دُعا افسانچہ

رئیس احمد کمار،قاضی گنڈ کشمیر

اپنی بیٹی کو وداع کرنے کے بعد دونوں میاں بیوی عشاء کی نماز پڑھ کر عاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ سے یہی دعا کرتے تھے کہ سسرال میں اسے پیار ملے ، خوشی ملے ، سکھی سنسار ملے ، پھولے پھلے اور اس کی زندگی میں کبھی کوئی دکھ یا غم نہ آئے ۔
عین اسی وقت ان کی دو بہوئیں بھی دوسرے کمرے میں مصلے پر نماز ادا کرنے کے بعد یہ دعا کرتی تھی ۔ ” جیسے اس نے میرا جینا حرام یہاں کیا تھا اسی طرح اسکا بھی وہاں جینا حرام ہوجائے ۔ جس طرح وہ مجھ پر یہاں اپنی حاکمیت چلا رہی تھی اسی طرح اسے بھی وہاں بدترین سلوک کا سامنا کرنا پڑے ۔ جس طرح وہ مجھے یہاں ایک نوکرانی سمجھتی تھی اور طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتی تھی اسی طرح اسے بھی وہاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے ۔ جس طرح اس نے میری زندگی وبال بنائی تھی اسی طرح اس کی زندگی میں بھی کبھی خوشی میسر نہ ہو پائے۔ جس طرح میں یہاں اُس سے ڑرتی تھی ، دن کا سکون اور رات کا چین اس نے مجھ سے چھینا تھا اسی طرح اس کی شادی شدہ زندگی بھی جہنم بن جائے۔
ان کا ایک نوکر بھی گھر میں تھا ۔ اس کا نام حمید تھا ۔ حمید دونوں کمروں میں بہووں اور ان کے ساس سسر کے دعائیں سن کر اس گہری سوچ میں ڑوبا تھا کہ آخر مالک کائنات کن کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشے گا ۔