مغربی بنگال میں2018۔2014 تک میر اچار سالہ قیام رہا۔ بنگالی قوم پہلی نظر میں شمالی ہند کے لوگوں کے برعکس اتنے پر کشش نہیں لگتے مگر جوں جوں وقت گذرتا گیا،اس عظیم تہذیب کی گوناگوں صفات مجھ پر کھلتی گئیں۔یہ لوگ سادگی پسند، ایماندار اور پُرامن طبیعیت کے مالک ہیں۔اپنے کلچر اور زبان سے بےحد محبت کرتے ہیں ۔سوامی وویکانند ،رابندر ناتھ ٹیگور،کیشب چندر سین، قاضی نذرالاسلام ، ستیہ جیت رےاور جیوتی باسو کے نظریات اور اصولوں پر آج بھی نہ صرف فخر بلکہ اسے زندہ بھی رکھے ہوئے ہیں۔اندرون بنگال کے چھوٹے سے دیہات میں بھی ایک لائبریری، کھیل کا شاندار میدان اور ایک کمیونٹی ہال یا کلب ضرور موجود ہوگا۔لوگ علم وفن کے قدر دان ہیں۔فٹ بال سب سے پسندیدہ کھیل ہے۔بنگال کا سب سے بڑا تہوار دُرگا پوجا ہے جو اکتوبر کے مہینے میں دس دن تک چلتا رہتا ہے۔حقیقت میں دیکھا جائے تو بنگالی پورے سال دُرگا پوجا کی تیاریوں میں لگے رہتے ہیں۔ اس تہوار کے دوران ریاستی حکومت دس سے پندرہ روز کی چھٹی دیتی ہے اور بنگالی ا س موقع پر سیر سپاٹے کےلیے نکلتے ہیں۔یہ وہی وقت ہے جسے پہلگام اور گلمرگ کے تاجر بنگالی سیزن کہتے ہیں۔غریب سے غریب بنگالی بھی سال بھر کی بچت کر کے گھومنے جاتا ہےاور کشمیر ان کی پسندیدہ جگہ ہے۔بنگالی ہندو گوشت خور ہیں اور پوجا کے دوران تو خاص کر گوشت کھایا جاتاہے۔مچھلی بنگالیوں کی سب سے پسندیدہ غذا ہے۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ مچھلیاں بنگال میں ہی کھائی جاتی ہیں۔بنگالی لوگ ہم کشمیریوں کی طرح دن میں دووقت چاول کھاتے ہیں اور ہماری طرح ہی بہت زیادہ شوربہ بناکر چاول کے ساتھ ملاتے ہیں۔مچھلی کے بعد آلو ہر بنگالی کی مرغوب غذاہے، یہاں ہر چیز میں آلو ملتا ہے۔ چاولوں کو اُبال کر سُکھانے کے بعد محفوظ کرلیا جاتا ہے جسے مُڑی کہتے ہیں۔ دُنیا میں جہاں بھی بنگالی جائیں مُڑی ساتھ لے کر جائیں گے، ہم کشمیری میں اسے’’دھان لاۓ‘‘ سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ اس سوکھی مڑی کو کچے سرسوں کے تیل، کٹی ہوئی پیاز ، ہری مرچ اور لیموں کے ساتھ ملاکر کھایا جاتا ہے تو اسے’’ جہال مُڑی‘‘ کہا جاتا ہے۔بنگالی زبان سیکھنا بےحد آسان ہے کہ ایک پڑھا لکھا شخض محض تین مہینے میں اچھی بنگالی بولنا سیکھ سکتا ہے ۔ بنگالی زبان میں پانی کو’’ جہال‘‘ روپے کو’’ ٹکا‘‘ اور بیس کو’’ کُری ‘‘کہا جاتا ہے۔ بنگالیوں کی سب سے بڑی دیوی دُرگا ہے، اس لیے ان کے گھروں میں عورت کی حکمرانی اور دبدبہ ہوتا ہے۔ یہاںشادی اپنی پسند کی ہوتی ہے اور ہر شادی رجسٹرڈ ہوتی ہے،جہیز کا نام و نشان بھی نہیں ہے ۔اس کا سہرا بیسویں صدی کے دوران سرگرم سماجی اصلاح کاروں کو جاتاہے۔ بنگال میں مسلمان اچھی خاصی تعداد میں آبا دہیں۔شہری مسلمانوں کو چھوڑ کر دیہات کے ہندو اور مسلم میں فرق کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ دیہاتی مسلمان زیادہ تر توہم پرست اور ضعیف الاعتقاد ہوتےہیں لیکن تبلیغی جماعت محنت کرکے مسلمانوں کو اسلام کی بنیادی تعلیم سے روشناس کرار ہی ہے ۔یہاں گائے کے گوشت پر کوئی پابندی نہیں اور شہر ودیہات میں یہ دستیاب رہتا ہے۔بنگالیوں کا طرزِ معاشرت بہت سادہ ہے۔دوپہر 1 بجے سے شام 5بجے تک دیہات کی ساری دکانیں بند رہتی ہیں کیونکہ اس وقت سب لوگ آرام کرتے ہیں۔کولکتہ شہر جوکہ 1912 تک برٹش انڈیا کی راجدھانی تھی، عہدوسطیٰ اور عہدجدید کا ایک حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔کمیونسٹ پارٹی کی تین دہائی حکمرانی کے سبب بنگال اب بھی ہندوستان کے سستے علاقوں میں سے ایک ہے۔یہاں آپ کو تین روپے میں اچھی چائے ملے گی اور کولکتہ میں غریب انسان 15 ؍روپےمیں پیٹ بھر کر کھانا کھا سکتا ہے۔ہر گاؤں میں کسی مقررہ کھلے میدان میں اتوار بازار لگتا ہے جسے’’ ہارٹ ‘‘کہتے ہیں۔یہاں پر کسان اور چھوٹے تاجر ضرورت کی ہر چیز لے کر آتے ہیں اور لوگ ہفتہ بھر کےلیے سبزیاں، پھل، گوشت، مچھلی اور اناج خرید لیتے ہیں۔ بنگالیوں کا اتحاد اور بھائی چارہ بے حد مشہور ہے ۔ایک کروڈپتی بنگالی ایک مزدور کے ساتھ بات چیت یا کھانا کھانے میں کوئی شرم یا ججھک محسوس نہیں کرتا۔بنگالی لوگ اپنی قوم کے عظیم اور مشہور لوگوں پر بہت فخر کرتے ہیں۔ابھی بھی سبھاش چندر بوس، متھن چکرورتی،جیوتی باسو، سورو گنگولی اور ممتا بنرجی کی عظمت کا ڈنکا ہر سُوبجتا ہے۔یہ خطہ فرقہ وارانہ بھائی چارے کےلیے بھی بے حد مشہور ھے۔ مرکز میں براجمان حکمران بھاجپا کی بےحد کوششوں کے باوجود بنگال کا بھائی چارہ تا حال قائم و دایم ہے۔
بنگالیوں اور کشمیریوں میں کئی چیزیں قدرِ مشترک پائی جاتی ہیں۔دونوں کی مرغوب غذاچاول کے ساتھ مچھلی اور گوشت ہے۔بنگالی بھی کشمیریوں کی طرح امن پسند اور لڑائی جھگڑے سےدور رہنے والے ہیں۔یہ اوربات ہے کہ 8 دہائیوں سے ظلم وستم نے کشمیریوں کو فولاد کی طرح مضبوط اور آگ سے بھی زیادہ جوشیلا بنادیا ہے۔ بنگال سے ہر سال کئی درجن دُلہنیں کشمیر لائی جاتی ہیں۔میں نے بنگال قیام کے دوران اس بات پر تھوڑی بہت تحقیق بھی کی تو پتہ چلا کہ کشمیر کے وہ مرد حضرات جن میں کسی قسم کا جسمانی نقص یا عیب ہوتا ہےکہ کشمیر میں ان کی شادی ہونا بہت مشکل ہوتا ہے ،ایسے لوگ اکثر بنگال کے غریب مسلم علاقوں سے لڑکیوں کو نکاح کرکے وطن لاتے ہیں۔لڑکی کے ماں باپ کو کچھ رقم دی جاتی ہے ،میں خود ادھیڑ عمر کے کئی کشمیریوں سے ملا جو دلہن کی تلاش میں جہلم سے دامودر کے کنارے آپہنچے تھے۔وادی کے کئی علاقوں خصوصاًبارہمولہ اور بڈگام میں اس طرح کی بنگالی بہو ئیں مل جاتی ہیں۔ مفسر قران مولانا ابولکلام آزاد کا بچپن کولکتہ میں گذرا ۔انہوں نے اپنی کتابوں میں جابجا اس شہر کا ذکر بڑی محبت سے کیا ہے( ملاحظہ ہو’’غبارِخاطر‘‘)۔1857 کے غدر کے بعد جب مغل بادشاہ کو جلاوطن کیا گیا تو مرزا غالبؔ نے انگریزوں سے اپنی پنشن دوبارہ جاری کروانے کےلیے بذریعہ ریل کولکتہ کا سفر کیا تھا اور شہر کی ادبی محفلوں میں اپنے فارسی کلام کی دھاک بٹھائی تھی(مطالعات خطوطِ غالبؔ۔ مالک رام)
مچھلیوں میں ’’ ہلسا‘‘ مچھلی بے حد نایاب اور قیمتی مانی جاتی ہے۔ بنگالی اسے ’’ عِلش‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ سمندری مچھلی ہے مگر اپنے انڈے دریائی دہانوں پر دیتی ہیں۔ اس طرح جو مچھلی پیدا ہوتی ہے وہ لذت اور نفاست میں لامثال ہوتی ہے ۔اس مچھلی کی قیمت 600 روپے فی کلو سے 1500 روپے فی کلو تک رہتی ہے یہ دنیا میں صرف بنگلہ دیش اور مغربی بنگال میں پائی جاتی ہے اورسمندر سے دریا کی طرف سفر کرتی ہے ۔ایک تحقیق کے مطابق خلیجِ بنگال سے لے کر دریائے گنگا اور دریائے جمنا میں سفر کرتے کرتے آگرہ میں بھی ’’ہلسا‘‘ مچھلیاں پکڑی گئی ہیںلیکن ہند بنگلہ دیش سرحد پر بنگال کے مالدہ ضلع میں فراکا باندھ سے ہلسا مچھلی کی مخالف سمت میں آمدورفت ختم ہوگئی ہے۔ اب بھارت میں یہ مچھلی بنگلہ دیش سے آتی ہے۔ 2016 میں دُرگا پوجا کے دوران جب اس مچھلی کی قیمتیں 1600 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھیں تب بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بنگلہ دیشی وزیراعظم سے بات چیت کرکے اس مچھلی کی سپلائی بڑھانے کی صلاح دی۔میں نے یہاں تک سنا ہے کہ غریب بنگالی تہوار پر اپنے زیورات تک گروی رکھ کر اس مچھلی کو شوق سے خریدتے ہیں۔بنگال میں غربت اور معاشی تنگ دستی کا ایک سبب مشہورِ زمانہ پٹ سن صنعت کا زوال ہے۔ پٹ سن نامی مکئی جیسے پودے کے ریشوں سے بوریاں اور رسیاں بنائی جاتی ہیں ۔کسی زمانے میں بنگال کی جُوٹ فیکٹریوں میں تیار بوریاں پوری دنیا میں سپلائی ہوتیں اور لاکھوں لوگوں کا روزگار اس سے صنعت وابستہ تھا لیکن جب سے مصنوعی دھاگوں سے بیگ بننے شروع ہوئے کلکتہ کی جُوٹ فیکٹریاں بند ہوگئی ہیں۔پوری دنیا میں پٹ سن کی کھیتی صرف بنگال اور بنگلہ دیش میں اسی جگہ ہوتی جہاں دریائے گنگا اور برہم پتر سمندر میں مل جاتے ہیں۔ اس علاقے کو سندربن بھی کہا جاتا ہے۔ سندربن جنگلوں میں ہی ہندوستان کا مشہور شیر’’ رائیل بنگال ٹائیگر ‘‘ پایا جاتا ہے جو بھارت کا قومی جانور ہے۔
بنگالی لوگ مزاجاً لالچ اور گھمنڈ سے بے حد دور ہوتےہیں۔میں نے کئی بنگالی دوستوں سے ان کی زندگی کی خواہش پوچھی تو انہوں نے کہا اپنا گھر ہو اور گھر کے سامنے مچھلیوں سے بھرا تالاب ہو ،جس کی تازہ مچھلیاں ہم روز کھا سکیں۔بنگال کے دیہاتوں میں ہزاروں کی تعداد میں تالاب ہیں جن میں برسات کا پانی جمع ہوتا ہے اور لوگ ان میں مچھلیاں پالتے ہیں۔مغربی بنگال ہندوستان کی واحد ریاست ہے جہاں زیر زمین پانی کی سطح بے حد اونچی ہے ۔یہاں کے لوگ اپنے کلچر اور زبان سے بےحد محبت کرتے ہیں۔ٹیگور کا تخلیق کردہ رابندرو سنگیت پورے کولکتہ شہر کی سڑکیوں گلیوں اور بازاروں میں ہلکی آواز میں ہر جگہ سنائی دیتا ہے۔بنگالی زبان کی عظمت کےلیے یہی کافی ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دوسرے اور ساتویں بڑے ملکوں بھارت اور بنگلہ دیش کے قومی ترانے بنگلہ زبان میں ایک ہی شاعر کے ہیں۔ گزشتہ کچھ سال کے دوران بی جے پی بنگال کے بھائی چارے اور مشترکہ تہذیب و وراثت کو ہندوتو کی طرف موڑنے کی کوشش کررہی ہے مگر اسے ابھی تک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ دریاے ہگلی کے کنارے پر آویزاںبلند و بالا برطانوی سامراج کی عظیم یادگار ہوڑہ برج بنگالیوں کو اپنے دانش وروں کی عظیم تہذیب کا ضامن دیکھ پائے گا یا یہ عظیم تہذیب بھی ہندوتوا یلغار کے سامنے خس و خاشاک کی طرح ڈھ جائے گی ؎
اے آب ِرود گنگا وہ دن ہیں یاد تجھ کو اُترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا