حضرت میاں بشیر احمد لارویؒ ایک ہمہ جہت شخصیت

میاں گلزار احمد

حضرت میاں بشیر احمد لارویؒکے جد محترم حضرت میاں عبداللہ، جو چار سو جی صاحبؒکے نام سے مشہور تھے، اپنے پیر ومرشد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ضلع ہزارہ تحصیل بالا کوٹ سنجوڑا نامی گاں سے ہجرت فرما کے وادی کشمیر میں ضلع سرینگر سے قریب 45 کلومیٹر دور اچھلتے، کودتے، اور بل کھاتے دریا سندھ کی دائیں جانب برف سے ڈھکے ہوئے فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں دیودار کے قد آور گھنے درختوں سے گھری ہوئی خوبصورت بستی “ہری دھحبی، جو اب بابانگری کے نام سے مشہور ہے، تشریف لاکر اس بستی میں سکونت اختیار کرلی۔
آپؒکے فرزند ارجمند حضرت بابا میاں نظام الدین لاروی ؒکے ہاں اسی بستیٔ بامراد میں حضرت میاں بشیر احمد لارویؒ نے ایک ایسے ماحول میں آنکھیں کھولیں جہاں معرفت کا سمندر ٹھا ٹھیں مارتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔اس سمندر میں ملک کے کونے کونے سے بیدار بخت اور بیدار مغز لوگ غوطہ زن ہوا کرتے تھے، جو اب بھی اپنے فیض سے مخلوق خداوندی کو فیصیاب کرنے میں بخیلی نہیں کرتا۔ملک ابھی تقسیم نہیں ہوا تھااور ریاست پر آشوب دور سے گزر رہی تھی، غریب قرض کے بوجھ تلے دب چکا تھا، کسان اپنی محنت سے کمائے غلے کو اپنے گھر میں نہیں بلکہ ذخیرہ اندوزوں کی گودام میں جمع ہوتے ہوئے خاموش کھڑا دیکھ رہا تھا۔ اس کی زبان مقفل تھی اور خود پابز زنجیر تھا۔ سود در سود وصول کرنے والا خونخوار درندے کی مانند تک رہا تھا اور اس پر جھپٹتے ہوئے اسے کوئی خوف خدا نہ تھا اس بدامنی اور افراتفری کے دور میں ملکی سیاست نے آکر حضرت بابا نظام الدین لارویؒکی چوکھٹ پہ اپنا ماتھا ٹیکا حالات کی مجبوری اور غریب کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے آپؒاسے رندہ درگاہ نہیں کیا بلکہ باشعور فہم و فراست رکھنے والے اکابرین سے صلح و مشورے اور آپسی رابطہ کرنے شروع کئے۔ اس مشاورت سے ایک تحریک نے جنم لیا جس کی جلد میں شامل اس وقت کے اپنی قوم کا سوز و گداز رکھنے والوں میں آپؒکے رفیقِ راہ چودھری غلام حسین لسانوی صاحب، مولانا مہر الدین قمر ، جناب چودھری دیوان علی ، جناب مولا نا عبد الرحمان ٹاٹ پونچھ اور مولوی لعل حسین بھٹی تھے۔ اس قافلہ با قرینہ کی وساطت سے 1931 کی دہائی میں گجر جاٹ کانفرنس کا روپ عوام کے سامنے متعارف ہوا۔ اسی عہد میں حضرت میاں بشیر احمد لارویؒکا بھی سیاسی دور شروع ہوتا ہے۔آپؒاپنے والد محترم کے ہمراہ اس الجھے ہوئے تانے بانے کو سلجھانے میں شامل ہوگئے۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور اقتدار میں حضور قبلہ بابا صاحبؒرجھا سبھا” کے رکن منتخب ہوگئے۔ بعد میں 1952 سے ریاستی اسمبلی میں 1967 تک حلقہ انتخاب کنگن سے بلا مقابلہ رکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔اس دوران لوگوں کے مسائل اور ان کی گوناگوں پریشانیوں کا تدارک حضرت میاں بشیر صاحبؒہی کیا کرتے تھے۔ آپؒنے سماج میں ہر بدعت اور بری رسم کا خاتمہ کرنے کا عہد کرلیا جسمیں فعل ناجائز، اغوا کاری، ڈاکہ زنی، ماردھاڑ وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ کم زبان، مفلس۔ اور نادار لوگوں کو انصاف دلوانے میں ہمیشہ سینہ سپر رہے. آپؒکی ان سماجی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کے دلوں میں ان کی قدر پنپتی اور پروان چڑھتی رہی۔ اجارہ داروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تو شہرت کا چرچا جابجا ہونے لگا ۔اپنی مقبولیت کی وجہ سے ذیلدار چنے گئے۔ سال 1949 سے لیکر سال 1952 تک اس منصب پر فائز رہے لیکن عہدہ ذیلدارری میلان طبع کے موافق نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت کے مشیر مال مرزا محمد افضل بیگ کو 26 اپریل 1952 میں اپنا استعفی پیش کرکے عہدہ ذیلداری سے مستعفی ہوگئے۔ بعد ازاں ایک روز کے لئے سرپنچ نامزد ہوئے لیکن چونکہ طبیعت کسی کے ماتحت رہنے پر راضی نہ تھی اس لئے دوسرے روز اپنی جگہ نادر کسانہ ساکنہ مرگنڈ کو سرپنچ نامزد کروایا۔

بقولِ مولانا حسرت موہانی ؎
“ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی”
بہرحال والد گرامی کی نظر عنایت آپؒپر مرکوز تھی انہیں علم تھی۔ کہ اس سادہ لوح عوام سے شناسائی کرنا بشیر کے بغیر ناممکن ہی نہیں بلکہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ 1947 میں جب ملک تقسیم ہوا توان نامساعد حالات میں راجوری اور پونچھ کے وہ لوگ ،جو حدمتارکہ کے قرب وجوار میں رہائش پذیر تھے اور جن میں اکثر تعداد گجر اور پہاڑی طبقے سے تعلق رکھنے والی تھی، نقل مکانی کرنے پہ مجبور ہوگئے۔ اس خون ریزی کے عالم میں بستیوں کی بستیاں اُجڑگئی تھیں ۔ہر طرف افرا تفری کا ماحول تھا اور ریاستی انتظامیہ مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ انہوں نے پونچھ راجوری کے عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے پہلے سردار بدھ سنگھ اور غلام محی الدین ہمدانی کو روانہ کیا. لیکن فوج نے ان کو نوشہرہ سے آگے نہ جانے دیا اوروہاں ہی روک دیا، اس لئے واپس آکر شیخ محمد عبداللہ کو رونما حالات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ “اگر کسی رہنما کو راجوری پونچھ نہ بھیجا گیا تو آبادی کا ایک بڑا حصہ حدمتارکہ کے اس پار جابسے گاچنانچہ شیخ صاحب نے تحصیلدار گاندربل کو وانگت روانہ کرکے سجادہ نشین حضرت بابا میاں نظام الدین لارویؒکو سرینگر آنے کی دعوت دی۔حضرت بابا صاحبؒاپنے صاحبزادے میاں بشیر صاحب کو اپنے ہمراہ سرینگر لائے اور شیخ محمد عبداللہ سے ملاقی ہوئے دوران گفتگو شیخ صاحب نے اس مشکل وقت میں آپؒکی مدد طلب کرتے ہوئے کہا کہ “اس صورتحال میں آپؒراجوری پونچھ کا دورہ فرمائے تاکہ وہاں کے عوام آپؒکی تشریف آوری سے مطمیٔن ہوجائے گی۔شیخ صاحب کی اس تجویز پر آپؒنے میاں بشیر احمد صاحب کو پونچھ روانہ کرنے کا حکم فرمایااورموصوف کو پونچھ باز آباد کاری افسر بنا کر روانہ کر دیا ۔

دوسری مرتبہ 1965 میں بھی ایسے ہی حالات ان علاقہ جات میں رونما ہوئے اس وقت بھی آپؒ نے بڑی خوش اسلوبی سے ان نقل مکانی کرتے ہوئے اجڑتے قافلوں کو ازسر نو اپنے اپنے علاقہ جات میں آباد کروایا۔ 1964میں حضور قبلہ بابا صاحبؒفریضہ حج ادا کرنے کے بعد سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے لیکن بحثیت رکن اسمبلی مستعفی نہیں ہوئے تھے۔ اس تناظر کے پیش نظر 1967 کے آمدہ ریاستی اسمبلی انتخاب میں حضور قبلہ بابا صاحبؒسے ریاست جموں و کشمیر کے وزیر اعلی غلام محمد صادق صاحب نے حلقہ انتخاب کنگن سے چنا ئومیں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی لیکن آپ نے انکار فرمایا۔ جلسہ گاہ میں حضور قبلہ بابا صاحبؒنے کثیر تعدادمیں سامعین کو دوران تقریر مخاطب کرتے ہوئے فرمایا “میرے بھائیوں میں پندرہ برسوں تک آپ کی نمائندگی کرتا رہا ہوں۔ آپ نے مجھے بے حد پیار سے نوازا ہے ،بے پناہ محبت دی ، مجھ پر بے انتہا اعتماد کیا ہے جس کے لئے میں آپ کا مشکور و ممنون رہوں گا۔ آپ سے میری صرف اتنی گزارش ہے کہ ان پندرہ برسوں میں میرے گھوڑے نے بھی اگر کسی کے گھاس کا تنکا تک کھایا ہو یا میں نے کسی کی دل آزاری کی ہو، کسی کے گھر پانی بھی پیا ہو تووہ مجھے بخش دے۔ اب میں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ میں نہ سیاست میں حصہ لوں گا اور نہ ہی چناؤ لڑوں گا۔یہ سن کر لوگ دل برداشتہ ہوگئے اور زارو قطار رونے لگے۔ان کے بار بار اصرار کرنے پر بھی آپؒنے نفی میں جواب دیا ۔آخر اس مجمع جاں افشاں نے آپؒسے اپنا نمائندہ میاں بشیر احمد صاحب کا انتخاب کرنے کو کہا۔حضرت قبلہؒنے صادق صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اگر اس لاتعداد ہجوم کا یہ فیصلہ ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس طرح میاں بشیر احمد صاحب سال 1967 میں حلقہ انتخاب کنگن سے پہلی مرتبہ بلا مقابلہ کامیاب ہوئے اور خواجہ غلام محمد صادق کی کابینہ میں محکمہ آبپاشی اور کوآپریٹو کے نائب وزیر مقرر ہوئے۔صادق صاحب کی دور حکومت میں سمبل پاور ہاس کا سنگ بنیاد رکھا، جس کی وجہ سے ٹھیکیداروں کو روزگار میسر ہوا۔مزدورکو اپنی مزدوری ملنے لگی۔ کنگن کو آر بی اے کے زمرے میں لانا آپ کی دین ہے جس کی وجہ سے جہاں اقتصادی حالت میں فرسودہ حالی سے نجات حاصل ہوئی وہیںپڑھے لکھے نوجوانوں کے سرکاری ملازمت کی راہ ہموار ہوگئی. آپ نے اپنے دور اقتدار میں متعدد کار ہائے نمایاں انجام دیئے۔
سال 1977 میں شیخ محمدعبداللہ کے دور حکومت میں بھی آپ ریاستی کابینہ کے وزیر رہے ۔اس کابینہ میں 105میگاواٹ پاور ہاس کنگن سٹیج سکنڈ منظور کروایا۔جس کا نام ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جی صاحبؒکے نام پررکھا۔ان دونوں پاور ہاسوں کی تعمیر میں جن لوگوں کی ملکتی اراضی آئیں، ان کومیاں بشیر احمد صاحب نے معقول معاوضہ فراہم کروانے کے ساتھ ساتھ نوکریاں بھی دلوائیں ،جس کی وجہ سے بے روز گاری میں کمی واقع ہوئی۔
اس سے قبل سید میر قاسم صاحب کی حکومت میں آپ وزیر مملکت کے عہدے پر فائز تھے۔ 1972 کی جنگ کے بعد ہندوستان کی وزیراعظم محترمہ اندرا گاندھی سرینگر تشریف لائیں تو ریاستی کا بینہ کااجلاس طلب کیا، جس دوران محترمہ اندرا گاندھی نے وزیر اعلی میر قاسم صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا “ریاست میں گجر بکروال طبقہ کی اقتصادی حالت ابتر ہے، اِن لوگوں کے لئے کچھ کیوں نہیں کرتے ۔ قاسم صاحب نے وزیر خزانہ گردھاری لعل ڈوگرہ کی طرف دیکھا لیکن میاں بشیر احمد صاحب نے مداخلت کرتے ہوئے فرمایا” محترمہ یہ کچھ بھی نہیں کرتے” ۔ اس کے بعد وزیر اعظم اندرا گاندھی نے دہلی جاکر اس طبقہ کی فلاح و بہبود کے لیے الگ سے بارہ کروڑ روپے منظور کروائے، جس سے گجر ہوسٹلوں کی تعمیر کا آغاز ہوا اور کلچرل اکیڈمی میں شعبہ گوجری قائم کیا گیا۔

سال 1969کی دہائی میں ریڈیو کشمیر سرینگر سے گوجری پروگرام کی نشریات کا آغاز کروایا لیکن یاد رہے کہ اس سے قبل آپؒ سال 1955 مارچ کو پارلیمنٹ ہاوس میں ڈاکٹر ککڑ سے ملاقی ہوئے اور ریڈیو کشمیر سرینگر سے گوجری پروگرام کی نشریات کا مطالبہ کیا اور اپنے روزمرہ کے روزنامچے میں یوں رقمطراز ہیں “آج صبح کی چائے پینے کے بعد سب سے پہلے پہاڑ گنج کے دربار ابد قرار حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ نقشبندی کے دربار پر گیا ۔شفیع صاحب اور عزیزم جنید ہمراہ تھے۔ وہاں سے آکر میں مولانا محمد سعید مسعودی صاحب،شفیع اور عزیزم جنید نے مہرولی شریف میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒکے دربار شریف پر حاضری دی اور قطب مینار بھی دیکھنے گئے جس کی 378 سیڑھیاں ہیں۔وہاں سے آکر حضرت خواجہ محبوب الہی نظام الدین اولیاؒکے دربار پر آئے اور خواجہ حسن نظامی سے ملا ،پھر اس کے بعد وہاں سے واپس آکر کھانا کھایا۔کھانا کھانے کے بعد پارلیمنٹ کے اجلاس میں گئے جہاں پارلیمنٹ کی کارروائی کا مشاہدہ کرنے کے دوران پنڈت جواہر لال نہرو جی کی تقریر بھی سنی۔ پھر ڈاکٹر ککڑ سے کہا کہ “آپ بخشی صاحب سے کہیں کہ وہ اس قوم کی امداد کریں اور ریڈیو کشمیر سرینگر سے گوجری پروگرام کی نشریات شروع کریں

1975 میں جموں میں پہلے گجر بکروال ہوسٹل کا آپ نے سنگ بنیاد رکھا. سال 1978 میں ریاستی کلچرل اکیڈمی میں گوجری اور پہاڑی زبانوں کے فروغ کے لئے شعبے قائم کروائی اور سال 1980 کی دہائی میں ریاست بھر میں گجر بکروال طبقے کو درجہ فہرست زمرے میں لانے کے لئے زبردست عوامی تحریک کا آغاز کیا ۔آپ نے پوری ریاست جموں و کشمیر کا دورہ کیا ،جس دوران گاوں ، قصبوں اور شہروں میں جلسے کر کے اپنے لوگوں کو فیصلہ کن جدوجہد کے لئے تیار کرنے لگے تاکہ انہیں جائز حقوق دلائے جاسکیں۔ آپؒکی شجاعت ،دلیری، ہمت، اور جرأت کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔اس دوران سب سے دو بڑے جلسے جموںسکریٹریٹ کے باہر اور لال چوک سرینگر میں منعقد کئے گئے، جن میں ہزاروں کی تعداد میں گجربکروال قبائل اور آ پ ؒ کے عقیدت مندوں نے شرکت کی ۔لال چوک کے جلسے میں پولیس سے تصادم آرائی بھی ہوئی جس میں آپؒکو چوٹ بھی لگی۔ آپؒ کے مخالفین نے ہر طرح سے اس تحریک کو کچلنے کے لیے روڑے اٹکائے لیکن اس جدوجہد کو جاری رکھا تاکہ پسماندہ طبقہ جات کو درجہ فہرست قبائل کے زمرے میں لانے کی مہم کو کامیاب کیا جاسکے۔

آپؒ کی مسلسل کوششیں آخرکار کامیاب ہوئیں اور گجر قوم کو درجہ فہرست قبائل زمرے میں شامل کیا گیا۔ آپؒ نے درخشاں مستقبل کے لئے ارباب اقتدار کی پرواہ کئے بغیر لگن، محنت، اور جذبہ ایثار سے ہر کام کو سرانجام دیتے رہے۔آپؒکی کارکردگی ،رقم کرنے کے لئے ایک دفتر چاہیے۔ سال 1986 میں راجیو فاروق ایکارڈ کے دوران آپ ؒکے بارے میں روزانہ شائع ہونے والے متعدد اخبارات میں چھپی سرخی دیکھ کر مشہور معالج جناب ڈاکٹر علوی صاحب نے یہ خبر پڑھی کہ “آپؒکو اس کابینہ میں وزیر نامزد کیا جارہا ہے، لیکن آپ نے انکار کر دیا، تو علوی صاحب نے میاں بشیر احمد صاحب کو ایک خط تحریر کیا۔ جس میں آپ رقمطراز ہیں میں نے پڑھا کہ ایک بادشاہ وزیر بن رہے ہیں شکر ہے کہ آپ نے انکار کردیا۔ آپ اس حادثے سے بچ گئے۔1995میں ہندوستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نرسہما راو نے میاں بشیر احمد صاحب کو اپنے پاس دلی طلب کرکے کہا کہ “میاں صاحب ہم آپ کو ریاست جموں و کشمیر کا وزیر اعلی بنانا چاہتے ہیں‘‘ لیکن آپ کا ضمیر نہ مانا۔ آپ( رح)کے ہم عصروں میں جناب شیخ محمد عبداللہ،جناب بخشی غلام محمد، جناب غلام محمد صادق،جناب مرزا محمد افضل بیگ، جناب عبدالکبیر المعروف جیل بابا، جناب مولانا محمد سعید مسعودی،جناب قاری سیف الدین، جناب عبدالعزیز شال، جناب سید میر قاسم، جناب حاجی میر عالم نقشبندی مجددی، جناب گردھاری لال ڈوگرہ، جناب سید علی شاہ گیلانی، جناب مفتی محمد سعید،جناب ماسٹر بیلی رام گردانے جاتے ہیں۔ آپ ؒ نے ہمیشہ اپنی منشا ءکے مطابق ریاست کے وزیر اعلی کو چنا ہے، جسے نہیں چاہتے تھے اسے چلنے نہیں دیا۔لیکن اس خانوادئے جی صاحب ؒ سے رب العالمین نے دنیاوی کاموں کے علاوہ ورثہ میں ملے ہوئے معرفت اور طریقت کے دریائے رحمت میں دلے ہوئے اثاث کی نگرانی میں متعین کروانی تھی۔ اس متاعِ بے بہا کے واسطے دربار بابا جی صاحب ؒ کے دربان مقرر ہوئے۔1972 بمطابق 15 شعبان کو حضرت قبلہ بابا صاحب ؒنے آپ ؒ کو سلسلہ نقشبندیہ مجددی میں بیعت فرما کے اپنا خلیفہ اور زیارت شریف کا سجادہ نشین مقرر کیا۔آپ ؒ نے ریاست اور بیرون ریاست بلکہ برصغیر میں سلسلہ کے فروغ کے لئے انتھک کام کرتے ہوئے لاکھوں افراد کو اپنے حلقہ احباب میں شامل کیا۔ اپنی ہر مجلس میں نماز، روزہ، پرہیزگاری اور باشرع ہونے کی وصیت فرمایا کرتے تھے. رشدو ہدایت کا یہ درس متاعِ زیست ہوکے رہ گیااور جن کا تعلق دربار عالیہ جی صاحب ؒ سے وابستہ تھا وہ اس روحانی فیض سے فیضیاب ہوکر رہ گئے۔

آپ ؒ بحیثیت ممبر حج ڈیلی گیشن اپنی رفیقہ حیات بی بی غلام مریم صاحبہ اور مولوی شرف الدین کے ہمراہ فریضہ حج کیلئےاس ڈیلی گیشن میں شامل رہے، جس کی سربراہی ڈاکٹر فاروق عبداللہ کررہے تھے ادا کرنے تشریف لے گئے۔ فریضہ حج کا ذکر 1986 کی ڈائری میں آپ ؒ یوں کرتے ہیں۔
25 اگست 1986

” آج بھی مدینہ شریف ہی رہے بڑی دیر کے بعد ڈاکٹر فاروق عبد اللہ کی کوشش سے گورنر نے ہمارے قافلہ کو حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے دیگر مشتاقان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کروایا اور دل کھول کر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا ،جنابہ مادر مہربان بیگم شیخ صاحب ، جناب ڈاکٹر فاروق عبداللہ، جناب سیف الدین سوزاور ان کی اہلیہ، جناب بیکل اتساہی رکن پارلیمان اور ان کی اہلیہ، محترمہ غلام مریم جی اور مولوی شرف الدین سمیت دیگر رفقا بھی اس میں شامل تھے ۔ حاجی ممتاز جی ، حاجی لعل، حاجی بھایئا وغیرہ محبان رخصت ہوگئے ہیں”
ایک اور جگہ یوں رقمطراز ہیں” جدہ شریف جس ہوٹل میں ہمیں ٹھہرایا گیا ہے اس ہوٹل میں ہندوستان، پاکستان، سمیت دیگر کئی ممالک کے عقیدت مند اکٹھے ہوگئے اور بیعت ہونے کی خواہش ظاہر کی۔اس موقع پر ہوٹل کا سارا لان بھرگیا ۔میں نے انہیں بیعت کی اس موقع پر اللہ ھو کرتے ہوئے سینکڑوں لوگ وجد میں آگئے ،جن میں سے متعدد بے ہوش ہوگئے۔ اس کا اثر دیکھ کر بیکل اتساہی نے فرمایا ’’ہم تو بے کل ہی رہے ہماری کل بھی درست کردیجھے‘‘ آپ ؒنے ریاست جموں کشمیرمیں ہی نہیں بلکہ پنجاب میں بھی کئی مساجد تعمیر کروائی ہیں۔ خاص طور پر 2002کا ذکرِ ہے کہ ایک دن حضرت کو خواب میں حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ؒ نے فرمایا کہ “سرہند شریف کی بوسیدہ شاہی مسجد کی تعمیر نو میں خدمت انجام دو”آپ ؒ نے اپنے عقیدت مندوں سے چند ہفتوں میںچندہ جمع کرکے سجادہ نشین جناب یحییٰ صاحب کے سپرد کیا اور ایک صدی قبل جو نقشہ نظام حیدرآباد نے مسجد کے لئے منظور کیا تھا، آپ ؒ نے اسی نقشے پر مسجد شریف کی تعمیر نو کا کام شروع کرواکے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اس کے علاوہ کئی مرتبہ سیرت کانفرنسوں کا بھی انعقاد کروایا۔
19 فروری1988 کے روزنامچہ میں یوں رقمطراز ہیں

“آج جموں میں 1947کے بعد پہلی مرتبہ اہل سنت و الجماعت کی جانب سے سیرتِ النبی ) صلی اللہ علیہ وسلم )کانفرنس کا اجلاس راقم الحروف کی صدارت میں شروع ہوا، بہت بڑا مجمعہ ہے اور اس میں افتتاحی تقریر جناب ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی ہوئی، علما کرام بریلی اور دیو بند سے تشریف لائے اور لار ہے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے دو حریف علمائے کرام ایک ہی سٹیج سے سیرتِ النبی) صلی اللہ علیہ وسلم )کے اجلاس میں خطاب فرما رہے تھے۔ اسی طرح کنگن میں سہ روزہ سیرتِ النبی) صلی اللہ علیہ وسلم) ،کانفرنس کا انعقاد کروایا۔ کشمیر میں اہل سنت و الجماعت کی طرف سے یہ پہلی سیرتِ کانفرنس تھی، جس کی میزبانی حضرت خود کررہے تھے ۔
18اگست 1989

“آج کنگن مرگنڈ کے میدان میں ایک بجے سیرتِ النبی( صلی اللہ علیہ وسلم )کانفرنس بعد نماز ظہر شروع ہوئی۔ریاست جموں و کشمیر کے لگ بھگ پچاس ہزار مسلمان شامیانوں کے نیچے عشقِ نبوی( صلی اللہ علیہ وسلم ،میں سرشار جمع ہیں۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ دیر سے آئے۔اس کانفرنس میں بریلی شریف سے آئے ہوئے اختر رضا صاحب، دہلی سے قادر الکلام بیکل اتساہی، جناب مولاناعبداللہ عاظمی ، جناب الحاج محمد حسین صاحب اور جناب تبسم عزیزی سمیت دیگر علمائے کرام نے شرکت کی اور سامعین کو خطاب کیا۔

یہ تھے حضرت کے روزنامچوں سے چند اقتباسات۔ چونکہ آپ ؒ نے 1945 سے روزنامچے تحریر کرنے شروع کئے تھے جو علمی، ادبی ، اور تاریخی اعتبار سے بہت بڑا سرمایہ ہے۔ آپ ؒ مطالعہ کے اس قدر شوقین تھے کہ ملک میں جہاں بھی کتابوں کا میلہ ہوا کرتا تھا،چاہے دلی میںیا کسی دوسری جگہ، آپ اس میلے میں خود تشریف لے جایا کرتے تھے اور ہر طرح کی کتابیں لایا کرتے تھے ۔خاص طور پر مذہبی کتابوں کا از حد مطالعہ کا شوق تھا، جس کا ثبوت آپ کے کتب خانے میں قرینے سے سجائی ہوئی کتابیں ہیں۔جن میں فقہیہ، احادیث مسائل پر مبنی کتابیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار صوفی شعرا کا کلام بھی اس کتب خانے میں محفوظ ہے۔ علاوہ ازیں حضرت بابا جی صاحب ؒ کی تصنیف کردہ دو ضخیم کتابیں “اسرار کبیری ” اور “ملفوظات نظامیہ” کے علاوہ معرفت بھرا کلام “جی صاحب دیاں سی حرفیاں” پھر حضرت میاں نظام الدین لاروی رح کے شعری مجموعہ “اشعار نظامی” کے علاوہ دربار سے منسلک شعرا کا کلام یکجا کرکے “نیر سمندر” کی پانچ جلدیں زیور طباعت سے آراستہ کروائی ہیں،۔
آپ ؒکی فیاضی کا تذکرہ منجھے ہوئے سکالر، صاحب طرز ادیب، اور کنہ مشق شاعر ڈاکٹر صابر آفاقی یوں قلمبند کرتے ہیں ۔

15اگست کی صبح ہوئی تو ناشتہ سے پہلے آمین قمر، مخلص و جدانی اور میں نے مزاراتِ پر جاکر دعائیں مانگیں۔ حضرت بابا جی صاحبؒ اور حضرت میاں نظام الدین نقشبندی مجددی سلسلے سے منسلک اور باشرع ولی تھے۔ مزار پر نہ نیلے پیلے کپڑوں کی جھنڈیاں نظر آئیں نہ ملنگ نہ بھنگ پوش نہ کوئی مجذوب نہ نیم برہنہ درویش، نہ مجاور نہ گداگر، نہ نحرے لگانے والے فقیرانہ جالیاں پکڑ پکڑ کر اولاد مانگنے والیاں نہ کوئی جعلی بہشتی دروازہ۔ان خوبیوں کے باعث بابانگری کا یہ دربار تمام کشمیر اور پنجاب میں آپ کو منفرد نظر آئے گا۔ناشتہ کرنے کے بعد میاں الطاف نے حضرت میاں صاحب کی طرف سے بھورے رنگ کی ایک قیمتی ڈبل شال مجھے عنایت کی اور ایک مخلص کو ایک ایک دتھی نوٹوں کی جسے بعد میں گننے میں کافی دیر لگی۔میں اس قدر دانی پر جہاں مسرور تھا وہاں اس فیاضی پر حیران و متحیر بھی کہ یہ کیسے پیر ہیں جو مریدوں کو نذرانہ پیش کرتے ہیں اور یہ کس طرح کی خانقاہ ہے جہاں مسافروں کو شالیں عطا کی جاتی ہیں۔ اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ آج کشمیر میں میاں بشیر احمد نقشبندی مجددی سے بڑھکر کوئی فیاض نہیں ہے .

یہ درویش خدا مست نہ مال کا طالب نہ منصب و جاہ کا ۔وہ وزیر رہا تو بے منت۔ سیاست اور قانون ساز اسمبلی کا ممبر بنا تو بے حیلہ و تزویر۔ یہ مناصب میاں صاحب سے منسوب ہوکر معرز و محترم ہوئے۔ اب بھارتی حکومت نے سال 2008 میں میاں بشیر صاحب کو ملک کے بڑے اعزاز پدم بھوشن سے نوازا۔مبارک باد ہم دعاں سے فارغ ہوکر دربار کی نئی مسجد میں گئے اور پرانی مسجد بھی دیکھی جس کے اوپر نئی چھت ڈال دی گئی ہے۔ اب گاڑیاں تیار تھیں اور میاں صاحب کی خدمت میں حاضری دی۔ آپ نے مجھے گلے لگایا پھر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہے۔ ہم دونوں کی آنکھیں آبدیدہ ہوکر رہ گئی۔میں دعا لیکر رخصت ہوا۔
گوجری کے ایک اور ہجر و وصال کی آگ میں سلگتے ہوئے سخن شناس را نا فضل حسین اپنے ایک منظوم خط میں رقمطراز ہیں ۔
“وانگت بابانگری ہم نا تھا ری انت پیاری
پنگری بیل کرامت سوہنی ہوگئی سدا بہاری
ٹنچ مریدہیں چار نسل تیں سچا حضرا تاں کا
چارے کونٹ چرچا سوہنا اُچاحضرا تاں کا
فضل تعلق ان سنگ رکھے تاں فرفضل کہوا وے
جس نے چاہیو اس نے پاہیو کھڑی شریف تیں آوے
فضل نظام قطب کو پیارو مان بنے تاں مھارو
مصر درہال ہے بابا جی کو جانے عالم سارو
مصر پروڑی گجراں ہویو پیر بشیر ہوراں کو
ویہ ہیں ہمارا سر کا صاحب ہم نا مان اُنھاں کو
ان کے صدقے پانی رڑکاں مکھن چڑھ آوے رے
شیاًاللہ یا بابا جی وانگت پڑھ آوے رے