آخرش یہ زندگی ہے کیا ؟ مقالہ

فرقانہ علیم
امی جان کے بقول،’’ جب میں صرف چند ماہ کی تھی،اس وقت وہ کسی وجہ سے دہلی میں پھوپھی جان کے یہاں مقیم تھیں ۔ایک دن اچانک میں دوسری یا تیسری منزل سے گرتے گرتے بچی ،دراصل اللہ جل شانہ کو مجھے بچانا مقصود تھا،شاید اُسےایک ماں کی مامتا پر رحم آگیا ہوگا جو چند سال پہلے ہی اپنی ایک پیاری لخت جگر سے محروم ہوگئی تھی۔ پھوپھی جان کا غیر مسلم ملازم، جسے اللہ نے مجھے بچانے کا ذریعہ بنایا اور مجھے نئی زندگی بخشی۔جب زندگی سے بیزار ہو جاتی ہوں تو ذہن کے دریچے میں یہ خیال پیداہوتاہے کہ کاش اُسی دن زندگی ختم ہوجاتی تو آج عفیفہ کے ہمراہ فریحہ بھی جنت کے حسین باغوں میں کھیل رہی ہوتی اور والدین کو جنت میں لے جانے کا ذریعہ بنتی ۔لیکن مشیت ایزدی کے آگے انسان کی تمام خواہشات ہیچ ہیں۔ کبھی کبھی زندگی کی مسافت طے کرتے کرتے زندگی بہت بےمقصد سی لگنے لگتی ہے اور پھر زندگی کو ہر زاویے سے سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں اور کائنات میں پھیلی ہوئی تمام اشیاء سے پوچھتی ہوں آخرش یہ زندگی ہے کیا ؟
رنگ برنگ ،حسین وپُركشش پھولوں نے کہا،اپنے حسن و خوش رنگی ،جمال ورعنائی اورجاذبیت ودلکشی سے اور اپنی مشک ریزوعطربیز خوشبو سے ہر کسی کی فرحت وشادمانی اورسرورو انبساط میں چار چاند لگانا زندگی ہے۔ شبنم نے کہا،اپنی صاف و شفاف، حیات افروز ٹھنڈی بوندوں سے چمن کو وضو کرانا زندگی ہے ۔شوخ وسیاحت پسند تتلیوں نے کہا،باغوں کی سیاحت اور پھولوں سے لطف اندوزی ہی زندگی ہے ۔لہلہاتے ہوئے درخت نے کہا،اپنے میٹھے پھل سے شکم سیرکرنااور سکون بخش سایے سے تھکے ہوئے مسافر کو راحت پہنچانا زندگی ہے ۔فلک بوس پہاڑوں نے کہا،اپنے خیالات و افکار بلند رکھنا اور ہر حال میں ثابت قدم رہنا زندگی ہے۔ پہاڑوں سے نیچے گرتے خوش منظرآبشاروں نے کہا،دیکھنے والوں کو مسحور کرنا زندگی ہے۔ سمندر کی تلاطم خیز موجوں نے کہا،ساحل کی آغوش میں آجانا زندگی ہے ۔روشن سورج نے کہا،نویدِصبح سنانااورہرایک کوروشنی فراہم کرنا زندگی ہے ۔ خندہ ریزچاند نے کہا،تاریک راتوں پر چھاجانا اور اندھیروں کا پردہ چاک کرنا زندگی ہے۔ درخشاں تاروں نے کہا،اداس ہے راتوں کو سجانا اور تاریکیوں میں جگمگانا زندگی ہے ۔ حسین قوس قزح نے کہا،اپنے رنگین حسن کے جادو میں سارے جہاں کو جکڑ لینا زندگی ہے ۔ نغمہ سراپرندوں نے کہا،آزاد فضاؤں میں پرواز کرنا اور چہچہانا زندگی ہے ۔
جب میں اس کائنات سے نکل کر انسانوں کے ہجوم میں آئی تو والدین نے کہا،اللہ کے رضا میں راضی رہنا اور تمام مشکلات و مصائب کا مقابلہ ، زمانے کی گردشوں کو برداشت کرکے اپنی اولاد کو خوش اور کامیاب دیکھنا زندگی ہے ۔ امیروں نے کہا،عیش و عشرت اور مال و دولت ہی زندگی ہے ۔غریبوں، مسکینوں اور یتیموں نے کہا،حسرت و یاس، رنج و الم ، بےبسی و بےکسی کا نام زندگی ہے ۔بزرگوں اور قوم کے خیرخواہوں نے کہا،انسانیت کی خدمت ہی زندگی ہے۔مبلغ نے کہا،دعوت دین و اشاعت دین کے لیے خود کو وقف کردینا ہی زندگی ہے۔طبیبوں اور ڈاکٹروں نے کہا،صحت و تندرستی اور کسی کے درد کا مداوا کرنا ہی زندگی ہے۔ سائنسدانوں نے کہا،نت نئے ایجادات اور ترقی کے تمام منازل عبور کرنا ہی زندگی ہے۔ سیاست دانوں نے کہا،عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر اپنی روٹی سینکنے کا نام زندگی ہے ۔اہل قلم نے کہا،اپنے احساسات و جذبات کو الفاظ کے مالا میں پرو کر اوراق میں سجا دینا ہی زندگی ہے۔ اساتذہ نے کہا،تعمیر انسانیت اور علمی ارتقاء کے لیے خود کو فنا کرنا اور قوم کے نونہالوں کی صلاحیت کو نکھار کر نئی شناخت عطاء کرنا ہی زندگی ہے ۔طالب علموں نے کہا،علمی تشنگی بجھانے کے لیے سرگرداں رہنا زندگی ہے ۔ بچوں نے کہا،ہر فکر سے آزاد اپنے آپ میں مگن رہنا زندگی ہے ۔سیاحوں نے کہا،زندگی بہت حسین ہے، شاعروں کی نظر میں زندگی زندہ دلی کا نام ہے ۔
جب میں نے کائنات کے مختلف اشیاء اور انسانوں کے نظریہ حیات کو جان لیا، لیکن لفظ ’’زندگی‘‘ کا مفہوم سمجھ میں نہ آیا تو زندگی کو مزید جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ۔ ایک ایسی مقدس کتاب جو ہر چیز کی وضاحت کرتی ہے اور ہماری رہنمائی کرتی ہے ۔ جی ہاں زندگی کا اصل معنی اسی مقدس کتاب سے سمجھ میں آیا ۔
موت و حیات کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے قرآن واضح کرتا ہے :وہ (ذات) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے بہتر عمل کون کرتا ہے اور وہی عزت والا بخشنے والا ہے (سورہ ملک)
قرآن کریم میں زندگی جہد مسلسل سے تعبیر ہے۔ زندگی ایک امتحان ہے، لیکن یہ امتحان بالکل مختلف ہے ، یہاں ایک پیٹرن پر سب کا امتحان نہیں ہو رہا ہے۔ بےشمار امتحانی طریقے ہیں۔ کسی کو اس کی ذہانت و فطانت سے آزمایا جارہاہے اور کسی کو اس کی بے شعوری اور کم عقلی سے۔ کوئی دولت کی ریل پیل کا پرچہ دے رہا ہے تو کوئی فقر و افلاس کے سوالات حل کر رہا ہے۔ کوئی صحت اور فرصت کے بارے میں جواب دے رہا ہے، تو کوئی عوارض و امراض کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ کوئی شہرت کی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور کوئی گمنامی کی پستیوں میں دفن ہے۔ یہ سب امتحانات ہیں، عجیب و غریب، بے مثال و بے نظیر۔
[email protected]>
_ ’’ کھلونا‘‘۔ ایک انتخاب
تجزیہ