امرت مہواُتسو کا شور، ترنگے پر زور کیا عوام کو آزادی کے حقیقی ثمرات نصیب ہوئے؟

اختر جمال عثمانی

ملک کی آزادی کے 75 سال پورے ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں تقریبات کا سلسلہ 75ہفتے قبل ہی شروع ہو گیا تھا۔ یہ شروعات گجرات سے ڈانڈی مارچ کی سالگرہ کے دن 12 مارچ 2021سے کی گئی۔ وزیر اعظم جو کہ ہر موقع کو ایک بڑے ایونٹ کی شکل دینے کے لئے ہمیشہ کو شاں رہتے ہیں ان کی ایما پر اور انہی کی صدارت میں اس کو منانے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں زندگی کے ہر شعبے کی نمائندگی کرنے والی شخصیات کو رکھا گیا۔ انہوں نے 15 اگست 2047 تک جب کہ آزادی کا صد سالہ جشن منایا جانا ہے ،اس پچیس سال کی مدت کو ’ امرت کال ‘ قرار دیا۔ لفظ’ امرت کال ‘سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی روحانی اقدار کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ 75ہفتے جاری رہنے والی ان تقریبات کو امرت مہواتسو کا نام دیا گیا ہے۔ اس دوران نئی نسل کو 1857 کی پہلی جنگ آزادی سے لیکر 1947میں آزادی ملنے تک آزادی کی تحریک کے متعلق جانکاری دی جائے گی۔
آج کل ان تقریبات کا سلسہ عروج پر ہے۔ مہاتما گاندھی، سبھاش چندر بوس اور سردار پٹیل کا آزادی کی تحریک میں جو کردار رہا ہے اسکا تذکرہ بار بار کیا جا رہا ہے۔ وہ پارٹیاں اور شخصیات جن کا آزادی کی جدوجہد سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا، ان کو بھی آزادی کی تحریک کا ہیرو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن کالا پانی اور پھانسی کی سزا پانے والے اور طرح طرح کی صعوبتیں بردا شت کرنے والے بے شمار مسلمانوں کا ذکر تک نہیں آ رہا ہے۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ تحریک آزادی کے صفِ اول کے رہنما، مقبول ترین لیڈر اور آزادی کے بعد ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کا نام تک لینے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ظاہر ہے امرت مہواتسو کے اتنے شور شرابے کے باوجود تحریک آزادی کے اصل حقائق سے نئی نسل شائد ہی روشناس ہو سکے۔ اب اسی آزادی کے امرت مہواتسو میں ایک اور پروگرام شامل کیا گیا ہے ’ ہر گھر ترنگا گھر گھر ترنگا‘۔ عوام اور خواص سے کہا جا رہا ہے کہ وہ 13سے15 اگست تک اپنے گھروں پر ترنگا لہرائیں۔ بلکہ وزیر اعظم نے تو اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ کی ڈی پی میں بھی ترنگا لگانے کو کہا ہے۔ اس دلیل کے ساتھ کہ اس سے عوام کے دلوں میں دیش بھگتی کا جذبہ پیدا ہو گا۔ گویا عوام کی دیش بھگتی کو مشکوک سمجھا جا رہا ہے۔
ہر گھر پر ترنگا لہرانے کا درس دیا جا رہا ہے جب کہ ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصے کے پاس ابھی اپنا گھر ہی نہیں ہے۔ ترنگا مہم میں بھی کیا ہو رہا ہے دیکھنا دلچسپ ہو گا۔ سکولوں میں بچوں سے ترنگے کے لئے روپئے لانے کو کہا جا رہا ہے۔ راشن کارڈ ہولڈروں سے ترنگے کے لئے بیس بیس روپے لانے کو کہا جا رہا ہے ورنہ راشن دینے سے منع کیا جا رہا ہے۔ ریلوے ملازمین سے اڑتیس روپے ترنگے کی مد میں کاٹے جانے کے فرمان کی بھی خبر آئی ہے۔ سب سے بڑی بات ہے کہ اب جبکہ نیشنل فلیگ کوڈ میں تبدیلی ہو چکی ہے۔اس طرح کی مہم کے دوران اور اس کے بعد اتنی بڑی تعداد میں ان ترنگے جھنڈوں کا کیا ہو گا ،قومی پرچم کا احترام مجروح نہ ہو، اس کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ در اصل عوام کی توجہ اصل مسائل کی طرف سے دوسری طرف مبدول کرنے کے طر یقوں کی حکومتیں متلاشی رہتی ہیں۔ سب سے آسان ہوتا ہے مذہبی یا قومی تفاخر کے جذبات ابھارنے کے بہانے تلاش کرنا۔ عوام اپنے تعلیم ، صحت اور روزگار کے مسائل کی جگہ مذہبی منافرت میں الجھی رہے یا دوسروں سے دیش بھگتی کے ثبوت مانگتی رہے۔
امرت کال اور امرت مہواتسو جیسی اصطلاحات استعمال کر کے ہمیں ملک کی جدوجہد آزادی کی تاریخ موجودہ حکمراں نوں کے نظریے کے مطابق بتائی جا رہی ہے جبکہ طویل جد و جہد اور بے حساب قربانیوں کے بعد ملک آزاد ہوا۔ سراج الدولہ ، ٹیپو سلطان اور اشفاق اللہ خان سے لیکر منگل پانڈے ، رانی لکشمی بائی اور بھگت سنگھ تک لاکھوں مسلمانوں اور ہندئوں نے ملک کی آزادی کے لئے اپنی جانیں قربان کیں۔ مہاتما گاندھی نے حالات کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ سمجھ لیا تھا کہ انگریزی حکومت کا مقابلہ کسی پر تشدد مہم سے نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ جوشیلے نوجوان ایک ایسی حکومت سے کہ جس کی سلطنت کے طول و عرض میں سورج غروب نہ ہوتا ہو اور اس کی منظم فوج سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ا س لئے انھوں نے عدم تعاون اور عدم تشدد یا اہنسا کا راستہ اختیار کیا۔ان کے مطابق اگر ہم سارے ہندوستانی انگریزوں کا حکم ماننے سے انکار کر دیں اور وہ بھی پوری طرح عدم تشدد کے راستے پر چلتے ہوئے تو چند ہزار انگریز ہم سے اپنا حکم ہرگز نہیں منوا سکتے۔ اس دور میں انگریزوں کے ہمنو ارہے لیڈروں اور پارٹیوں کے پیروکار آج گاندھی جی کو بزدلی کا طعنہ دیتے ہیں۔مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو ،مولانا ابوالکلام آزاد، سردار پٹیل ، ڈاکٹر راجندر پرساد جیسے صفِ اول کے لیڈروں کے ساتھ ساتھ لاکھوں لوگوں نے اپنے زندگی کے قیمتی برس جیلوں میں گزارے۔ اتنی قر بانیوں کے بعد وہ مبارک دن آیا، 15 اگست 1947 ، یومِ آزادی کا ،کہ ملک کے عوام ذات و مذہب کی تفریق کے بغیر سکوں کی زندگی گزار سکیں اور ظلم و استحصال کا خاتمہ ہو جائے۔ لیکن ہم نے اپنی متعین راہ چھوڑ دی اور اندھیروں میں بھٹک گئے۔ مجاہدین آزادی کے قافلہ سالار مہاتما گاندھی نے ایک بار اپنے خوابوں کے ہندوستان کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا تھا’ میں ایک ایسا ہندوستان بنانا چاہتا ہوں جس میں سماج کا غریب ترین آدمی بھی فخر کر ے، اسے یہ احساس ہو کہ اسے بنانے میں اس کا بھی ایک حصہ ہے، ایک ایسا ہندوستان بنانا چاہتا ہوں، جس میں ذات پات کی بنیاد پر کوئی تفریق اور امتیاز نہ ہو ، ایسا ہندوستان جس میں سبھی اقوام ایک ساتھ امن و امان سے رہتے ہوں، چھوا چھوت کے لئے جس میں جگہ نہ ہو، عورتوں کو بھی وہی حقوق و تحفظ حاصل ہوں جو مردوں کو ہیں۔ یہی میرے خوابوں کا ہندوستان ہے‘‘۔
جب ہم آزادی کے ثمرات کا جائزہ لیتے ہیں تو پاتے ہیں کہ اکیسویں صدی کے بائیس سال گذرنے کے بعد بھی ہمارا ملک غریبی سے نجات حاصل نہیں کر سکا ہے۔ کتنا حیرت انگیز ہے حکومت کا اعتراف کہ ملک کے 80 کروڑ لوگ مفت راشن پر گزارہ کرتے ہیں ،آزادی کے بعد سے ہی حکومتوں نے غریبی کے خاتمے کے لئے بہت سی سکیمیں چلائیں۔ تمام سکیموں ،پالیسیوں اور پروگراموں کے باوجود ملک کی تقریباً آدھی آبادی غریب کی غریب ہی رہی۔ خاص وجہ رہی بد عنوانی، ان سکیموں سے متعلق سرکاری ملازمین اور دلال ضرور مالامال ہوتے گئے۔ یہ صحیح ہے کہ ملک میں غریبی ایک بڑا چیلنج ہے۔ غریبی کا تعلق صرف آمدنی سے جوڑ کر اصل حالت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ لوگوں کو میسر روٹی، کپڑا مکان ، صحت ، تعلیم اور روزگار کے حاصل مواقع سے ہی اصل حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ غریبوں اور امیروں کے بیچ کی کھائی لگاتار چوڑی ہوئی ہے۔ امیر اور امیر ہوتے گئے ہیں اور غریب اور زیادہ غریب۔اور اس کی رفتار موجودہ حکمرانوں کے دور میں تیزتر ہوتی گئی ہے۔ملک کی آدھی سے زیادہ دولت چند خاندانوں کے پاس سمٹ آئی ہے ۔اڈانی دنیا کے چوتھے امیر ترین شخص بن چکے ہیں۔
اگر ذات پات کی تفریق پر نظر ڈالی جائے تو یہ ہندوستانی سماج میں ہزاروں سال سے موجود رہی ہے۔ لیکن آزادی کے بعد 1950میں آزاد بھارت کے آئین کے نفاز کے ساتھ ہی ذاتوں پر مبنی امتیاز قانونی طور پر ختم کر دیا گیا تھا۔ لیکن پورے ملک میں ، خاص کر دیہی علاقوں میں یہ آج بھی رائج ہے۔ قانونی تحفظ حاصل ہونے کے با وجود آزادی کے اتنے طویل عرصے کے بعد بھی سماج میں نچلی ذات کے سمجھے جانے والے لوگ کس طرح برابری کے لئے جدو جہد کر رہے ہیں۔ حالات میں تبدیلی آرہی ہے لیکن نہایت سست رفتاری کے ساتھ۔ اگرچہ چھوت چھات کے خلاف 1955 میں اور ان طبقات کے تحفظ کے لئے 1989 میں قوانین وضع کئے جا چکے ہیں لیکن اصل مسئلہ قوانین پر عمل درآمد کا ہے جس میں اکثر جانب داری آڑے آتی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ لوگوں کے ذہنوں کا ذات پات کے بندھنوں سے آزاد نہ ہونا ہے۔ ایک اور مسئلہ عوام کے ساتھ پولیس کی زیادتی کا ہے۔ آزادی کے 75 سال بعد بھی پولیس حوالات میں قیدیوں کو اذیت پہنچائی جاتی ہے، پولیس تھانوں میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزی دیکھنے میں آتی ہے۔جب کہ ازروئے دستور ایسا نہیں ہونا چائے لیکن بظاہر حالات میں تبدیلی کا امکان نہیں نظر آتا۔
آزادی کے 75سال بعد بھی ملک میں آزادیوں کا کیا حال ہے ،دیکھنا دلچسپ ہو گا۔ مذہبی آزادی کا حال بین ال اقوامی اداروں کی رپورٹوں سے ظاہر ہے۔ پریس کی آزادی کا حال یہ ہے کہ اپنا ملک ایک سو بیالیسویں نمبر پر آتا ہے۔ ابھی حال ہی میں فیکٹ چیکر جرنلسٹ زبیر کی گرفتاری نے پریس کی آزادی کی صورتِ حال واضح کر دی ہے۔عالمی فاقہ کشی اشاریہ یا گلوبل ہنگر انڈیکس میں بھی اپنا ملک 116 میں سے 101 نمبر پر آتا ہے۔اس طرح یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ امرت کال، امرت مہواتسو، گھر گھر ترنگا جیسے پروگرام اہم ہیں یا ملک کے ہر شہری کا آزادی میں حصہ دار ہونا ضروری ہے۔
( بارہ بنکی،موبائل نمبر۔9450191754)
[email protected]