نظم
کچھ دن تم نہ باہر جانا
،میرے دادُو، میرے نانا۔
جاؤ بھی تو خالی آنا،
بُھولے سے نہ کرونا لانا۔
کچھ دن تم نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ اور پاؤں دھوتے رہنا
دُھوپ میں اکثر سوتے رہنا
دُور سے ہی اب ہاتھ ہلانا
کچھ دن تم نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوّ امّی بھی گھر بیٹھیں
،سوچیں،سوچیں خُوب وہ سوچیں،
کیسے گھر کو خُوب چلانا،
کچھ دن تم نہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کروناکیسی تو بیماری؟
ہر گھر میں ہے دہشت طاری
تجھ کو ہم نے دُور بھگانا
کچھ دن تم نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھول گئے ہیں پڑھنا لکھنا
بھول گئے یاروں سے ملنا
یاد آتا ہے دور پرانا
کچھ دن تم نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسملؔ آؤ رب کو منائیں
دل کی دنیا خوب سجایئں
سچّا تو بس ایک ٹھکانا
کچھ دن تم نہ باہر جانا۔
میرے دادوُ میرے نانا۔
خورشید بسملؔ
تھنہ منڈی راجوری
موبائل نمبر؛9622045323
کرونا کرفیو کے دوران میرے بچوں(مصور اور نور فاطمہ)
نے جو مجھے مشورہ دیا،اسے میں نے نظم کی صورت ری۔
کورونا کی مہاماری
کرونا کے بالمقابل جو بھی جرارآیا
درپہ وہ اِس کے آخر جیون کو ہار آیا
بھارت میں اِسکی آمد ممکن ہوئی ہے ایسے
بیرونِ ملک سے جب کوئی سوار آیا
صد شکرہے کہ قدرت ہم پہ ہے کچھ مہرباں
اِس مرض کو نہ یاں پر زیادہ نکھار آیا
مرنے کو مر گیا وہ، جو اس کی زد میں آیا
بچنا تھا جس کی قسمت اس میں سدھار آیا
بے موت مرنے والا مفلس تھا کوئی شائد
کہتے ہیں لوگ اکثر اسکو بخار آیا
تدبیر یہ بھی عمدہ معالج نکال بیٹھے
فوراً سے دو دوائی جسکو بخار آیا
عشاقؔ اپنے گھر پہ لاچار ہم ہیں بیٹھے
لیکر نہ کوئی روٹی اور نا اَچار آیا
عشاق کشتواڑی
جموں، موبائل نمبر؛9697524469
کرونا وائرس سے حفاظتی تدابیر
جسمانی و روحانی
جب تلک سر سے ٹلتی نہیں یہ بلا
تب تلک ایک دْوجے سے رہ لو جْدا
فاصلے تم بڑھاؤ، رکھو دوریاں
تاکہ پھیلے نہ آگے کبھی یہ وبا
رابطے کم رکھو، مِلنا جْلنا نہ ہو
اپنے گھر سے نہ نکلو کبھی بے وجہ
ہاتھ تم نہ ملاؤ، گلے نہ مِلو
دْور رہنے میں ہی ہے تمہارا بَھلا
صاف رکھو بدن اور ماحول کو
پھر ملے گی نہ بیماریوں کو جگہ
اپنی تدبیر سے بدلو تقدیر کو
اور لبوں پہ رکھو عافیت کی دْعا
صدقہ خیرات سے رب کو راضی کرو
صدقہ خیرات ہر مرض کی ہے دوا
اپنے اشکوں سے دھو لو تم اپنے گْناہ
یہ نہ بْھولو گناہوں کی ہے یہ سزا
رب کی رحمت سے مایوس ہونا نہیں
اے حِجازیؔ وہی رب تو دے گا شِفاء
وسیم حِجازی
اگلر،پٹن ،موبائل نمبر؛ 9797068044
راندئہ درگاہ
جی رہے اسباقِ قُراں کا ہیں دامن چھوڑکر
اس لئے افلاک سے شعلے ہیں برسائے گئے
کل تلک سائے جو ہم پر تھے خُدا ئے پاک کے
آج ہم سے دور یکسر ہیں وہ سب سائے گئے
راندہ ٔ درگہ بھی کعبے سے ہوئے انسان سب
اب وہاں روشن فرشتے سب کے سب لائے گئے
عرش سے دیکھا یہاں جب قائم و قیوم نے
معصیت میں بے شرم انسان سب پائے گئے
خونِ معصوماں بہا اور عصمتیں لُٹتی رہیں
بے کسوں پہ دم بہ دم کوہِ گراں ڈھائے گئے
یاد کیا اب بھی نہیں تُم کو ہے وہ عاد و ثُموٗد
کس طرح زیر و زبر ہوکر وہ تڑپائے گئے
کون مانگے اب خدا سے بخششیں تیرے لئے
احمدِ مُختاؐر بس ، باقی ہیں سب آئے گئے
طُفیل شفیع
گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر
موبائل نمبر؛6006081653
عالمِ خوف
خوف کا عالم، راہِ عمل پہ خود کو چلانا چھوڑ دیا
کالی راتیں گہری ہیں، اب شمع جلانا چھوڑ دیا
یاد کریں جو بیتے لمحے، سوچ کی بستی لرز اُٹھے
ذہن میں تیری یادوں کو اب میں نے بٹھانا چھوڑ دیا
قید ہوں اُس کی زلفوں میں، اس بابت میں نے آج سے اب
زلفوں کے گُل بوٹوں کو ماتھے پہ سجانا چھوڑ دیا
وہ خواب جو ساری عمر مری اس دنیا کا سرمایہ تھا
ان آنکھوں نے اب میرے اُن سپنوں کو دِکھانا چھوڑ دیا
کیا بُت تھے؟ ہمیشہ میرے دل پہ راج کیا کرتے تھے کبھی!
اُن پُتلوں کے آگے میں نے سر کو جھکانا چھوڑ دیا
آبِ حیات کی خواہش راشدؔ ہم پر کیسے ٹوٹ پڑی
میخانے میں جاکر بھی اب پینا پلانا چھوڑ دیا
راشدؔ اشرف
کرالہ پورہ، سرینگر
موبائل نمبر؛9622667105