اونچی منزل پانے کےلئےدشوار راستے طےکرنا ضروری ندیم احمد میر

Champions team

انسان کی زندگی ایک کشمکش کا نام ہے اور یہ کشمکش قانونِ قدرت میں سے ہے،جس سے کوئی بھی زندہ ذات دست بردار نہیں ہو سکتی۔یہ کشمکش کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔منزل سے ہمکنار ہونے کے لئے ایک راستہ ضرور اپنانا پڑتا ہے۔لہٰذا منزل،راستہ اور کشمکش میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انسان جب کسی مقصد کے حصول کے لئے محوِ جدوجہد ہو جاتا ہے تو پھر اس کے لئے وہ حد درجہ حساس ہوتا ہے۔جب اسے اپنی منزل قریب دیکھنے کو ملتی ہے تو پھر اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا ہی نہیں رہتا۔آدمی کا مقصد اس کے سامنے ہو تو اس کے جذبات اور احساسات عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وہ انتھک محنت کرتا ہے اگرچہ یہ لوگوں پر بارِگراں ہو لیکن وہ اسے اپنی زندگی کا حاصل سمجھتا ہے۔جو عمل عام نظر میں بے لذت اور خشک محض ہو وہ اسے اپنا محبوب مشغلہ قرار پاتا ہے۔آدمی کو اگر اپنی منزل نگاہوں کے سامنے ہو تو اسے پانے کے لئے وہ امکانی حد تک ہر کوشش کر بیٹھتا ہے۔منزل جتنی عظیم و ارفع ہو راستہ بھی اتنا ہی دشوار ہوتا ہے۔حق کا راستہ گھاٹیوں اور کانٹوں سے بھری ہوتی ہے،اس کے اطراف و جوانب میں مرغوبات و لذائذ بکھرے پڑے ہوتے ہیں اور جس پر چلنے والوں کو بہکانے والی ہزارہا صدائیں مسلسل اٹھتی رہتی ہیں۔مستقل طور پر اپنے آپ کو اس راہ پر لگا دینے کے لئے کسی قسم کی خارجی شرائط درکار نہیں ہیں،بلکہ شیر کا دل درکار ہے۔اس چیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے مردِ حق اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانیوں کا نذرانہ پیش کرتا ہے اور سخت سے سخت حالات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے۔
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جن لوگوں نے دل کی سچائی کے ساتھ کسی مقصد کو اپنایا تھا،انھوں نے کسی چیز کو بھی اپنے مقصد کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔مقصد سے والہانہ عشق نے انہیں بے چین کر دیا اور اس کے حصول میں انھوں نے جان جوکھوں میں ڈالا۔وہ اپنے چنے ہوئے راستے پر شک و تردد کے بجائے یقینِ محکم کے ساتھ چلتے رہے۔انہوں نے راستے کے مشکلات کے خلاف مردانہ وار کیا کیونکہ انہیں منزل تک پہنچنے کی تڑپ تھی اور اسی تڑپ نے بالاٰخر انہیں اپنی منزل سے ہمکنار کر دیا۔ان کی زندگیاں گواہ ہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو مقصد میں اس حد تک گُم کر دیا تھا کہ آج ہم انہیں ان کے مقصد سے ہی پہچانتے ہیں۔
ان کی مثالیں زندگی کے ہر میدان میں ملتی ہیں۔سیاحوں کے حالات کا مطالعہ کرکے عقل دنگ کے رہ جاتی ہے کہ وہ کس طرح دشوار گزار راستوں سے گزرے اور دنیا کو نئی معلومات فراہم کیں۔سائنسدانوں کی زندگیوں کو پڑھ کے انسان محوِ حیرت میں چلا جاتا ہے کہ کس طرح انھوں نے نئی ایجادات کی دُھن میں کھانا پینا اور رات کا آرام تک اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا۔انہیں اپنے مقصد سے اس قدر والہانہ عشق تھی کہ جس نے ان کے اندر’’بے نیازی ‘‘کی شان پیدا کردی تھی۔ایک مرتبہ آئن اسٹائن شاہی محل کے دروازے پر جا کھڑا ہوا۔ایک راک فیلر فاونڈیشن نے اس کو 1500 ڈالر کا چیک بھیجا۔اس چیک کو وہ کتاب کے اوراق کے درمیان یادداشت کے طور پر استعمال کرتا رہا۔ایڈیسن سائنس کی دنیا میں مختلف ایجادات کا مالک ہے،اس شخص کا حال یہ تھا کہ مسلسل 24 گھنٹے کام کرتا رہتا۔کام کے بغیر اسے چین ہی نہ آتا تھا۔اپنے کام سے بڑھی ہوئی دلچسپی نے بڑی حد تک اسے بستر سے بے نیاز کر دیا تھا۔نیند غالب ہوتی تو اپنی لیبارٹری میں پرانے اخبارات کا تکیہ بناکر چند منٹ کے لئے سو جاتا۔نیند پر قابو پاتے ہی پھر اپنے کام میں مصروف ہو جاتا۔اس کی زندگی کا دل چسپ واقعہ ہے کہ جب اس کی شادی کے موقع پر اس کی تاجپوشی کا وقت آیا تو لوگوں کو پتہ چلا کہ وہ اپنی لیبارٹری کو اندر سے مقفل کرکے ایک تجربے میں مصروف ہیں۔ان لوگوں نے واقعی طور پر اپنے کام میں غیر معمولی دلچسپی دکھا کر خود اپنے ہاتھوں ہی اپنی تاریخ رقم کر ڈالی۔
اپنے مقصد سے شیفتگی اور والہانہ تعلق کا اظہار سب سے زیادہ دین و اخلاق کی دنیا میں ہوا ہے۔جن لوگوں نے بھی سچے دل سے دین و اخلاق کو زندگی کا مقصد قرار دیا،انکی زندگیاں بدل کر رہ گئیں اور وہ فرشتوں سے بھی آگے بڑھ گئے۔انہوں نے اپنے اخلاق و کردار سے دنیا کو وہ روشنی عطا کی جس کی دنیا کو ہر آن اور ہمیشہ ضرورت ہے۔وہ مضبوط سیرت،صالح اخلاق اور مستحکم ارادے کے مالک تھے۔خدا کے رسولوں اور نبیوں کا مقام نہایت ہی بلند ہوتا ہے،ان کے سچے پیروئوں کی زندگیاں بھی نہایت ہی تابناک اور روشن ہیں۔ان کے کارناموں کو پڑھ کر ان کی سچائی اور اخلاص کا ثبوت ملتا ہے۔راہِ حق میں ان کےصبر و استقلال کو جس چیز نے سہارا دیا وہ ان کا وہی منزلِ حق تھی جس کو ان کی نگاہ نے ایک دم کے لئے بھی اوجھل نہ ہونے دیا۔ان کو اپنے مقصد کے ساتھ اس قدر لگاو،جاذبیت اور کشش تھی کہ اس کے بغیر کسی دوسری طرف متوجہ ہونا ان کے لئے ممکن ہی نہ تھا۔ایسے ہی مردانِ کار کے حق میں ربِ کائنات نے فرمایا ہے:
’’اور جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کریں گے ہم ان پر اپنی راہیں ضرور کھولیں گے۔بیشک اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کے ساتھ ہے‘‘۔ (العنکبوت:69)
وہ شریعت کی طرف خود ہی دل کی پوری آمادگی کے ساتھ لپک کر آئے تھے اور ہمیشہ رضائے الٰہی کی جستجو میں رہتے تھے۔فرض کی ادائیگی کا بے پناہ جذبہ ان کے رگ رگ میں پیوست ہو چکا تھا۔قرآن کی صریح الفاظ میں یہ وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے رب کی رضا کے لئے اپنے آپ کو بیچ دیا تھا۔قرآنِ پاک میں ان لوگوں کی کامل تصویر ان الفاظ میں دیکھنے کو ملتی ہے:’’اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضاجوئی کے لیے اپنے آپ کو بیچ دیتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے‘‘۔ (البقرہ:207)
وہ راہِ حق میں اپنا سب کچھ تج دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے کیونکہ انہوں نے حق کی کامل معرفت حاصل کی تھی اور اصل منزل کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھا تھا۔یہ وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے اللہ کا ایسا قرب حاصل کر لیا تھا کہ ایک مُلاقاتی دور سے ہی ان کی ایمانی حرارت کو محسوس کرتا تھا اور ان کی صحبت میں بیٹھ کر وہ ایسے موتی حاصل کر لیتا تھا جو کہ بادشاہوں کے محلوں میں بھی اسے دیکھنے کو نہ ملتے تھے۔ان کی قناعت والی زندگی نے انہیں یہاں کی ہر لذت سے بے نیاز کر دیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ دنیا کی زندگی میں ہی جنت کی مسرتوں کو کھینچ لاتے تھے۔رب العٰلمین کے ساتھ انہوں نے اپنی ہر ایک چیز کو جنت کے عوض سودا کر رکھا تھا اور یہی وہ راز تھا کہ وہ دین کے نام پر بڑی سے بڑی قربانی دینے میں نہ ہچکچاتے اور نہ ہی یہ کام ان پر بارِگراں ہوتی تھی۔تبوک کی مہم درپیش ہے،حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنا سارا اثاثہ لاکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیتے ہیں۔حضورؐ کے دریافت فرمانے پر کہ گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا؟کہتے ہیں:’’گھر پر خدا اور اس کے رسول کو چھوڑا ہے‘‘۔ہمارے گھر کی آبادی مال و دولت سے نہیں اللہ اور اس کے رسول سے ہے۔اللہ اور اس کے رسول سے کچھ بچا کر رکھنا ہمارے لیے ممکن نہیں۔جس چیز نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اتنا اونچا اٹھایا وہ ان کا ایمان تھا۔حضرت ابن عباسؓ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:’’ابوبکرؓ نماز اور روزے کی کثرت کی وجہ سے سبقت نہیں لے گئے بلکہ ایک چیز کے سبب جو ان کے دل میں راسخ ہوگئی۔‘‘
حق کو پہچان کر یہ لوگ اسی کے طالب بن گئے تھے اور انہیں یہی فکر دامن گیر رہتی تھی کہ زندگی خدا کی اطاعت اور رضاجوئی میں بسر ہو۔یہ لوگ ساری کشتیاں جلاکر ہی تحریکِ اسلامی کے لیے پوری یکسوئی کے ساتھ وقف ہوئے تھے۔یہ حق کو اپنی جان سے بھی عزیز رکھتے تھے کیونکہ حق کا نشہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔حق کے راستے میں یہ کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے تھے اور اگر جان کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑتا تو اسے بھی برضاورغبت دے کر اپنی شانوں سے امانت کا عظیم بوجھ اتار ڈالنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرتے تھے۔راہِ حق کی ابتلاء و آزمائش کی طرح انہیں وہ موت بھی عزیز ہوتی تھی جو خدا کی راہ میں آجائے۔انہیں سچائی سےکون پھیر سکتا،ان کے ایمان کو کون خرید سکتا اور ایسے لوگوں کو کون شکست دے سکتا تھا جو زندگی سے بڑھ کر موت کو عزیز رکھتے ہوں۔جن کے ذہنوں میں رسولؐ کی یہ بات ہر دم رہا کرتی تھی کہ:’’موت جو اللہ کی اطاعت میں آئے وہ اس زندگی سے بہتر ہے جو اللہ عزوجل کی نافرمانی میں حاصل ہوتی ہے‘‘۔حضرت خبیبؓ کو ان کے دشمن قتل کرنے کے لیے حدودِ حرم سے باہر لے گئے تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت چاہی۔نماز پڑھ کر فرمایا:جی تو چاہتا تھا کہ دیر تک نماز پڑھوں لیکن تمہیں خیال ہوتا کہ میں موت سے ڈر گیا ہوں پھر انہوں نے یہ شعر پڑھے:
وما ابالی حین اقتل مسلما
علی ای شق کان للہ مصرعی
وذالک فی ذات الالہ و ان یشا
یبارک علی اوصال شلو ممزع
’’جب میں اسلام کے لیے قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ یہ میں کس پہلو قتل کیا جاتا ہوں یہ جو کچھ ہے خالصاً خدا کے لیے ہے اگر وہ چاہے گا تو ان پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکت نازل فرمائے گا۔‘‘
حضرت خبیبؓ جان دے کر اپنے بعد آنے والوں کو منزل کا پتہ دے گئے۔انھوں نے حق کے راستے میں ایمان و احسان کی قندیلیں روشن کیں اور استقامت و جانفروشی کی ہمیشہ رہنے والی مثالیں چھوڑیں۔تاریخ کے سفر میں نشیب و فراز کے مراحل تو آسکتے ہیں لیکن کبھی اس قافلے کا سفر رکنے میں نہیں آتا۔آج بھی کچھ جوانمرد ہیں جو ان کے نقش قدم پر چل کر مرتے دم تک ایک ہی موقف کو پکڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔مراعات کا لالچ دے کر باطل ان کا ایمان خریدنا چاہتا ہے لیکن وہ ان سب کو’’حکمران کی ساحری‘‘سمجھ کر اپنی خودی کا سودا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں۔انہوں نے شعور کی بیداری کے ساتھ لا الہ پڑھا ہوتا ہے اور اس پر یقین اور اعتماد کی برکت سے وہ روشن ضمیر ہوتے ہیں۔راہِ حق کی صعوبتوں کو وہ اللہ تعالیٰ کی سنتیں سمجھ کر انہیں خوشی خوشی استقبال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،اگرچہ یہ دنیا میں کم یاب ہوتے ہیں لیکن امید کا چراغ ہاتھ میں لیے ہوئے یہ لوگ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ان کی وفات ایک عالَم کی وفات کے مترادف ہوتی ہے اور ان کے چلے جانے پر پیچھے جو خلا رہتی ہے اسے پورا کرنا اگرچہ ناممکن نہیں ہے لیکن مشکل تو ضرور ہوتا ہے۔
حق اخلاق و کردار کا طالب ہوتا ہے۔کھوکھلی سیرت کے ساتھ حق کے راستے پر چلنا ممکن نہیں ہے۔انسان اگر اس مقام کو پیشِ نظر رکھے جو انسانی سعادت کا سب سے اونچا مقام ہے تو اس کے کردار میں طاقت اور سیرت میں پختگی آسکتی ہے۔ایک طرف اگر ہماری نگاہ منزل کے لئے ہو اور دوسری طرف بہکی ہوئی ہو اور دل اصلی مقصد کے علاوہ کہیں اور اٹکا ہوا ہو تو راہِ حق پر ایک قدم بھی چلنا مشکل سے مشکل تر بن سکتا ہے۔جب نگاہ منزل پر ہو تو انسان خوب سے خوب تر کا جویا ہوتا ہے اور وہ آج ہی اس چیز کا آرزو مند ہوتا ہےجس کا وہ مرنے کے بعد ہوگا۔مرنے کے بعد ہر کوئی یہی تمنا کرے گا کہ کاش میں نے حق کے لیے اپنی پوری زندگی کو وقف کیا ہوتا۔کاش دنیا کے بجائے میں نے آخرت کو ترجیح دی ہوتی لیکن ان آرزوؤں اور تمناؤں کی پھر کیا قیمت؟یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شخصیت اور کردار کے مالک وہی لوگ ہوتے ہیں جو کسی بلند مقصد کے لیے جینے اور اس کے لیے مرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔اس لئے اگر ہم بھی آخرت کی نجات کے خواہشمند ہیں تو اس کے لیے لازمی ہے کہ ایک طرف ہم منزل کو اپنی نگاہ سے ایک دم کے لیے بھی اوجھل نہ ہونے دیں،ورنہ علائق دنیوی کی زنجیروں میں پھنسنا عین یقینی ہے۔دوسری طرف دنیا کی اس مختصر سی زندگی میں اقامتِ دین کی جاں گسل جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناکر اپنے لیےحقیقی زادِ راہ جمع کرنے میں لگ جائیں۔اللہ کا فضل وکرم شاملِ حال رہ کر اسی راہِ عمل کو اپنانے سے ہم آخرت میں اپنی سعادت کی منزلِ مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔
[email protected]