جنت کی کُنجی کہانی

ہلال بخاری

جب میں چھوٹا تھا اور میں نے پہلی بار روزہ رکھنے کی ٹھان لی تو اس دن اباجان نے کہا،
” بیٹا کسی کو دن بھر کے روزے سے پیاس اور بھوک کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کسی کا ایک روزہ اس کی جنت کی کنجی بن سکتا ہے۔ روزے کا اصل مقصد ہم کو صابر بنانا ہے اور جو صابر بنا اس نے فلاح پالی۔”
یہ سن کر میں سکول کی طرف چل پڑا۔ پہلا دن تھا بھوک اور پیاس نے بہت ستایا مگر میں اباجان کی نصیحت کو یاد کرکے صبر کرتا رہا۔ بیچ بیچ میں مجھے اپنے صبر کرنے پر خود پر فخر بھی محسوس ہونے لگا۔ مجھے لگا کہ جنت کی کنجی اب مجھے ملنے ہی والی ہے۔
اس دن جب میں سکول سے واپس آرہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ مزدور سڑک پر کھڑی ایک بڑی ٹرک سے سیمنٹ کی بوریاں اپنے کندھے پر لاد کر ہانپتا ہوا چلا جارہا۔ اسکے سارے کپڑے سیمنٹ کی گرد سے آلودہ ہوئے تھے یہاں تک کہ اسکی دھاڑی پر بھی اس گرد کی پرت لگی تھی۔ مجھے اس بزرگ کی یہ حالت دیکھ کر اس پر بہت ترس آیا اور نہ جانے کیوں اس کے بارے میں جاننے کی بہت چاہت ہوئی۔ میں وہیں رک کر کچھ دیر اسکو دیکھنے لگا۔
جب وہ سیمنٹ کی بھوری کندھے پر لاد کر پھر ایک بار میرے قریب پہنچا تو میں نے پوچھا،
” روزے دار ہو چاچا ؟”
” بیٹا، فاقے سے ہوں باقی اللہ جانے” اس نے ہانپتے ہوئے جواب دیا۔ یہ کہتے ہوئے وہ چلتا رہا۔ میں دیر تک وہیں پر کھڑا اس بزرگ کو اس شدید گرمی میں مشقت کرتے ہوئے دیکھتا رہا۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ اصلی صابر تو یہ بزرگ ہے جو اتنی شدید گرمی کے باوجود بھوکا اور پیاسا رہ کر اس قدر محنت کررہا تھا مگر ابھی میں نے اسکا اصلی صبر دیکھا ہی کہاں تھا۔
کچھ دیر بعد جب اس نے کام ختم کیا تو وہ اس ٹرک کے اندر بیٹھے ہوئے ایک شخص کے پاس گیا۔ اس شخص نے نوٹوں کی ایک گھٹری سے نکال کر اسے ایک نوٹ تھما دیا۔
بزرگ نے ندامت سے لبریز لہجے میں کہا،
” مگر جناب ، میرا تو ایک ہزار بنتا ہے۔”
اس شخص نے غصے سے کہا،
” اس وقت اتنا ہی ہے باقی کل دوں گا۔”
یہ سن کر بزرگ نے پھر نرم لہجے میں کہا،
” مگر جناب اتنے سے میری ضرورتیں پوری نہیں ہونگی۔ میں کسی کا قرض دار بھی ہوں اور اپنے بیوی بچوں کی افطاری کا بھی بندوبست کرنا ہے۔ اللہ کے واسطے رحم فرمائیں۔”
یہ سن کر ٹرک میں بیٹھا وہ شخص غصے سے نیچے اترا اور بزرگ کا گریباں پکڑ کر بولا،
“کہا نا کل دوں گا۔ تجھے سمجھ نہیں آئی؟ میں روزے دار ہوں۔ میرے مغز نہ کھا۔ جا ئو یہاں سے۔”
اس کے ساتھ ہی اس نے اس بزرگ آدمی کو دھکا دے کر خود سے دور کیا۔ وہ بے بس اس کا منہ تکتا رہا۔ اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور پھر وہ لاچار ہوکر بازار کی طرف چل دیا۔
مجھے اس بزرگ انسان پر بہت ترس آیا مگر میں کیا کرسکتا تھا۔ نہ جانے کس عجیب کشش نے مجھے اس کا پیچھا کرنے پر مجبور کر دیا‌۔
اس شخص نے اپنے آنسو پونچھے اور پھر بازار میں افطاری کا سامان خریدنے لگا۔
اس سے پہلے کہ وہ یہ سامان لے کر گھر کی روانہ ہوجاتا ایک شخص نے اچانک آکر اسکا گریبان پکڑ لیا اور چلا کر کہنے لگا،
” پرسوں تو نے مجھ سے اُدھار لیا تھا۔ کہا تھا کل دوں گا۔ اب چوری چھپے اپنے عیش و عشرت کے سامان لئے جارہا ہے۔ میرا قرضہ کون ادا کرے گا، تیرا باپ؟”
بزرگ نے ندامت بھرے لہجے میں کہا،
” یہافطاری کا سامان میرے بیوی بچوں کے لئے ہے۔ وہ میری راہ تک رہے ہونگے۔ مجھے آج اتنے ہی پیسے ملے‌۔ کل ضرور آپکا قرض ادا کروں گا۔”
یہ سن کر وہ شخص اور غصے میں آیا اور اس نے اور زور سے اس بزرگ کا دامن پکڑ کر اور اسے شدت سے ہلا کر کہا،
” میں روزے دار ہوں۔ میرا دماغ نہ کھا۔ پہلے میرا قرضہ ادا کر پھر اپنی بیوی بچوں کی افطاری کے بارے میں سوچ۔ ”
” مجھ پر مہربانی کرو جناب” بزرگ نے گڑگڑاتے ہوئے عرض کیا لیکن اس شخص پر اسکا کچھ اثر نہ ہوا۔ اس نے زبر دستی اس کے ہاتھ سے وہ افطاری کا سامان چھین کے لے لیا اور غصے سے کہا،
” پہلے پیسے لا پھر یہ سامان ملے گا تم کو۔ جا دفع ہوجائو یہاں سے۔”
وہ بزرگ ناچار اور بے بس تھا، کچھ نہ کر سکا۔
وہ شخص چلا گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ بزرگ ایک کوچے میں جاکر چھپکے سے رونے لگا۔
مجھے اسکی حالت پر بہت ترس آیا۔ مگر میں اسکی کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن اس وقت میں چونکہ نو عمر تھا مجھے اس کی حالت کا اصلی اندازہ نہیں ہوسکتا تھا۔ آج جب میں خود ایک باپ ہوں مجھے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک باپ جب اپنے پیارے بچوں کی خواہشات کو بار بار پورا کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہے۔
میری ہمت نہ ہوئی کہ میں اس کے قریب جاکر اس کو دلاسا دیتا۔ میں سوچنے لگا کہ اللہ کے حضور میں اس بزرگ کے روزے کی کیا قیمت ہوگی۔
مجھے اباجان کی وہ بات یاد آئی،
“روزے کا اصل مقصد ہم کو صابر بنانا ہے اور جو صابر بنا اس نے فلاح پالی۔”
میں اس وقت اس بات پر حیران تھا کہ کیا اس بزرگ شخص کو جنت کی کنجی ملی ہوگی۔

���
ہردوشورہ کنزر ، ٹنگمرگ، بارہمولہ