شہباز رشید بہورو
قرآن مجید کی آیات سے ایک جابر کا جبر ،ظالم کا ظلم،غافل کی غفلت اور متکبر کا تکبر معدوم ہوتا ہے ۔قرآن کی آیات سے ایک ذہین کی ذہانت صحیح نہج پر استعمال کی جاسکتی ہے ۔قرآن مجید ہی وہ وسیلہ ہے جس کے بل بوطے پر مشرقی ممالک مغرب کے الحادی اقدامات کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔کیونکہ قرآن ہی ایک ایسی نعمت ہے جس کے ہوتے ہوئے مشرق کومغرب کے مقابلے میں تفوق حاصل ہے ۔قرآن ہی وہ اصل ہے جس کی بنیاد پر ہم دنیائے جہاں والوں کو مریخ و سریہ سے بھی فائق تر کائنات کا نظارہ کرا سکتے ہیں ۔اگر دیکھا جائے تو مشرق حتی کہ اپنے لٹریچر کو پیش کرتے ہوئے بھی مغرب کے مقابلے میں احساس کمتری کا شکار ہے اور مغرب بھی مشرق کے مروجہ علوم کو کوئی اہمیت نہیں دیتا کہ وہ بھی مشرقی اقدار کو اپنانے کی کوئی نیت رکھے۔کیونکہ مغرب مادی ترقی کے وہ منازل طے کر چکا ہے کہ اب اسے مشرقی علوم پر اعتماد کرنا معیوب محسوس ہوتا ہے ۔اب یہ مغرب کی مشرق کے تئیں مستقل ایک فکر بن چکی ہے اور اس فکر کو مضبوط کرنے میں ہم لوگوں کا جو رول رہتا ہے وہ تو بس ہماری نااہلی اور غلامی کی بہترین عکاس ہے ۔ہمارا رول یہ رہتا ہے کہ ہم نے اپنی مشرقی روایات کو جس طرح سے روند کر مغربی اقدار و روایات کو گلے لگایا ہے ،وہ مغربی مفکرین کے لئے بھی شاید ایک موضوع بحث بن گیا ہے کہ ہماری نفسیات ہے کیسی یہ کہ ہم ان کے ایک ایک اشارے کو اپنے لئے جہان عافیت سمجھ لیتے ہیں ،اس پر جان چھڑکتے ہیں حتیٰ کہ جان بھی کبھی کبھار گنوا دیتے ہیں ۔المختصر یہ کہ مغربی تہذیب ہمارے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے جس نے ہماری زندگی کا ہر پہلو متاثر کیا ہے اور اب جو حضرات اس تہذیب کا مقابلہ کرنا بھی چاہتے ہیں ،وہ بھی یا تو شاعری کے ذریعے ،یا تحریر کے ذریعے یا منبر ومحراب سے تقریر کے ذریعے اس طلسماتی سحر کا علاج تجویز کرتے ہیں لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ یہ سحر آئے روز ناقابل علاج ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ہماری تحریر و تقریر چونکہ اس مرض کا صحیح علاج کرنے کی تاثیر نہیں رکھتے، اس لئے یہ سب کچھ بس ایک کھلنڈرے کا کھیل معلوم ہوتا ہے ۔
مغربی تہذیب جومغرب کے چند مفکرین کے تصورات کی دین ہے، دراصل کچھ بنیادی انسانی تصورات کے بے لگام ہونے سے شیطانی وسوسوں کے شکار انسان کے لئے شداد کی جنت ثابت ہوئی اور انہوں نے حقیقی تصورات کے بدلے انہی کو عملانے کی کوشش کرکے قدرتی نظام میں خلل ڈالا، جس کا نتیجہ انسان کے سامنے ہے۔ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ اس بےضابطگی کو درست کیا جائے لیکن ’’کوئی بھی امید بر نہیں آتی اور کوئی صورت نظر نہیں آتی ‘‘کے مصداق صورتحال سخت پیچیدہ ہے ۔مغرب کے پاس اس صورتحال سے نکلنے کے لئے کوئی بھی حل نہیں ہے کیونکہ مغرب اب اپنے خود ساختہ افکار او نظریات کے بوجھ تلے اتنا دب چکا ہے کہ ان کا سہارا لے کر مقابلہ کرنے کی جرأت کرناگویا اپنے اوپر آسمان گرانا ہے ۔البتہ ایک نئے نقطہ نظر اور فکر وعمل کی راہ اپنا کر مغرب اس اخلاق وحیاسو ز نظام سے آزادی حاصل کر سکتا ہے ۔وہ نقطہ نظر قرآن سے مغرب کو حاصل ہو سکتا ہے جس کو منتقل کرنے کا کام مسلمانوں کا تھا۔ لیکن بدقسمتی یہ ملت اس حد تک ناخواندہ اور بے حس ہو چکی ہے کہ یہ کام بھی غیر آکر اسے سکھا تے ہیں کیونکہ یہ ملت قرآن کے فیوض و برکات سے ناواقف ہوتی چلی جارہی ہے۔
قرآن مجید ہی وہ وسیلہ ہے جس کے بل بوتے پر مسلم ممالک مغرب کے الحادی و ایمان سوز اقدامات کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں ۔قرآن ہی وہ واحد آئینہ ہے جس کے ذریعے مغرب کی جدید تاریکی کا بچشم بصیرت مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور مغرب کو بھی اس کا تاریک ترہونا باور کیا جا سکتا ہے۔مغربی تہذیب کا مغرب کے لئے بھی فتنہ ہونا قرآن کے ذریعے ہی ثابت کیا جاسکتا ہے۔قرآن ہی وہ اصل ہے جس کی بنیاد پر ہم دنیا جہان والوں کو مریخ و سریہ سے بھی فائق تر اور وسیع تر کائنات کا نظارہ کرا سکتے ہیں ۔
مغرب کی جدید فکری تاریخ میں جو جو نابغہ روزگار شخصیات آئی ہیں ان کے نظریات کا مقابلہ ان ہی کی کتابوں کی رٹ اور نقل کرکے پیش نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ قرآن کو بنیاد بنا کر ایک ایسا نظام فکرو عمل تشکیل دیا جائے جس سے مغرب کو بھی انکار کی جرأت نہ رہے ۔وہ انکار کی جرأت تب نہیں کر سکتے ہیں جب تک نہ ان کے اس مفروضے کو نہ توڑا جائے کہ ’’ترقی مغربیت کا نام ہے اور پسماندگی مشرقیت کی دین ہے۔‘‘اس مفروضے کو توڑنے کے لئے فوری طور ان کی کسی ایسی شدید ضرورت کو تلاش کیا جائے جس کو پورا کرنے کے لئے وہ سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں ۔وہ ضرورت ان کی قلبی و ذہنی سکون ہے ۔مغرب نے انسان کو ہر اعتبار سے بس حیوان تسلیم کرکے اسے درماندگی پرمجبور کیا اور بقول شاہنواز فاروقی صاحب :’’زندگی کے تفہیم کے کسی اصول کو باقی نہ رکھا۔‘‘انسان کو سیاسی حیوان ،معاشرتی حیوان اور معاشی حیوان قرار دے کر ذہنی و روحانی پریشانیوں میں مبتلا کیا ہے۔ اس لئے مغرب میں عام انسان ذہنی وقلبی بے سکونی سے دوچار ہے۔ اس لئے وہ لوگ اس سکون کی تلا ش میں خالص نفسانی خواہشات کی تکمیل میں لگے ہیں، جس سے مزید بے سکونی کی آگ بڑھکتی ہے ۔اس طرز عمل کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس کوئی ایسا منبعٔ علم و عمل نہیں ہے کہ جس کی اتباع اور اطاعت کرکے وہ قلبی سکون حاصل کر سکتے ہیں ۔
سکون کا ذریعہ قرآن ہی ہے جس کا ثبوت خود قرآن ہی ہے ۔مسلمانوں کے موجودہ معاشرے کو اسلام کے روحانی نظام کے حق میں دلیل کے طور پر لانا سراسر ناانصافی ہیں ہاں تاریخ کے اوراق کو پیچھے پلٹاتے ہوئے رسول اللہ ؐکے دور مبارک کو مثال کے طور پر لانا حق بجانب ہے ۔جو مبارک معاشرہ روحانیت کی اصل تعریف اور ہیئت پر صادق آتا ہے ۔کیونکہ موجودہ مسلمان معاشرہ مغربی معاشرے کا صحیح ترجمان بنا ہوا ہے ،اس لئے اسلام کے حق میں موجودہ مسلم معاشرہ کی مثال لانا صحیح نہیں ہے ۔جارج برنارڈ شا نے کہا تھا کہ ’’میں جب قرآن پڑھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں، اس سے بہترین کتاب ممکن نہیں ہے اور جب مسلمانوں کو دیکھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں ان سے زیادہ ذلیل قوم کوئی نہیں ۔‘‘۔۔۔ (جاری)۔۔۔۔
[email protected]