تماشا افسانہ

رتن سنگھ کنول پہلگامی

اکثر دن ڈھلتے، شام کے سائے گرتے ہی ہم دن بھر کی تھکان کو دفع کرنے کی سوچ سے گھر سے نکل پڑتے ۔ چہل قدمی کرتے ہوئے ۔خراماں خراماں دور تک چلے جاتے۔ ہم دونوں آپس میں لنگوٹیا یار ہیں ،ایک دوسرے کے غم گسار ۔ لیکن زندگی کا نظریہ ہمارا اپنا اپنا ہے ۔اگر زندگی کے کسی پہلو کے حوالے سے وہ کوئی حقیقت بیان کرتا ہے تو مجھے آسانی سے ہضم نہیں ہوتی ۔ میرے باطن سےبھی کوئی سیاسی، سماجی، اقتصادی یا تاریخی روشنی میں کوئی نظریہ سر اٹھاتا تو وہ اپنے تجربے کی روشنی میں اُسے جڑ سے ہی خارج کر دیتا ۔ میں بھی اپنی کہی بات کو صحیح ٹھہرانے کے لئے کوئی کسر باقی نہ چھوڑتا ۔ وہ چلتے چلتے رک جاتا اور میری طرف منہ کرکے پوری طاقت سے ، بند مٹھی ہوا میں لہراتے ہوئے، اپنی دلیل پیش کرتا ۔ جب میں خاموشی اختیار کر لیتا پھر وہ آگے بڑھتا۔ میں بھی ، یوں ہی، کبھی کبھی سوچنے لگ جاتا کہ اصل میں ہم دونوں اندھے ہیں ۔دونوں نے ایک ہاتھی کو چھو کر دیکھا ہے۔
جو میں نے دیکھا ہے وہ اُس نے نہیں دیکھا۔ دیکھا نہیں، محسوس کیا ! میں نے اگر ہاتھی کےکان کو ٹٹول کر دیکھا اورکہا، ‘ ہاتھی کان جیسا ہے اور میرے دوست نے اگر سونڈ پر اطمینان سے ہاتھ پھیر ا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ‘ہا تھی سُونڈ جیسا ہے ! ‘ ہم دونوں اپنی اپنی جگہ پر سہی بھی ہیں اور غلط بھی ۔ ہاتھی کے بارے میں پوری جانکاری دونوں کو نہیں! لیکن ‘ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔
اُس دن بھی ہم حسبِ معمول گفتگو کرتے ہوئے چل رہے تھے۔میرے دوست نے گذشتہ ذمانے کے ایک بادشاہ کی کہانی سُنائی ۔ بادشاہ اپنا رخت بدل کر اپنی رعایا کی خبر لینے کے لئے اکیلے ہی نکل پڑے۔
راستے میں اُسے ایک آدمی مِلا جو ایک بہت بڑی ہاتھ سے لکھی ہوئی، مُقدس کتاب ایک ٹھیلے میں رکھ کر کسی دوسرے شہر میں لے جا رہا تھا ۔بادشاہ نے پوچھا’’اے بُزرگ! یہ کیا ہے، اسے کہاں لے جا رہے ہو ‘‘۔ ‘ جواب میں بُزرگ نے کہا،’’جناب یہ مقدس کتاب ہے ، اسکو لکھنے میں بہت عرصہ لگا۔گھر میں ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لئے مقدس کتاب فروخت کرنا چاہتاہوں لیکن کوئی خریدار نہیں مل رہا۔ اب اس کو کسی دوسرے ملک میں لے جاکر بیچ دوں گا ،جہاں اس کے قدردان ہوں اور اس کو اچھے دام میں خرید لیں۔‘‘ بادشاہ یہ سن کر بہت شرمندہ ہوا ، اُس نے مُقدس کتاب کی قیمت پوچھی ۔ بزرگ نے قیمت بتا دی۔ بادشاہ نے اصل قیمت سے بھی کچھ زیادہ ہی دے دی اور مقدس کتاب کو اپنے محل میں بجوا دیا ۔ میں اندر ہی اندر شخصی راج کے ایسے بادشاہ کا توازن آجکل کی جمہوری سرکار کے اہلکاروں سےکر نے لگا۔ میں ابھی خاموش ہی تھاکی میرا دوست پھر گویا ہوا ۔
اور دوسرا قصہ ایک بچے کے حوالے سے سُنایا ۔
بچہ ایک ثمردار پیڑ کو پتھر مار رہا تھا ۔پتھر پیدل چل رہے بادشاہ کی پیشانی پہ لگا اور بادشاہ زخمی ہو گیا ۔ سپاہیوں نے بچے کو پکڑ لیا اور اس کو سزا دینے لگے۔
بادشاہ نے سپاہیوں کو روک دیا اور بچے کو بادشاہ کے پاس پیش کرنے کا حکم دیا۔ جلد ہی پھر بچے کو بادشاہ کے پاس پیش کیا گیا ۔ بادشاہ نے پوچھا ‘۔۔۔ آپنے پتھر کیوں مارا، ? ‘ بچے نے ڈرتے ہوئےجواب دیا۔۔۔۔۔ ‘ میں نے پھل اُتارنے کے لئے پتھر مارا تھا ۔۔۔ بھوک لگی تھی۔ ‘ بادشاہ نے پھر کہا ‘ پتھر مارنے سے پیڑ تجھے پھل دیتا ہے ، اب کی بار پتھر میری پیشانی پہ لگا، میں تجھے کیا دوں ? ۔ بچہ ابھی بھی ڈرا سہما ہوا تھا اورسزا کی سماعت کا منتظر تھا،کچھ نہ بولا ۔ پھرکچھ دیر کے بعد بادشاہ خود گویاہوا۔۔۔۔ پھل تو دے نہیں سکتا، کچھ اشرفیاں دے دوں گا ! ۔۔۔کام آئیں گی۔۔۔کچھ کھا بھی لینا ۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔۔
سائرن بج گیا ۔۔۔ بہت ساری پولیس اور پیرا ملٹری فورسز نمودار ہو گئیں۔ دو تین کلومیٹر تک گھیراؤ کر دیا گیا۔ ٹریفک کی نقل و حرکت بھی بند ہو گئی۔ میوہ فروشوں، سبزی فروشوں اور چھابڑی والوں کو بھگا دیا گیا۔
جلدی میں کوئی کوئی ہی اپنی ریڑی کو ڈھک سکا ،باقی کھلی چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔ کسی بیمار یا زخمی کو ہسپتال لے جا رہی گاڑی کو بھی آگے نہ بڑھنے دیا، دور تک زندگی نے سانس لینی چھوڑ دی ۔۔۔پرندو چرند بھی اس اچانک تبدیلی کو دیکھ کر سہم گئے اور کہیں دور جا کھڑے ہوئے۔
میں اور میرا دوست بیچ راستے رُکے رہ گئے ۔ ہماری گفتگو منقطع ہو گئی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا یہ سب کیا ہو گیا ؟۔ اب آگے چلیں یا پیچھے مُڑیں ؟ ۔۔۔آخر سپاہیوں نے ہی ڈنڈے دکھا کر پیچھے مُڑنے کو مجبور کر دیا ۔ کچھ لوگ، جو زیادہ تر ریڑی والے ہی تھے ،ہمارے پیچھے پیچھے بھاگتے ہوئے کہہ رہے تھے ۔ ‘۔۔۔۔ آج پھر کوئی منسٹر اس بڑے ہوٹل میں پارٹی اٹینڈ کرنے کے لئے آ رہا ہے ۔۔۔ یہی وقت چار پیسے کمانے کا تھا۔۔ ۔دن بھر تو کچھ کمایا ہی نہیں۔۔۔ اور یہ روز کا معمول ۔ ۔۔۔ہماری امیدوں اور روزی روٹی پہ ٗڈاکہ !
مجھے اب بھی بچہ اور بادشاہ چوراہے کےبیچ میں کھڑے بھاگتی ہوئی بھیڑ کا تماشا دیکھتے ہوئے نظر آ رہے تھے ۔
���
پہلگام، کشمیر
موبائل نمبر؛7006803106