جموں کشمیر قدرت کا قایم کردہ ایک ایسا خطہ ہے جس نے اگرچہ ہر بار حملہ آوروں کے حملے بھی سہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی غلامی کی زنجیروں کو پہنے رکھا ہے اور بار بار جسمانی و ذہنی تکالیف کو اپنا مقدر بھی سمجھا لیکن اس بستی کے قلمکاروں نے اپنے قلم سے جو کردار تراشے، جو اشعار رقم کیے، وہ آنے والی نسلوں کیلئے ایک تاریخی دستاویز کے طور پر کام کرینگے۔ ایسے ہی تخلیق کاروں میں مرحوم پروفیسر حامدی کاشمیری ایک زندہ و جاوید ستارہ ہے جنہوںنے تاریخ رقم کرلی اور جن کا مقام اردو ادب میں شاعر ، نقاد اور افسانہ نگار کی حیثیت سے قایم ہے۔
اردو غزل میں انھوں نے ایک خاص نام کمایا ہے۔ مختلف رسایل میں ان کا کلام شایع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے سات شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ جن میں شہر گماں، عروس تمنا، لا حرف قابل ذکر ہیں۔
حامدی کا تخلیقی ابعاد باقی شعرا ہی کی طرح ہے ،جہاں مستقبل کی پیش گوئیاں بھی ملتی ہیں اور حال کے نشیب و فراز کا ذکر بھی اور ماضی کی متعدد روایات کا احوال بھی نظر آتا ہے۔
حامدی جدید حسیت کا شاعر ہے جن کے کلام میں جدید زندگی سے متعلق تمام موضوعات کو دیکھا جاسکتا ہے۔نظر یہ حیات میں جو تبدیلیاں ہونے لگیں، اس میں انسان ہر شئے کو حقائق کے آئینے میں دیکھتا ہے اور سوال کرتا ہے۔ اپنی ذات سے بھی انسان سوالیہ ہے کیوں؟ کب؟ کیسے؟ کہاں؟ غرض موجودہ انسان تنہائی ،خود ساختہ مصروفیات، بے چہرگی، ذاتی انتشار، باطنی کشمکش، داخلی پستی، بے سروسامانی ،ذہن اور ضمیر کی رسہ کشی وغیرہ ان کے کلام میں خاص جگہ پاچکے ہیں چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
خود سے بھی ملنے نہ پائے عمر بھر
جاگ پڑنے پر بھی خوابوں میں رہے۔
اب سراپا سوال میں بھی ہوں
کیا ہے موجود کیا نہیں کیا ہے۔
ہلکا کروں تو کیسے میں سینے کے بوجھ کو
اس دشت ِ بے کنار میں کوئی شجر تو ہو۔
حامدی کاشمیری کی شاعری میں اپنی مقامی تہذیب کا نوحہ بھی ملتا ہے جہاں بچوں ،بزرگوں، نوجوانوں کو سرے عام قتل کیا جاتا ہے، عورتوں کی عزت تار تار کردی جاتی ہے اور اسی طرح کے مختلف مظالم بے قصور عوام پر ڈھائے جاتے ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ اگر کشمیر کے حالات یہاں کے عوام کی مشکلات کے بارے میں کوئی جانکاری صحیح طور پر چاہتا ہے تو اس سے حامدی کی شاعری کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئے۔ کہتے ہیں۔
وادی مرگ سے گزرنا ہے
سورت الناس ورد جان رکھنا۔
قاتلوں کو روکنا بس میں نہ تھا
کوہ و وادی خون کی یورش تو تھی۔
چھین لیتے نہیں بصارت ہی
وہ تو بے دست و پا بھی کرتے ہیں۔
بس اب کے ایسا کرو ایک ساتھ قتل کرو
یہ کہنہ سلسلہ پیش و پس کہاں تک ہے۔
حامدی کے یہاں انسانی جذبات کی تمام تر صورتحال کو دیکھا جاسکتا ہے، جذبات کی گرمی اور سردی کا نمایاں اثر نظر آتا ہے۔ قاری کے نبض کو بڑی گہرائی سے ٹٹول لیتے ہیں ۔اس سے اپنا ہمسفر بناتے ہیں ،کبھی اس سے جنت کی سیر کراتے ہیں اور کبھی جہنم کی بات بتاتے ہیں ۔کچھ مواقع پر تو ا سے ڈل جھیل کی خوبصورتی کا نظارہ کراتے ہیں تو کبھی باغ نشاط کا سیاح بناتے ہیں۔ بعضے اس سے بیچ سڑک کھڑا کرکے گاڑیوں کا شور سناتے ہیں۔ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ حامدی کا قاری ان کی تخلیقات کا مطالعہ کرنے کے دوران اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا بلکہ وہ چنار کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے، دھوپ کا لمس بھی محسوس کرتا ہے اور چشم نرگس کو قریب سے دیکھتا ہے، گھنے جنگلوں کی صاف ہوائوں سے بھی معطر ہوتا ہے، برفانی راتوں کا نظارہ بھی کرتا ہے۔ غرض کشمیر کے مقامی رنگوں کو شاعری میں سمو کر شاعر نے ایک تاریخ رقم کی ہے۔
ہم تھے اور دھوپ کی تمازت تھی
راستے میں چنار، بھی آئے۔
کھلی یوں ہی رہے گی چشم نرگس
کوئی اہل نظر آئے نہ آئے
برف کے طوفان میں کیسی سزا دیتے رہے
رت بدلنے کی نوید جاںفزا دیتے رہے۔
حامدی کاشمیری نے غزل کے علاوہ صنف ِ نظم میں بھی طبع آزمائی کی۔ ان کے مجموعہ کلام میں مختلف نظمیں ملتی ہیں۔ مطالعے کی آسانی کے لئے چند نظموں کا یہاں مفصل ذکر کیا جارہا ہے۔ شعری مجموعہ خواب رواں میں چالیس سے زاید نظمیں موجود ہیں جن میں شناخت، حیران لڑکی، بیداری، دعا، برف پگھلنے پر، ماتم، طایر، بارش، تعاقب، قابل ذکر ہیں۔ نظم تعاقب میں ہورہے انسانی خون خرابے اور قتل و غارت گری کو بہترین اسلوب بیان میں تجریدی اور علامتی سطح پر بیان کیا گیا ہے۔ آدم خور، سرخ پہاڑ، پرندے، تازہ لہو، ویران سڑکیں ایسی بہترین علامتیں گڑھی گئی ہیں جن سے ایک ایک باب کھل کر سامنے آجاتا ہے نیز قاری تک مکمل بات مختصر طور پر پہنچ جاتی ہے۔ملاحظہ کیجئے نظم تعاقب؛
آدم خورپرندوں کی اک ڑار
سرخ پہاڑوں کے اوپر سے
وادی کی جانب آتی ہے
لوگ سراسیمہ ہوکر
معبد سے نکلے
چشم زدن میں
سڑکیں، ویران ہو ئیں
میں گرتے پڑتے
کنج امان تک پہنچا
چھن سے کھڑکی کے
شیشے ٹوٹے؛ !
تازہ لہو سے
دہکتی چونچیں
میری جانب بڑھتی ہیں
آئے روز اس تمام تر صورتحال کا سامنا دنیا کے ہر فرد کو کرنا پڑتا ہے۔ اسی عذاب میں سب مبتلا ہیں کہ کب اور کون آدم خور پرندوں کا شکار بن جائے گا، کس کا گھر آج ان کے چشم چراغ سے خالی ہو جاے گا۔ اسی طرح کے موضوعات ان کی باقی نظموں میں بھی ملتے ہیں۔حامدی کی نظم نگاری میں معنوی وسعتوں کے ساتھ ساتھ موضوعاتی تنوع بھی دیکھنے کو ملتا ہے جس میں مقامی رنگ کے مسائل بھی موجود ہیں۔ وفاقی مسائل کو حامدی نے خوبصورت لہجے میں بیان کیا ہے۔ نظم رستگاری، ادراک، شکرانا، سناٹا، تلاش، اور آئینے جیسی نظموں میں وجودیت کے فلسفے کو بیان کیا گیا ہے۔ آدمی علوم کی وسعتوں میں پھیل گیا، زندگی کی نئی تعبیریں اور تاویلیں سامنے آگئیں، اب علم کی بدولت اگرچہ انسان نے ترقی کی لیکن انسانی وجود کی ہیت اور دنیاوی مسائل کو لیکر اس کے ذہن میں نئے استفسارات نیز خدشات نے جنم لیا۔ ان مسائل کی کثرت کیکر گارڑ، ہیگل، کانٹ، سارترے، نطشے، کامیو، گیبریل مارسیل، وغیرہ کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اردو ادب میں اس نوعیت کے موضوعات کو لیکر اخترالایمان، احمد فراز، پروین شاکر، جالب، افتخار عارف نے شاعری کی اور انتظار حسین، سریندر پرکاش، جوگندر پال، اقبال متین، بلراج مین را کے یہاں ان موضوعات پر مختلف افسانے ملتے ہیں۔
حامدی کی نظم رستگاری میں فلسفہ وجودیت کی گونج سنائی دیتی ہے۔ نظم کی شروعات تولد ہونے کی پہلی چیخ سے کی گئی ہے۔ اس کے بعد زندگی کی نیرنگیوں، امی کی محبتیں، اپنے ہونے اور نہ ہونے کے درمیان ایک تشکیکی جنگ جس میں انسان ملبوس ہونے کے باوجود بھی خود عریاں ہونے کی لاچاری کا رونا رو رہا ہے اور اس سراسیمگی کے دوران آدمی زندگی سے فرار کا قائل ہوکر بھاگ رہا ہے لیکن یہ بھاگنے کا عمل محض لاحاصل سی تگ ودو کا اندیہ ہے کیونکہ بہرحال تب تک انسان کو حیات کی قید میں رہنا ہے جب تک کہ موت اسکی زنجیر کو نہ توڑ ڈالے۔
مختصر طور پر کہہ سکتے ہیں کہ حامدی کاشمیری کی غزل گوئی اورنظم نگاری ان کے فن کی معراج ہے جس میں ہر فکر کے طبقہ کے بارے میں شعری پیکر میں موضوعات ملتے ہیں۔
رابطہ۔اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ ڑگری کالج حاجن
ای میل۔[email protected]