دریا کا قیدی افسانہ

سہیل سالمؔ

جب نئی بستی کا ہر ایک فرد اس مرض میںمبتلا ہوا کہ وہ دریا کا حصہ ہے یا نہیںہے۔تو ہر ایک فردنے دریا کی پرستش کرنی شروع کی۔اب ہر شام دریا کے ساحل پر جشن ہوتا ہے ۔اطراف و اکناف سے آئے ہوئے لوگ دریا سے باتیں کر تے رہتے ہیں۔ایک روز میں نے بھی دریا کا درشن کیا اورپانی میں عکس دیکھ کر میں نے اپنی آنکھوں میں یہ سوال ابھرتے دیکھے۔
’’ میں کون ہوں‘‘؟
’’ میں ہوں یا نہیں بھی ہوں؟‘‘
’’میں کہاں کا رہنے والا ہوں؟‘‘
ہاں ہاں۔۔۔اب یاد آیا۔میں وہاں کا رہنے والا ہوں جہاں ہر ایک فرد کی پرچھائی کا قتل ہوا۔جہاں خواب کی بستی نیلام ہوجاتی ہے۔جہاں جہلم کی آنکھیں سوکھ گئی ہے۔بچے،عورتیں ،جوان اور بوڑھے دن کے اندھیرے سے لڑتے رہتے ہیں ۔جہاں روشنی کا گھر خود روشنی کے لئے ترس رہا ہے۔جہاں ریت کے گھونسلے آگ سے سنوارے جاتے ہیں ۔آس پاس کے لوگ چراغ بیگ کے فرمان کو قانونی قاعدہ سمجھتے ہیں ۔جہاں نیا سفر شروع کرنے سے ڈر لگتا ہے۔ابھی میں نے پانی میں اپنا عکس مکمل طور طریقہ سے نہیںدیکھا تھا کہ اچانک ایک لال مچھلی میرے سامنے نمودار ہوئی اور ہنستے ہنستے پوچھنے لگی۔
’’میرا تعارف ہے۔۔‘‘
’’آپ کا تعارف ،آپ کون ۔میں تھوڑا سا ڈر گیا۔۔‘‘
’’ ڈر ۔۔نہیں۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔ڈرنے کی بات نہیں ہے‘‘
’’یہ کیا مصیبت ہے۔تم مجھے کیوں نہیں جانتے ہو۔تم مجھے کیوں نہیں پہچانتے ہو۔‘‘
’’میں نے اپنے فہم و ادراک کے دروازے پر دستک دینے کی بھر پور کوشش کی ۔‘‘
’’یہ کیا ماجرا ہے ؟‘‘
’’آپ کی سمجھ داری کہاں غائب ہوگئی ہے ؟‘‘
’’اب میں بولتی ہوں ۔۔میں کون ہوں؟‘‘
یہ جس ساحل پر تم دریا کی روح میں اترنا چاہتے ہو۔ دریا اورساحل کا اک اک ذرہ میری ذات سے واقف ہے ۔پانی کے شہری سبز وادیوں میں مجھے ڈھونڈنے کی جستجو کرتے رہتے ہیں۔ جیلوں ،سمندروں اور دریائوں میں اپنی سانسیں نچھاور کرکے مجھے حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔میں جام حقیقت کو جھوٹ کے گلاس میں پیش کرتی ہوں۔میری بات میں سچائی کا کوئی بھی رنگ نظر نہیں آئے گا کیونکہ میں اور میری ذات بے رنگ ہے۔میری لت جس کو لگ جاتی ہے وہ اپنے ضمیر کا سودا کرتا ہے۔میں خود آزاد ہوں اور بستی والے میرے غلام ہیں۔درباروں اور ایوانوں میں میری نمائش ہوتی ہے اورشہرت کے کٹورے لیکر مجھ سے چند پل گزارنے کی بھیک مانگتے ہیں۔اکثر شام کی تنہائی میں مجھے سے ملنے آتے ہیں۔چنارکے زرد پتوں سے میں نے خوشبو چرالی۔ چھوٹے چھوٹے پرندوں سے میں نے بینائی چھین لی ۔جھوٹی چمک دھمک سے میں نے بستی میں اندھیر ے کو پروان چڑھایا ۔۔امن و امان کی لاش کو بھی نذر آتش کیا۔ ہر اک گھر کے آنگن میں ذبح خانے تعمیر کروائے۔امیر ،غریب ،چھوٹا ہو یابڑا مجھے چھونے کی کوشش کرتا ہے ۔ آپ نے نہیں دیکھا میں نے کن کن ناگ راجوں کو غرق کیا۔شاعر اور ادیب رات دھیرتک مجھے کھاتے رہتے ہیں۔وہ پچھلے سال کی بات ہے آپ کے پڑوسی نے مجھے حاصل کرنے کے لئے اپنی بیوی کی شہ رگ نوچ لی۔
’’ہاں ایک اور بات۔۔جو میں کہنا بھول گئی۔۔‘‘
کئی لوگوں کیلئے میں سکون کی دیوی ہوں۔وہ اپنے جسم کی گرمی کو کم کر نے کیلئے ہفتے میں ایک بار مجھے پکڑنے آتے ہیں۔وہ اپنے گرم ہاتھوں سے میرے لئے آلو کے نوالے بنابنا کر مجھے کھلاتے رہتے ہیں ۔اور پھر میں ان کے جسم سے گرمی نچوڑ کر دریا میں ان کے ساتھ تیرتی رہتی ہوں۔
کیا میں دریا سے جدا ہوگیا ہوں۔کیا میری یادداشت پانی میں تحلیل ہوچکی ہے۔لال مچھلی میرے افہام وتفہیم کے میدان میں قدم رکھنا چاہتی تھی۔لال مچھلی کی یہ باتیں سن کر میرے پائوں تلے زمین کھسک گئی۔
اچانک اسمان کو بادلوں نے اپنی تحویل میں لیا اور تیز ی سے بارش شروع ہونے لگی۔میں نے گھر کی راہ لی۔میں جب گھر پہنچا تو دیکھتا ہوں کہ میرے ایکویریم میں وہی لال مچھلی پھر سے نمودار ہوئی۔
’’مجھے پریشان اور اداس دیکھ کر خوش ہورہی تھی۔‘‘
’’اور بول پڑی۔۔‘‘
’’کیا میں دریا میں نہیں ملی۔اور پھر وہ ہنس پڑی۔‘‘
’’چلو جائو۔۔اب مجھے جہلم میں ڈھونڈو ۔‘‘
’’میں نے بھی افسردگی کے ساتھ پوچھا ۔۔‘‘
’’تمہاری باتوں سے فلسفے کی بو آرہی ہے ۔کیا مجھے اس طرح پریشان کرکے تمہیں سکون مل رہا ہے۔‘‘
’’سکون تو لال مچھلی کے ساتھ کھیلنے والوں کو مل رہا‘‘
وہ پھر سے ہنس پڑی اور زور روز کہنے لگی ۔۔
’’ تم میرے دریا میں قید ہو”
���
رعناوری سرینگر۔9103654553