جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ کوڈ۔19وباء کی ابتدا چائنا کے شہر ووہان سے2019 کے اواخر میں ہوئی اور چند ماہ کی مدت میں اس وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ فروری مارچ کے مہینوں میں اس وبا ء نے ایک ایسی صورت اختیار کرلی کہ دنیا کی اکثر حکومتیں اس وباء کے تئیں کوئی مبنی بر عقل رد عمل پیش کرنے میں ناکام رہیں۔ بیشتر حکومتوں نے الل ٹپ لاک ڈاونوں کا ایک لا منتہائی سلسلہ شروع کرڈالا۔
اکثر جمہوری حکومتیں یہ بات سمجھنے سے قاصر رہیں کہ وہ چائنا جیسا لاک ڈاؤن نہیں کرسکتیں، کیونکہ اصولی طور پر ایک جمہوریت وہی کچھ کرسکتی ہے جس کی رائے عامہ اجازت دے سکے۔ اس کے علاوہ اکثر جمہوریتیں لاک ڈاؤن سے ملنے والی فرصت کو صحت عامہ کی صورت حال میں کوڈ-۹۱ کے دفاع کے حوالے سے بنیادی ڈھانچے میں کوئی خاطر خواہ سدھار لانے سے قاصر رہیں۔ نتیجتاًکوڈ۔19کی پہلی لہر میں وباء پھیلتی گئی اور لوگ لقمہ اجل بنتے رہے۔ ساتھ ساتھ انسانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نفسیاتی امراض کا شکار ہوئی اور ایک بہت بڑی تعداد عام شفاخانوں میں علاج اور عملے کے میسر نہ ہونے کی وجہ سے غیر کوڈ۔19 مہلک امراض کا شکار ہوئی۔کاروبار زندگی ٹھپ ہونے کی وجہ سے حکومتوں کو عربوں کا مالی خسارہ گوارا کرنا پڑا۔ ذرائع آمدورفت بند ہونے کی وجہ سیاحتی صنعت کو سب سے زیادہ دھچکا پہنچا۔ عام سیاحت کے ساتھ ساتھ مذہبی سیاحت بھی تقریباًٹھپ ہوئی۔ لوگ اس طرح گھروں میں محصور ہوئے کہ باہر کی دنیا بیگانی معلوم ہونے لگی۔
کوڈ۔19 سے پیدا شدہ ہو کے اس عالم میں بہت ساری قوموں اور جماعتوں کی انسان دوستی اور غیر متعصبانہ روش سے بھی پردہ اٹھ گیا۔ یہ بات صحیح ہے کہ لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے بلالحاظ مذہب و ملت مصیبت کی ان شدید گھڑیوں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور نہ صرف بھوکوں کو سہارا دیا بلکہ غیروں کے گھروں کے ساتھ ساتھ ان کے مذہبی مقامات کو بھی sanitize کیا، تاہم ان ہی شدید حالات میں کئی ملکوں میں کئی مذہبی جماعتوں کے ساتھ بالکل ویسا ہی سلوک کیا گیا جیسا Holocaust کے پیش خیمہ کے طور پر یہودیوں کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔
انہی ایام میں جب پوری دنیا کرونا وائرس کی لپیٹ میں بے بسی سے کراہ رہی تھی، بہت سے لوگ اس وباء کو اپنے نقطئہ نظر (معاشی، مذہبی، وغیرہ) کے دفاع میں پیش کرنے لگے۔ اگر ایک طرف ٹرمپ نے اسے "چائنیز وائرس" قرار دیکر اپنے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تو دوسری چائنا والوں نے بھی اسے دبے الفاظ میں امریکیوں کی کارستانی قرار دے ہی دیا! کئی لوگوں نے، جو خود کو غیر جانبدار مبصرین کہلوانے پر مصر تھے، نے اسے امریکا اور چائنا کے درمیان ایک حیاتیاتی جنگ قرار دیکر "تیسری عالمی جنگ" کا ریہرسل قرار دے ڈالا۔کچھ اور لوگوں نے اسے اپنے مخصوص مذہبی اور نظریاتی تصورات کے اظہار کا موقع جان کر اپنے مخصوص تصورات کی بالادستی کے لئے استعمال کرنے کی سعی کی۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مذاہب کے پیرووں نے اسے کئی مخصوص تواہم پر مبنی اعمال اور "غذاوں اور دوائوں" سے بھگانے کی کوشش کی اور کئی اور لوگوں نے اسے سائنس کی جیت (اور مذہب کی ہار) قرار دے دیا۔ مسیحی مذہبی حلقہ اسے مسیح کی قوت شفاء(جسے وہ "ہیلنگ پاور" سے تعبیر کرتے ہیں!) کے اظہار کے لئے ایک خوبصورت موقع قرار دے دیا۔ یہود کے لئے بھی یہ وقت اپنے آپ کو "خداوند کی چہیتی قوم" ثابت کرنے کے لئے ایک اچھا موقع بنا۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو یہاں پر اس وباء کے تئیں رد عمل (میرے خیال میں) تین حصوں میں بٹا رہا! پہلا رد عمل وہ ہے جس کا اظہار اس صورت میں ہوا کہ "دفاعی تدابیر سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا!" اس طبقے کا خیال تھا کہ تدابیر اختیار کرکے اسلام کا نظرئہ توکل اور تقدیر خطرے میں پڑ رہا تھا! دوسرا رد عمل متشککین کا تھا جو اپنے مذہبی طبقے کی طعن و تشنیع کرنے میں مصروف عمل رہا۔ ان کے خیال میں اس وباء کی روک تھام کے لئے اہل مغرب ہی کچھ کر سکتے تھے۔ تاہم ایک رد عمل ان دو انتہاوں کے درمیان میانہ روی پر بھی مبنی رہا۔ یہ طبقہ دفاعی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ رجوع الی اللہ کی تلقین بھی کرتا رہا۔
یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وباء کو اللہ کا عذاب قرار دینا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ اس کا صاف مطلب یہ قرار پاتا کہ مسلمانوں نے دعوت کی ذمہ داری مکمل کرکے منکرین کے سامنے "اتمام حجت" کردیا تھا۔ تاہم اس صورتحال کو "تنبیہ" کہنا ہی ٹھیک تھا، کیوں کہ فرد کے لئے بھی اور اجتماعی طور پر بھی اللہ کی طرف سے تنبیہیں آتی رہتی ہیں۔ قرآن مقدس کی مختلف آیات میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ اللہ تعا لیٰ کس طرح لوگوں کے ایمان کی آزمائش کرتا ہے۔
وبائی امراض کی بابت یا ان حالات کے تئیں جہاں پر انسان کا توکل علی اللہ زیر بحث آتا ہے، اسلام کی تعلیمات کا معاملہ بالکل سیدھا اور صاف رہا ہے۔ تکنیکی اور تجرباتی معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمایا ہے کہ "انتم اعلم بامور دنیاکم، یعنی آپ لوگ تکنیکی اور تجرباتی معاملات سے خود واقف ہو!" توکل کے معاملے میں بھی آپ ؐنے اپنے ایک صحابی ؓکو نصیحت فرمائی کہ "اعقلھا ثم توکل، یعنی اونٹ کو باندھوں پھر اللہ تعالٰی پر توکل کرو!" طاعون عمواس، جس میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ کئی ایک عظیم صحابہؓ شہید ہوئے تھے، کے معاملے میں بھی فاروق اعظمؓ نے مبنی بر حقیقت اقدام فرماکر دوراندیشی اور عملی دانش کا ثبوت دیا۔
اس لئے کووڈ۔19سے پیدا شدہ صورتحال نے پیروان مذاہب میں رچے بسے مختلف سماجی رویوں کو بھی بے نقاب کیا۔ اگرچہ مسلمان معاشرہ بہت حد تک غیر منظم ہے، جس کا اظہار انہوں نے "ماسکوں کی ذخیرہ اندوزی" کرکے کیا، تاہم مغرب والوں نے اس "بد نظمی" کا اظہار "بڑے نظم" کے ساتھ کر ہی دیا! مثال کے طور پر بہت سارے امریکیوں کو اسلحے کی دکانوں پر قطاروں میں بندوقوں کی خریداری کرتے ہوئے دیکھا گیا تاکہ "مشکل وقت" میں یہ اسلحہ ان کے کام آسکے! اسی طرح اٹلی کی اس نرس کے آنسو بھی دل دہلانے کے لئے کافی ہوتے تھے جو کئی گھنٹوں کی بھوک اور تکان سے چور کھانا لینے گئی تو کھانا پہل کرنے والوں نے ختم کر لیا تھا!
(مضمون نگار ڈگری کالج کوکر ناگ میں اسلامک سٹیڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
ای میل۔ [email protected]
رابطہ نمبر۔ 9858471965