” باتیں ہیں باتوں کا کیا “(آخری قسط)

روبینہ میر
ہاًں تو بات ہو رہی ہے اُس مقدس رشتے کی جس کے قدموں میں جنت ہے، جس کے دیدار میں برف جیسی ٹھنڈک ہے، جس کی ممتا میں شہد جیسی میٹھاس ہے ، جس کے سینے میں دھرتی جیسی قوتِ برداشت ہے ،و منبع ہے صبر کا، ایثارو محبت کا اوربے لوث قُربانی کا۔
ماں کے مقام و مرتبہ کو جانتے
اپنی ماں سے بے پناہ محبت کرنے والا ماں سے بچھڑنے پر ہر ماں کے چہرے میں اپنی ماں کو تلاش کرنے والا بالآآخر اپنی حقیقی ماں سے جا ملا۔ اللہ پاک اپنے حبیب ﷺ کے صدقے مرحوم کو اپنی ماں کا دیدار نصیب کرے اور مرحومین کو کروٹ کروٹ جنت عطا کرے۔آمین۔
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ انسان ایک دوکان ہے اور اس کی زہاں ایک تالا ،تالا کھلنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ دوکان سونے کی ہے یا کوئلے کی۔
ہاں تو بات کرتے ہیں پھر اُسی خوش گفتار ،خوش مزاج و خوش اخلاق ،روشن خیال و روشن ضمیر اور تہذیب و شائستگی کے پیکر نذیر جوہر کی، جس کا نام ادبی دُنیا میں ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ لیا جائے گا۔ یہ عزت و احترام موصوف کی اپنی کمائی ہے جو وہ تا دیر وصول کرتے رہیں گے۔ یہ خلوص و محبت وہ ہے جو موصوف اپنے حلقہءاحباب اور عزیز و اقارب میں بانٹتے رہے۔انسان جس چیز کا بیج بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ ہم بحیثیتِ انسان کسی سے یکطرفہ ہمدری کر سکتے ہیں، کسی پہ یکطرفہ احسان کر سکتے ہیں مگر کسی کو یکطرفہ عزت نہیں دے سکتےجب تک کہ سامنے والا بھی ہمیں عزت نہ دے کیونکہ عزت بہت مہنگی چیز ہے،جو ہر کوئی کسی کو نہیں دے سکتا عزت وہ انمول شے ہے جسے نہ کوئی خرید سکتا ہے اور نہ کوئی بیچ سکتا ہے۔
جوہر صاحب کے جوہر پاروں میں خوبصورت لفظوں سے سجی باتوں کی ایک دُنیا آباد ہے۔موصوف نے باتوں ہی باتوں میں زندگی کے جن تلخ و شیریں تجربات کو خوبصورتی کے ساتھ دُنیا کے سامنے لایا ہے، مجھے اُمید ہے یہ تلخ و شیرین تجربات و مشاہدات ادب کی تدوین میں کار گر ثابت ہونگے۔ نہایت سادہ اور پُر اثر طرزِ تحریر ہی ان کی پیچان تھی۔ موصوف نے چھوٹے چھوٹے جُملوں میں با معنی باتیں بیان کر کے معاشرے کے اندر در آئی کج رویوں کو درست کرنے کی جانب انگشت نمائی کی ہے۔
کتاب ” باتیں ہیں باتوں کا کیا ” دراصل رنگا رنگ پھولوں کی کیاریوں پر مشتمل ایک باغیچہ ہے،جس میں مصنف نے اپنے ذہن پر منقش کئی رنگوں کی تصویریں اُبھاری ہیں ۔خوبصورت رنگا رنگ پھولوں سے سجے اس باغیچے میں ہم جب بھی گشت لگائیں گے موصوف کو اپنے روبرو پائیں گے۔ جوہر صاحب بھلے ہی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہوں، اُن کی وہ باتیں جو انھوں نےناولوں ، افسانوں ،غزلوں اور نظموں کے ذریعے سے ہمیں سوغات میں عطا کی ہیں، وہ باتیں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ ان باتوں کی بدولت وہ ہمیشہ ہمارے بیچ زندہ رہیں گے۔ بقول شاعر
آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے
آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے
موصوف نے اس کتاب کے ہر باب میں بچپن کی یادوں سے جُڑے کئی چھوٹے بڑے واقعات کو جوڑ کر کہانی کی شکل دے کر ہر واقعے میں کوئی نہ کوئی کلیدی کردار موجود رکھ کر جو دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے،وہ حد درجہ کامیاب ہے۔موصوف اپنے ذخیرہ ء الفاظ کو نہایت ترتیب سے استعمال میں لاکر عبارت میں خاص آہنگ پیدا کرنے کا ہُنر رکھتے تھے۔ان کی زیادہ تر تحریروں کی بنیاد حقیقت پسندی پر مبنی ہے۔موصوف فکر کا دائیرہ وسیع رکھنے کے باوجود مُشکل سے مُشکل مُضمون کو بھی سیدھی سادی زبان میں بیان کرنے کی مہارت رکھتے تھے۔
میں نے چند سالوں کی آشنائی کے دوران موصوف کو جتنا جانا، سمجھا اور پرکھا، یہی پایا کہ موصوف ایسی باغ و بہار شخصیت تھے،جن کے گُل بُوٹوں سے ادبَستان ہمیشہ مہکتا رہے گا۔
موصوف شخصی طور پر اعلیٰ اخلاق کا مجسمہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے شمار صِفات کے مالک تھے۔ بد قسمتی کی بات یہ ہےکہ پچھلے کئی سالوں سے میرا سال میں کئی بار سرینگر آنا جانا ہوتا رہامگر موصوف سے کبھی بھی روبرو ملاقات نہیں ہوئی۔ ملاقات ہوتی تو ممُکن تھا کہ اُن کی شخصیت کے دیگر پہلوؤں پر بھی تفصیلی روشنی ڈال سکتی۔ موصوف میرے بِن بتائے آنے جانے کے بارے میں اکثر مزاقیہ طور فرماتے ۔محترمہ ” آپ عزرائیل کی طرح بِن بتائے آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔” یا پھر یوں فرماتے ” محترمہ کشمیر کی بجلی کے آنے اور جانے کے بارے میں اور آپ کے آنے جانے کے بارے میں اللہ کے سوا کسی کو خبر نہیں ہو سکتی۔ ” ہنسنا ہنسانا اُن کی فطرت میں شامل تھا۔آج کے اس پُر آشوب دور میں جہاں ہر کوئی کسی نہ کسی پریشانی میں مُبتلا ہے،جہاں ہر کوئی طرح طرح کے مصائب و مُشکلات سے دوچار ہے، ایسے میں کسی درد مند کے چہرے پر مُسکراہٹ لانا بھی عبادت ہے۔ وہ اکثر اپنے ہم عصر ساتھیوں کے ساتھ شوخی اور ظرافت سے باتیں کرتے تھے۔ یہ جھلک اُن کی تحریروں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ موصوف بظاہر اگر چہ بہت ہی خوش طبع طبعیت کے مالک تھے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ کسی دُکھ یا پریشانی کے بغیر جی رہے ہوتے یا انھوں نے زندگی میں کسی محرومی کا سامنا نہ کیا ہو گا ۔ ہو سکتا ہے انھوں نے اللہ کی رضا میں راضی رہنا سیکھ لیا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہےکہ رنج سے خوگر ہو کر اللہ کی جانب سے عطا کردہ نعمتوں کو مصائب و آلام کے مقابلے بہتر جانتے ہوئے اللہ کی شُکر گزاری کو ترجیح دی ہو۔
اس بات کی تصدیق موصوف کے اُس پوسٹ سے ہوتی ہے جو اُنھوں نے9مارچ 2022 کو فیس بُک شیئر کی ہے۔ میں یہاں اُنہی کے الفاظ کوٹ (Quote)کرنا چاہوں گی۔ وہ لکھتے ہیں
“9مارچ میرا جنم دن ہے۔ اور میں فی الوقت دہلی میں قائم ایشیا کے ایک بڑے اسپتال ” انسٹی چیوٹ آف لیور اینڈ بلیری میڈیکل سائنسز دہلی ” میں داخل دیگر مریضوں کے ساتھ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہوں۔زندگی اور موت میرے دائیں بائیں کھڑی ہے اور میں اللہ کے فضل وکرم سے اس کھیل کو کتنا آسان لے رہا ہوں،یہ حوصلہ میرے رب کا بخشا ہوا ہے۔ یہی میری زندگی کے اب تک کے سفر اور فلسفے کا ماحصل ہے۔‘‘
موصوف اس بات کا اعتراف کرتے یوں رقمطراز ہیں۔ ” میں نے ہمیشہ زندگی اور موت کو اپنے دائیں بائیں بڑے قریب سے محسوس کیا ہے اور زندگی کی خوشیوں اور صعوبتوں کو بڑی خندہ پیشانی سے منایا اور برداشت کیا ہے۔‘‘ موصوف ملنسار ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ خود دار انسان تھے۔ آگے چل کر اپنی خودداری کی طرف اشارہ کرتے یوں لکھتے ہیں۔ ” میں جانتا ہوں کہ میرے عزیزو اقارب اور رُفقاء اس وقت میرے لئے کافی پریشان ہیں اور میری صحت کے لئے دستِ بدعا ہیں۔ مجھے آپ کی دعائیں ضرور چاہئیں جبکہ رحم اور ہمدردی کے الفاظ کی بیساکھیوں سے میں ہمیشہ مُتنفر اور مُتصادم نظر آیا ہوں ۔”
یہ دُنیا تو آزمائش کا گھر ہے۔یہاں ہر کسی کو طرح طرح کی آزمائشوں و امتحانات سے گُزرنا پڑتا ہے، جہاں اُس کے صبرو شُکر کا امتحان ہوتا ہےاور موصوف کے خلوص میں ریا کاری نہیں تھی۔میٹھے بول، دھیما لہجہ اور ہمدردانہ رویہ ان کا اصل جوہر تھا۔
بے تکلفی کی گفتگو میں بھی اُن کی زبان سے کبھی بھی کوئی لفظ ایسا سُننے کو نہیں ملا جو کسی کی دل آزاری کا باعث بنتا۔موصوف اعلیٰ قدروں کے پاسدار تھے اور نام و نمود ان کے ہاں چُھو کر نہیں گیا تھا۔ آج کے اس پُر فریب دور میں جہاں ہر کوئی اپنے سے کامیاب شخص سے حسد کرتا ہےاور اُس کی کامیابی کا زوال چاہتا ہےموصوف کی شخصیت اس عیب سے بھی پاک تھی۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء آیت 164 میں ارشاد فرمایا،
جس کا ترجمہ یوں ہے۔
’’بہت سے رسول ایسے ہیں جن کے واقعات ہم نے آپ کو نہیں سُنائے۔لہٰذا اپنے تذکرے اور نام کی پرواہ کئے بغیر کام کئے جائیں۔اللہ سُبحان وتعالیٰ قدردان ہے وہ آپ کے کام اور محنت کو دیکھ رہا ہے۔‘‘
موصوف کو بھی اپنے کام کے عوض شہرت و ناموری کا کوئی شوق نہیں تھا۔وہ اکثر فرماتے تھےکہ میں ہمیشہ کیمرے کے پیچھے رہ کر کام کرنا پسند کرتا ہوں۔ اپنے فن پر ماہرانہ قدرت حاصل ہونے کے باوجود موصوف تکبر اور ریا کاری سے بہت دور تھے۔ آج اُن کے دولت کدے پر جاتے ہوئے اس احساس نے کئی بار میری آنکھیں نم کیںکہ آج یہاں مجھے جاننے والا کوئی نہیں ۔۔۔۔۔۔مجھے۔پہچاننےوالاکوئی نہیں۔۔۔۔۔میرا قدردان کوئی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چاہتی تھی کہ جوہر صاحب کی تمام فیملی سے ملوں اور یہ جان پاؤں کے ان کے افرادِ خانہ میں کس میں انکا عکس ہے، اُن کے اوصاف ہیںلیکن ایسا ہو نہیں پایاکیونکہ اُن کی تمام فیملی کپواڑہ لولاب میں تھی،صرف اُن کے بڑے صاحبزادے قیصر جمشید لون صاحب ہی سرینگر والی قیام گاہ پہ موجود تھے۔ انہی سے تَعزیِت کی۔جوہر صاحب کی بیماری کے متعلق تفصیلاً حال جانا، کیونکہ مجھے اب تک یقین نہیں ہو پا رہا تھا کہ اتنا خوش باش،خوش طبع حوصلے اور ہمت والا شخص جو دوسروں کو جینے کا حوصلہ دیتا تھا،جو دوسروں کے جینے کی وجہ بننے کا ہُنر رکھتا تھا،جو زندگی کو اپنی شرطوں پر جینے کے اصول سکھاتا تھا ،جو ہر پل پھولوں کی طرح مُسکراہٹ بکھیرتا،ہنستا ،ہنساتا اور ہر حال میں جینے کا راستہ نکالنے والا شخص ایسے کیسے مر سکتا ہے۔
ادبی دُنیا میں قدم رکھنے کے بعد مجھے اپنے آباء واجداد کی پہچان کی بدولت کئی سیاسی ،سماجی ،نامور علمی و ادبی شخصیات سے ملنے کا اتفاق ہوا۔لیکن جوہر صاحب جیسا شگفتہ مزاج اور خوش طبع انسان کسی کو نہیں پایا۔ خاص کر اُن میں جو عجزو انکساری اور خاکساری جیسی صِفات تھیں وہ آج کے دور میں خال خال ہی کسی میں ملتی ہیں۔موصوف بہت ہی رقیق القلب انسان تھے۔دوسروں کا دُکھ درد دیکھ کر بے چین ہو جاتے تھے۔اس قدر عظیم ہونے پر بھی وہ چھوٹے بڑے سب سے یکساں ملتے۔ خلوص سے بات کرتے۔ بقول شاعر
کسی کو ہو نہ سکا اس کے قد کا اندازہ
وہ آسماں تھا مگر سر جُھکائے چلتا تھا
موصوف اپنے ادبی حلقہ ءاحباب میں سب سے یکساں خلوص اور محبت سے پیش آتے تھے۔شوخی اور ظرافت ان کا خاص وصف تھا۔ ان کے بول چال کی سادہ زبان میں بھی پُر خلوص جذبات کا اظہار ملتا ہے۔ اُن کے حُسنِ اخلاق کا کوئی جواب نہیں تھا۔ موصوف میں غُصہ اور مخالفت سہنے کا بھی عجیب مادہ تھا۔ ضبط اور اعتدال اُن کے دو ایسے اوصاف تھے۔ جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتے۔
موصوف نے یہ کتاب ترتیب دیتے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ میں اس کتاب پہ کچھ لکھوںمگر افسوس کہ میں اُن کی زندگی میں ان کی یہ خواہش پوری نہ کر سکی، جس کا انھیں ملال تھا اور مجھے یہ افسوس تا عُمر رہے گا ۔ کسے معلوم تھا کہ وہ ہم سے بچھڑنے والے ہیں۔ میرا ماننا ہے ادبی ساتھیوں کو جب جب موصوف یاد آئیں گے تو احمد فراز صاحب کا یہ شعر بے ساختہ زبان پر آجائے گا ۔؎
ہوا ہے تُجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا تیرے ساتھ ایک دُنیا تھی
���
راجوری، جموں کشمیر