ضروری کارروائی شروع ہوئی۔جوں ہی ڈاکٹر نے حمل ٹھہرنے کی ہری جھنڈی دکھائی تو وہ اطمینان سے واپس آسٹریلیا لوٹ گئے۔ (یہ کیسا رشتہ ۔۔۔!ص۷۹)

جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس مجموعے کے سبھی افسانچے اہم ہیں لیکن افسانچہ ’ یہ کیسا رشتہ‘سب سے زیادہ اہم ہے۔جس میں دیپک بدکی نے رشتوں کی اہمیت اور افادیت اور اس کے عوامل کو افسانچہ کا روپ دے دیا ہے۔افسانچہ نگار نے اس میں بیوی کے تئیں خاوند کے سلوک ، نفرت اور دشمنی ہردو کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔کوئی انسان اس حد تک سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ کس طرح اپنی ازدواجی زندگی کے رشتے کو تار تار کرکے اخلاقی قدروں کو فراموش کرسکتا ہے۔یہ تمام حالات تبھی جنم لیتے ہیں جب عملی زندگی میں انسانی نفسیات اپنا رنگ کھودیتی ہے تو رشتوں کی مالا بکھر جاتی ہیں۔افسانچہ’یہ کیسا رشتہ‘میںمیاں بیوی کے درمیان مکالمے پر غور فرمائیں:

’’خیر ناشتہ کر کے جب ہم ایک دوسر ے سے رخصت ہوئے تو میں نے اپنی اہلیہ سے ناراضی ظاہر کی ۔’’تم نے اس کی بیوی  سے بات کیوں نہیں کی ،تم اپنے آپ کو نہ جانے کیا سمجھتی ہو؟‘‘

’’وہ کونسی اس کی بیوی ہے ،وہ تو اس کی بہو ہے جس کو وہ اپنے پاس رکھتا ہے جبکہ اپنی بیوی کو بیٹے کے پاس رکھ چھوڑا ہے‘‘۔اس نے شرارت بھرے لہجے میں جواب دیا۔‘‘ (یہ کیسا رشتہ۔۔۔!ص۳۰ )

دیپک بدکی کے افسانچے ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار کے افسانچے ہیں۔جن میں عورتوں کے مسائل ،عورتوں کے مصائب و آلام ،اُن کی خوشیاں ،اُن کے غم،اُن کی مظلومیت اور اُن کے استحصال کی مختلف تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔عورتوں کی داخلی اور خارجی کیفیات کو کس انداز سے دیکھتے ہیں۔ افسانچہ’’آئی لو یو ڈارلنگ‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ فر مائیں:’’اپنے بدن کی پیاس بجھاتے ہوئے میری معشوقہ با ر بارپوچھ رہی تھی کیا تم  مجھے ہمیشہ اسی طرح پیا ر کرتے رہوگے؟

اس کے بدن کی حرارت کو اپنے اندر جذب کرتے ہوئے مجھے مجبور ہو کر جواب دینا پڑا۔ یس ڈار لنگ آئی لویو ویری مچ  ۔میں ہمیشہ تم سے پیار کرتا رہوں گا۔کون جانے وہ یقین کر بیٹھی یا پھر تیقن کا ناٹک کر تی رہی۔البتہ دونوں کا معلوم تھا  کہ ہم یک دوسرے کے کبھی نہیں ہوسکتے ۔وہ سمندر پار اپنے پتی کے بانہوں میں جھولتی رہی  اور میری بیگم میری بانہوں میں۔‘‘   (یہ کیسا رشتہ۔۔۔!ص۳۷)

مذکورہ بالا افسانچوں کے علاوہ اظہار محبت،نظر انداز، قرض دار ،صوتی آلودگی،روایت شکن،سکے، رہنمائی ،قلم کی دھار، جنت اور جہنم،پیار زندگی ہے،ممانعت ،ٹی آر پی،شتر مرغ،عہد حاظر کا فرہاد ، اثاثہ ،انصاف ،بے وفائی،صورت اور سیرت ،شریف بدمعاش ،جہیز کی کرامات ، ماسک ،محافظ اور چور کے گھر مور وغیرہ یہ تمام افسانچے اس مجموعہ کی زینت بنے ہیں۔

اس کے علاوہ دیپک بدکی کے دیگر  افسانچے بھی سماج میں پھیلے ہوئے مسائل اور عصر حاضر میں زندگی کے تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی ،سیاسی،اقتصادی، اور اخلاقی نظام کو سمجھنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔دیپک بدکی کو افسانچہ نگاری  کے فنی لوازمات پر پختہ دسترس ہے۔مکالمے چست اور رواں ہیں،زبان کرداروں کے تہذیبی اور سماجی پس منظر نیز ان کے سماجی مقام ومرتبے کے مطابق ہے۔ان کے اسلوب میں روانی ،تازگی اور شگفتگی ہے ۔دیپک بدکی کافی وقت سے افسانے ،افسانچے اور منی کہانیاں لکھ رہے ہیں۔ان کا اسلوب عام فہم ہے۔وہ اپنے افسانچوں میں سماجی برائیوں سے پردہ اُٹھانا چاہتے ہیں۔بے بس معاشرے میں مردہ پڑی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور حادثات سے اپنے افسانچوں کے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں۔افسانچوں کے کردار ہمارے ہی آنگن میں پلے بڑھے ہیں۔ زبان سادہ اور آسان ہے۔امید قوی ہے کہ ادبی حلقوں میں اس مجموعے کی خاطر خواہ پذایرئی ہوگی۔

���

رعناواری سرینگر،موبائل نمبر؛9103654553,