اسلام کا مُشاورتی نظام اور مشورے کی اہمیت

مفتی محمد نعیم

اسلام ایک کامل و مکمل نظامِ زندگی اور ابدی ضابطۂ حیات ہے، اس نے ہمیں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں رہنمائی فراہم کی ہے۔ یہ دین و دنیا کی خیر و فلاح کا مجموعہ اور مثالی سرچشمۂ حیات ہے۔ہمارے اس پاکیزہ دین میں عبادات، معاملات، اخلاقیات، اقتصادیات، معاشیات، معاشرت، آدابِ زندگی اور دستورِ حیات کے حوالے سےمکمل تعلیمات فراہم کی گئی ہیں۔ چناںچہ اسلام میں جہاں عبادات کو بنیادی مقام و اہمیت حاصل ہے،وہیں معاملاتِ زندگی کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔اسلامی تعلیمات نہ صرف آخرت کی ابدی زندگی میں چین وسکون کی راہیں کھولتی ہیں ،بلکہ اس دنیوی زندگی میں بھی اطمینان ،سکون اور ترقی کی ضامن ہیں۔اسلام کی اس بے پناہ مقبولیت کا ایک سبب مساوات ہے ،جس سے صدیوں سے درماندہ لوگوں کو نئی زندگی ملی اور وہ مظلوم طبقہ جو ظالموں کے رحم وکرم پر تھا ،اسے اسلام کے دامن محبت میں پناہ ملی۔اسلام مسلمانوں کو تمام معاملات میں مشورہ کرنے کا حکم دیتا ہے، تاکہ بعد میں پشیمانی اور ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔صالح، کامیاب اورپرامن زندگی گزارنے کے لیے مشاورتی نظام اپنانا ازحد ضروری ہے، بلاشبہ ،مشورہ خیر و برکت، عروج و ترقی اور نزولِ رحمت کا ذریعہ ہے، اس میں نقصان و شرمندگی کا کوئی پہلو نہیں ہے۔
ارشادِ ربانی ہے: اور شریک مشورہ رکھو، انہیں ایسے (اہم اور اجتماعی) کاموں میں، پھر جب آپ (کسی معاملے میں) پختہ ارادہ کر لو تو اللہ پر بھروسا کرو ،بے شک اللہ محبت رکھتا (اور پسند فرماتا)ہے ایسے بھروسا کرنے والوں کو‘‘۔(سورۂ آل عمران ) اسی طرح مومنین کے بارے میں ارشاد فرمایا :اور جو اپنے (اہم) معاملات باہمی مشورے سے چلاتے ہیں۔ بلاشبہ مشورہ خیر و برکت، عروج و ترقی اور نزول رحمت کا ذریعہ ہے، اس میں نقصان اور ندامت و شرمندگی کا کوئی پہلو نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی انسان مشورے سے کبھی نا کام اور نامراد نہیں ہوتا اور نہ ہی مشورہ ترک کر کے کبھی کوئی بھلائی حاصل کرسکتا ہے۔ (قرطبی۴/۱۶۱) ایک موقع پر آپﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ’’ جس نے استخارہ کیا، وہ نا کام نہیں ہوا اور جس نے مشورہ کیا وہ شرمندہ نہیں ہوا۔‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی: ۶۸۱۶)اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے: مشورہ شرمندگی سے بچاؤ کا قلعہ ہے اور ملامت سے مامون رہنے کا ذریعہ ہے۔‘‘(ادب الدنیا والدّین ۱/۲۷۷)
حضرت سعید بن مسیب ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی انسان مشورے کے بعد ہلاک نہیں ہوتا۔‘‘( ابن ابی شیبہ:۶؍۲۰۷)اس روایت میں مشورے کی اہمیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح کیا ہے ،چونکہ انسان کی فطرت میں غلطی کا عنصر شامل ہے اور انسانی عقل ناقص اورمتفاوت ہے ، اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں فکر ومزاج کے اختلاف کے ساتھ عقل وفہم کی قوت وضعف کا بھی فرق رکھا ہے ، یہی وجہ ہے کہ بہت مرتبہ کسی مسئلے کے مفید یا نقصان دہ پہلو کوایک انسان سمجھ جاتا ہے، جب کہ دوسرا انسان اپنی عقل وفکر کو تھکانے کے باوجود اس نتیجے تک نہیں پہنچ پاتا ، اس طرح انسانی معاملا ت میں کامیابی وناکامی، اچھائی وبرائی اور مفید ومضر دونوں قسم کے متضاد پہلووںکا اندیشہ رہتا ہے ، بعض دفعہ تھوڑی سی بداندیشی انسان کے لئے اتنی مضر ثابت ہوتی ہے کہ انسان اس کی تکلیف برداشت نہیں کرپاتا ۔
حضرت علیؓ کا قول ہے: مشورہ عین ہدایت ہے اور جو شخص اپنی رائے سے ہی خوش ہوگیا، وہ خطرات سے دوچار ہوا۔ (المدخل: ۴/۲۸) خلاصہ یہ کہ مشورہ ایک مہتم بالشان امر ہے، رشدوہدایت اور خیر وصلاح اس سے وابستہ ہے، جب تک مشاورت کا نظام باقی رہے گا، فساد اور ضلالت و گمراہی راہ نہیں پاسکے گی، امن اور سکون کا ماحول رہے گا، یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ے ارشاد فرمایا: جب تمہارے حکام تم میں سے بہترین افراد ہوں اور تمہارے مال دار سخی ہوں اور تمہارے معاملات آپس میں مشورے سے طے ہواکریں تو زمین کے اوپر رہنا تمہارے لیے بہتر ہے اور جب تمہارے حکام بدترین افراد ہوں اور تمہارے مال دار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہوں تو زمین کے اندر دفن ہوجانا تمہارے زندہ رہنے سے بہتر ہوگا۔“ (روح المعانی: ۷/۵۳۱)
مشورے کو مسلمانوں کا وصف خاص قرار دیا گیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ایمان والے وہ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے حکم کو مانا، نماز قائم کی اور ان کے کام باہم مشورے سے ہوتے ہیں اور جو ہم نے (مال انہیں)دیا ہے ،اسے خرچ کرتے ہیں۔(سورۂ شوریٰ:۳۸) اس آیت میں مسلمانوں کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں، ان میں ایک وصف باہمی مشورہ بھی ہے یعنی کسی اہم معاملے کو باہمی رائے کے ذریعے حل کیا جانا کامل اور پختہ ایمان مسلمانوں کی صفت ہے، اطاعت ِ خداوندی اور اقامت ِ صلوٰۃ کے بعد فوری طور پر مشورے کے معاملے کو بیان کرنے سے اس کی غیر معمولی اہمیت کا پتا چلتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ صحابہٴ کرامؓ اور بالخصوص خلفائے راشدینؓ نے مشاورت اورباہمی مشورے کو اپنا معمول بنایا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی مشورے کا حکم دیا ، ارشادفرمایا: اے نبیؐ! آپ معاملات اور متفرق امور میں صحابہٴ کرامؓ سے مشورہ کیا کیجیے۔ (سورۂ آل عمران: ۱۰۹) بظاہر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشورے کی حاجت نہیں تھی، کیوں کہ آپؐ کے لیے وحی کا دروازہ کھلا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تو وحی کے ذریعے معلوم ہوسکتا تھا کہ کیا اور کس طرح کرنا چاہیے؟ اسی لیے مفسرینِ کرام نے یہاں بحث کی ہے کہ حکمِ مشورہ سے کیا مراد ہے۔ حضرت قتادہؓ، ربیع اوردوسرے بعض مفسرین کا خیال ہے کہ صحابہٴ کرامؓ کے اطمینانِ قلب اوران کو وقار بخشنے کے لیے یہ حکم دیا گیا تھا،اس لیے کہ عرب میں مشورہ اور رائے طلبی باعثِ عزت و افتخار تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ وحی کے ذریعے اگرچہ بہت سے امور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی کردی جاتی تھی، مگر حکمت اور مصلحتوں کے پیش نظر چند امور کو آنحضرت ﷺکی رائے اور صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا، ان ہی مواقع میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صحابہٴ کرامؓ سے مشورےکا حکم دیا گیا، تا کہ امت میں مشورےکی سنت جاری ہوسکے اور لوگ یہ سمجھیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکمل فہم و بصیرت ہونے کے باوجود مشورے کا حکم دیا گیا تو پھر ہم اس کے زیادہ محتاج اور ضرورت مند ہیں، چناںچہ فرمایا گیا: یاد رکھو! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشورے سے بالکل مستغنی ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے امت کے لیے رحمت کا سبب بنایا ہے۔ (درمنثور: ۴/۳۵۹) (ترجمہ)اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے ذریعے مسلمانوں کو مشورے کی فضیلت کا درس دیا ہے، تاکہ آپ کے بعد آپ کی امت اس کی پیروی کرے‘‘۔ (قرطبی:۲/۱۶۱)
حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ میں نےرسولِ اکرم ﷺسے زیادہ مشورہ کرنے والا کسی کو نہیں پایا یعنی آپ ہر قابلِ غور معاملے میں اپنے صحابہؓ سے مشورہ کر کے ہی کوئی فیصلہ فرماتے، مثلاً :جنگ بدر سے فراغت ہوچکی تو آپ نے اسیرانِ بدر کے بارے میں صحابہ کرامؓ سے مشورہ فرمایا کہ انہیں معاوضہ لے کر رہا کر دیا جائے یا قتل کیا جائے ۔ غزوہٴ اُحد کے بارے میں مشورہ کیا کہ کیا مدینہ شہر کے اندر رہ کر مدافعت کی جائے یا شہر سے باہر نکل کر۔ عام طور سے صحابہ کرام ؓ کی رائے باہر نکلنے کی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبو ل فرمایا۔ غزوہٴ خندق میں ایک خاص معاہدےپر صلح کرنے کا معاملہ درپیش ہوا تو حضرت سعد بن معاذ ؓ اورحضرت سعد بن عبادہ ؓ نے اس معاملے کو مناسب نہیں سمجھا، اس لیے ان دونوں نے اختلاف کیا، آپ ﷺنے ان دونوں کی رائے قبول کرلی، حدیبیہ کے ایک معاملے میں مشورہ لیا تو حضرت ابوبکرؓ کی رائے پر فیصلہ فرمایا،واقعہٴ اِفک میں صحابہٴ کرامؓ سے مشورہ لیا، اسی طرح اذان کی بابت بھی صحابہؓ سے مشورہ کیا کہ نماز کی اطلاع دینے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جن امور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی حکمت کی بناء پر کسی خاص جانب رہنمائی نہ کی جاتی، ان میں صحابہٴ کرامؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشورہ فرماتے۔