محمد ارشد کسانہ
جموں و کشمیر میں اردو افسانے کو فروغ دینے میں کئی افسانہ نگاروں کا اہم رول رہا ہے انہی میں مشتاق مہدی کا شمار بھی ہوتا ہے ۔ اس خطہ کے تمام افسانہ نگاروں کو پڑھنے کے بعد ہمیں مشتاق مہدی کی انفرادیت کا احساس ہوتا ہے ۔ اسّی کی دہائی کے بعد کی نسل میں مشتاق مہدی کا نام اس لیے بھی اہم مانا جائے گا کیوں کہ انہوں نے فن اور موضوع کے درمیانی رشتے میں توازن برقرار رکھا ہے۔ ان کے کسی افسانے میں ہمیں فن پر موضوع حاوی ہوتا ہوا نظر نہیں آتا ۔ ان کے ہر افسانے میں ادبیت کا احساس ہوتا ہے۔ ان کا تخیل جہاں ان کے افسانوں کو جاندار بناتا ہے وہیں یہ تخیل انھیں انفرادیت بھی عطا کرتا ہے اور ان کی سب سے بڑی خوبی ان کا اسلوب ہے ۔ مختصراً مشتاق مہدی نے ہر لحاظ سے اپنے لیے الگ راستہ بنانے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں وہ کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں ۔
یہ بات درست ہے کہ مابعد جدیدیت نے لگ بھگ ہر کسی افسانہ نگار سے انفرادی اسلوب کو چھین لیا ہے ۔ اور اسلوب وہ چیز ہوا کرتی تھی جو افسانہ نگار کی شناخت متعین کرتی تھی ۔ اس معاملے میں کرشن چندر بڑے مشہور رہے ہیں ۔ ادبی دنیا میں یہ بات عام ہے کہ اگر ان کے کسی افسانے سے عنوان اور مصنف کا نام ہٹا کر کسی قاری کو دے دیا جائے تو اسلوب کی بنا پر قاری فوراً یہ بات بتا دے گا کہ یہ افسانہ کرشن چندر کا ہے ۔ مابعدجدیدیت نے فن کاروں کو اتنی آزادی دے دی کہ وہ ہر لحاظ سے آزاد ہوگئے ۔ اسّی کی دہائی کے بعد بہت کم ایسے افسانہ نگار ہیں جن کی شناخت ان کے اسلوب کے سبب ہو سکتی ہے ۔ اسلوب کے معاملے میں مشتاق مہدی نے اپنی شناخت قائم کی ہے ۔ان کی زبان میں روانگی ، سادگی اور شعری لہجہ نے جان ڈالی ہے ۔ موصوف کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے کہیں کہیں احساس ہوتا ہے کہ گویا ہم کوئی نثری نظم پڑھ رہے ہیں ۔ ان کے افسانے ’’ رنگ ‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’ دھوپ اس روز دھرتی پر مہربان تھی ۔۔۔۔
ہوا میں خنکی تھی اور نئے موسم کی تازگی بھی ۔۔۔ کھڑکی کے راستے قریب آکر گویا ہوئی ۔۔
آو۔۔۔ آو باہر ۔۔ ۔ اور دیکھو رنگ رنگ کے ۔۔۔۔۔
رنگ۔۔۔ رنگ کے۔۔۔۔؟
ہاں رنگ رنگ کے ۔۔۔ کہ رنگ رنگ جُدا ، کہاں تک ایک ہیں اور عالیہ بھی اب مکتی چاہتی ہے ۔ اور تو بھی بے قرار ہی ہے کہ دیکھیں تماشائے رنگ ۔۔۔
تو کیا یہ سارا سلسلہ رنگ کا ہی ہے ۔؟ ‘‘
( آنگن میں وہ ، مشتاق مہدی ، ۲۰۰۹ء ، ص۱۱)
مشتاق مہدی کے افسانوں کی ایک خوبی یہ بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے افسانوں میں تجسس کا جذبہ کہیں ضائع نہیں ہوتا ۔ تمام افسانے ایک مخصوص پیرائے میں آگے بڑھتے ہیں ۔ ہر نئے جملے کے ساتھ قارئین کا تجسس بڑھتا جاتا ہے ۔ درمیان میں کہیں بھی بے ربطی اور بورنگ (Boaring)کا احساس نہیں ہوتا ۔ ہاں ! اکا دکا افسانے قارئین کو سمجھنے کے لیے مشکل بن سکتے ہیں ۔ دراصل مشتاق مہدی نے اپنی افسانوی زندگی کا آغاز ۱۹۷۴ء میں افسانہ ’’ کمینہ ‘‘ لکھ کر کیا تھا ۔ اور اردوادب میں یہ دور جدیدیت والوں کا رہا ہے ۔ مشتاق مہدی نے جدیدیت کے زیر اثر ہی افسانے لکھنے شروع کئے تھے ۔ اب اس عہد کے اثرات موصوف پر پڑنے فطری تھے۔ وہ کافی عرصے تک ’’ شب خون ‘‘ میں بھی چھپتے رہے ہیں ۔ ۱۹۷۴ء کے بعد وہ متواتر مختلف رسائل و جرائد میں چھپتے رہے ۔ ۲۰۰۹ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ آنگن میں وہ ‘‘ منظر عام پر آیا ۔ اس مجموعے میں انھوں نے جن افسانوں کا انتخاب کیا ہے ان کی اشاعت کا عہد ۱۹۷۴ء سے ۲۰۰۸ء ہے ۔ ان کا پہلا افسانہ ’’ کمینہ ‘‘ بھی ’’ پیاسا‘‘ کے عنوان سے اس مجموعے میں شامل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چند افسانوں میں ہمیں جدیدیت کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔علامت اور ابہام کو انہوں نے بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے ۔ مابعدجدیدیت نے صرف سپاٹ افسانے قارئین کو دیئے ہیں ۔ ان افسانوں کو سمجھنے کے لیے قارئین کو ذرا بھی محنت نہیں کرنی پڑتی ۔ اس لیے یہ زیادہ دیر تک قارئین کے ذہنوں میں ٹک نہیں پاتے ۔ وہ افسانہ جو قاری کے ذہن میں ہلچل مچائے ، اُسے ذہنی جدوجہد کرنے پر مجبور کرے اور افسانے کے مفہوم تک پہنچنے کے لیے دیر تک سوچنا پڑے ، ایسے افسانے ہی قاری کے ذہن میں نہ مٹنے والے نقوش چھوڑ سکتے ہیں ۔ مشتاق مہدی کے اکثر افسانے قاری کے ذہن پر نہ مٹنے والے نقوش چھوڑ نے میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔
افسانہ ’’ تخلیق کے آنسو‘‘ میں جس طرح سے مشتاق مہدی نے علامت کا استعمال کیا ہے ، وہ نہایت ہی لاجواب ہے۔یہ ایک ایسا افسانہ ہے جس کے مفہوم تک پہنچنے کے لیے قاری دیر تک گہری سوچ میں گوتے کھاتا ہے ۔ اس بات کو مدلل سمجھنے کے لیے ہمیں اس افسانے کی کہانی سے واقف ہونا ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ اس افسانے کی شروعات میں تیز مغربی ہوائیں ایک بڑے پہاڑ کی اونچی چوٹی پر پڑے ایک پتھر کو اپنی زد میں لے لیتی ہیں ۔ یہ پتھر لڑک کر نیچے شہر کی ایک بڑی سڑک پر ٹھہرتا ہے ۔ اپنی بے ڈھنگی صورت کی وجہ سے یہ پتھر لوگوں کے لیے ایک تماشا بن جاتا ہے ۔ کچھ دنوں بعد ایک سنگ تراش کا وہاں سے گذر ہوتا ہے ۔ اس کی نظریں پتھر پڑیں اور وہ پتھر کو اپنے ساتھ گھر لے آیا ۔ سنگ تراش نے دن رات محنت کرکے اس پتھر کو ایک خوبصورت مجسمے میں تبدیل کر دیا اور پھر سنگ تراش نے اس مجسمے کو وہیں سڑک پر رکھ دیا ، جہاں سے لایا تھا ۔ اس مجسمے کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی ۔ اسی بھیڑ میں سے ایک سوداگر نے اس حسین مجسمے کو خرید لیا ۔ اس کے فوراً بعد سنگ تراش کے سینے میں درد کی ایک ٹیس سی اٹھی اور جب وہ گھر پہنچا تو اسے سخت مایوسی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا ۔ اس افسانے پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ افسانہ جدیدیت کے عہد کا ہے ۔ مگر جدیدیت کا رحجان ابھی ختم بھی نہیں ہوا ہے ۔ یہ افسانہ علامت اور ابہام سے لبریز ضرور ہے مگر اتنا بھی نہیں کہ قاری مفہوم تک پہنچ نہ پائے ۔ افسانے کے اختتام پر یہی علامت اور ابہام قاری کو مزہ دے جاتے ہیں ۔ اس افسانے کے مفہوم تک پہنچنے کے لیے قاری جو عمل اختیار کرتا ہے ، اس میں بھی ایک عجیب سی دلکشی ہے ۔ افسانہ ’’ دیوتا ‘‘ اور’’ شکر بابا‘‘میں بھی ان کا علامتی انداز ہمیں تفریح کی کیفیت میں گم کر دیتا ہے ۔
مشتاق مہدی کے افسانوںکی ایک بڑی خوبی کہانی پن ہے ۔ اگرچہ ان کے افسانے جدیدیت کا رنگ رکھتے ہیں مگر تجریدی پن کا کہیں کوئی شبہ نہیں ہوتا ۔ کہانی ان کے افسانوں کی روح ہے ۔ ان کو کہانی بُننے کا فن خوب آتا ہے ۔ وہ اپنے افسانوی مجموعے’’ آنگن میں وہ ‘‘ میں شامل ’پہلی بات ‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’ اسلوب بہر حال کوئی بھی ہو افسانے میں کہانی پن کا ہونا زندہ آدمی میں سانس کی طرح لازمی اور ضروری ہے ۔ میرا خیال ہے کہانی کہنے (لکھنے) کا کوئی بھی اسلوب حتمی اور آخری نہیں ہے ۔ ‘‘
( آنگن میں وہ ، مشتاق مہدی ، ص ۸ )
ان کے اسلوب کے حوالے سے ہم بات کرچکے ہیں ۔ یہاں کہانی پن پر بات ہو رہی ہے ۔ مذکورہ حوالہ میں مشتاق مہدی کا کہانی کے تئیں نظریہ ہم جان سکتے ہیں اور واقعی کہانی افسانے کی روح ہے ۔ اگر کوئی بھی افسانہ کہانی سے محروم رہ جائے گا تو اس میں خودبخود ابہام جنم لے لیتا ہے ۔ یہ ابہام قاری کی دلچسپی کو پوری طرح سے ختم کر دیتا ہے ۔ قاری کو دلچسپی اور تجسس سے جوڑنے کے لیے افسانے میں کہانی پن کا ہونا لازمی ہے ۔ مشتاق مہدی نے اپنے تمام افسانوں میں کہانی کو اہمیت دی ہے ۔ فنی اعتبار سے افسانے کی کہانی باقی اصناف کے مقابلے کافی حد تک مختلف ہوتی ہے ۔ اور ہمارے اکثر افسانہ نگار اس فرق کو واضح نہیں کر پاتے مگر مشتاق مہدی کے یہاں یہ فرق بالکل واضح ہے ۔ انھوں نے شروع سے آخر تک کہانی کے ساتھ انصاف کیا ہے ۔
مشتاق مہدی کے ا فسانے ادبی دائرے کا لحاظ رکھتے ہیں ۔ انھوں نے حقائق کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا مگر ادبی رنگ برقرار رہا ۔ موجودہ دور کے زیادہ تر افسانے حقائق کے اتنے قریب ہیں کہ حقیقی واقعے اور افسانے میں فرق کر پانا مشکل ہوجاتا ہے ۔ مشتاق مہدی کے اکثر افسانوں پر داستانوی رنگ چھایا نظر آتا ہے ۔ مگر یہ رنگ اتنا گہرا نہیں ہے کہ قاری کا ذہن موضوع کی تہہ تک نہ پہنچ پائے ۔ داستانوی اسلوب کے حوالے سے افسانہ ’’ مندر کے اندر رقص‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
مندر کے اندر کی چار دیواری میں بڑی پر اسرار خاموشی چھائی ہوئی تھی ،چاروں اور رینگتے بھاگتے ہوئے سائے ۔۔۔ جو دکھائی نہیں دیتے۔۔۔
صرف ان کی آہٹیں ، آہیں ، اس کے کانوں میں گونجتی جار رہی تھیں۔۔۔
’’ میں کہاں پر ہوں ۔۔۔ ؟‘‘
وہ اچانک خود سے سوال کرتا ہے
بت مسکرا دیتے ہیں ۔
’’ ہمیں پہچان لو ۔۔۔ ‘‘
( آنگن میں وہ ، مشتاق مہدی ، ص ۶۵ )
یہی اسلوب ان کے اکثر افسانوں میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اور اسی اسلوب کے سبب ان کے افسانے جاندار بن جاتے ہیں ۔
جہاں تک موضوعات کی بات ہے تو مشتاق مہدی کے افسانے ہمارے سماج سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ان کا ہر افسانہ ہماری دنیا اور سماج کے واقعات بیان کرتا ہے ۔ لیکن ان واقعات کو اس ہنرمندی سے افسانے کے سانچے میں ڈالا ہے کہ تفریح کا پہلو بھی نمایاں ہوجاتا ہے ۔ سماج کے فرسودہ اصول، تلے دبے ہوئے لوگ ، پرانی اور نئی نسل کا ٹکرائو، بدلتا ہوا سماج ، ٹوٹتے بکھرتے رشتے ، بے قدری ، مغربی کلچر کا پھیلائو ، عشق و محبت کے بعد جدائی ، خواتین کی لاچاری اور ناقدری ، احساس کا خاتمہ ، بدلتی ہوئی انسانی فطرت وغیرہ ان کے افسانوں کے موضوعات ہیں ۔ مشتاق مہدی اپنے عہد کے منفرد افسانہ نگار ہیں ۔ انہیں موضوعات تلاش کرنے کے لیے بہت دور نہیں جانا پڑتا ، ان کے سامنے بے شمار مسائل بکھرے ہوئے ہیں ۔ افسانہ ’’بزدل ‘‘ اسلم نامی ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جو کافی غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے ۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر بن جاتا ہے ۔ اس کی شادی ایک امیرانہ خاندان میں ہوتی ہے اور اس شادی سے اس کی زندگی ہی بدل جاتی ہے ۔ اس کی بیوی زرینہ نہایت ہی آزاد خیال عورت ہے جس کا رہن سہن کسی شہزادی سے کم نہ تھا ۔ اسلم اپنے گھر کو چھوڑ کر اُسی خاندان میں رہنے لگتا ہے ۔ یہاں رہ رہ کر اس کے اندر بزدلی کا جذبہ بھر جاتا ہے ۔ یہ بزدلی شاید اس وجہ سے بھی تھی کہ وہ زرینہ سے بے انتہا پیار کرنے لگ گیا تھا ۔ وہ زرینہ کی خامیاں دیکھ کر بھی خاموش رہ جاتا کہ کہیں زرینہ کو برا نہ لگ جائے ۔ ایک طرح سے وہ غلام سا بن گیا تھا ۔ آہستہ آہستہ یہ بزدلی اس کے ضمیر کا گلا گھونٹ دیتی ہے اور پھر وہ دن بھی آیا جب اسلم کا باپ ، بھائی اور بھابھی اس کی بچی کو دیکھنے آئے ۔ اتفاقاً اسی دن یہاں پارٹی ہو رہی تھی ۔ بھری محفل میں اسلم کے گھروالوں کو رسوا کیا گیا ، اس رسوائی سے شرمندہ ہوکر وہ واپس لوٹ آئے ۔ یہ سب اسلم کے سامنے ہوا مگر وہ سوسائٹی کے خلاف بغاوت نہیں کر پایا ۔ کیوں کہ وہ حد درجہ بزدل ہوگیا تھا ۔ اس پورے افسانے میں اسلم زرینہ کی خطائوں کو نظر انداز کرتا رہتا ہے ۔ اسے غلطی کا احساس ضرور ہے مگر اس کے خلاف بولنے کی ہمت نہیں جٹا پاتا۔ مصنف نے اسلم کی نفسیات کی بھی بہترین عکاسی کی ہے ۔ اس حوالے سے افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو :
’’ وہ اپنے آپ کو کوسنے لگتا ہے ۔ آخر وہ مرد ہے ۔ اپنی بیوی پر اس کے کچھ اختیارات ہیں ۔ وہ اپنی بیوی کو سمجھا سکتا ہے ۔ شراب پینے سے باز رکھ سکتا ہے ۔ پارٹیوں میں جانے پر پابندی لگا سکتا ہے ۔۔۔۔ لیکن نہیں ۔ اس کے اختیار میں کچھ بھی نہ تھا ۔ وہ زرینہ پر کوئی بھی پابندی نہیں لگا سکتا تھا ۔ وہ بے بس تھا ۔ ‘‘
( آنگن میں وہ ، مشتاق مہدی ، ص ۲۷)
اس افسانے کو ہم مرتے ہوئے ضمیر کے ساتھ بھی جوڑ سکتے ہیں ، بزدلی اور طبقاتی کشمکش بھی اس افسانے کے موضوعات ہوسکتے ہیں ، غریب اور امیر طبقے کا آپسی ٹکرائو اس افسانے کا ماحول بناتاہے ۔ افسانہ ’’ بزدل ‘‘ کا بنیادی موضوع کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر اس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ہمیں کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ یہی مشتاق مہدی کے افسانوں کی خوبی ہے ۔ اسی طرح ان کے باقی افسانے بھی کئی اہم مسائل سے پردہ ہٹاتے ہیں ۔
مشتاق مہدی کا افسانوی سفر ابھی جاری ہے ۔ قارئین کو ان کے افسانوں تک پہنچنا چاہئے کیوں کہ وہ ہمارا وقت ضائع نہیں کرتے ۔ایک اچھے فن کارکی تخلیقات کا مطالعہ کرنا ایک بہترین قاری کی نشانی ہے ۔
���
پی ایچ ، ڈی اسکالر ، دہلی یونی ورسٹی
پونچھ ، جموں و کشمیر ،موبائل نمبر؛7006909305