عائشہ جلال کی تصنیف (The Sole Spokesman: واحد ترجمان) قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں ایک معتبر کتاب مانی جاتی ہے۔موصوفہ ایک پاکستانی نژاد خاتون ہیں جو امریکہ کی مشہور و معروف یونیورسٹیوں میں عرصہ دراز سے درس و تدریس کے فرائض انجام دی رہی ہیں جن میں ہاروڑ (Harvard) و کولمبیا ( Columbia) جیسی دانشگاہیں شامل ہیں۔ آج کل وہ امریکہ کی ہی ٹفٹس(Tufts) یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر ہیں۔اُنہوں نے انگلستان کی کیمبرج (Cambridge) یونیورسٹی کے ٹرینٹی (Trinity) کالج اور امریکہ کے ولسلی (Wellesley) کالج سے تعلیم پائی ہے۔ 1998ء میں اُنہیں مک آرتھر (MacArthur) فیلو شپ (Fellowship) سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز اُنہیں اُن کے کام میں بنیادی نظریات اور تخلیقی کام میں انتھک لگن کی وجہ سے حاصل ہوا۔ عائشہ جلال اُردو ادب کی جلیل القدر ہستی سعادت حسن منٹو کی قریبی رشتہ دار بھی ہیں۔سعادت حسن منٹو کشمیری نژاد تھے اور اِس ناطے سے مصنفہ کا کشمیر سے بھی ناطہ بنتا ہے۔سعادت حسن منٹو کی زندگی اور اُن کے ادبی کام کے بارے میں اُنہوں نے ایک کتاب رقم کی ہوئی ہے جن میں اُن کی تصانیف کا روشن خیالی کے زمرے میں جائزہ لیا گیا ہے۔
(The Sole Spokesman: واحد ترجمان)گر چہ اُنکی معروف ترین تصنیف ہے لیکن اِس کے علاوہ بھی وہ کئی ایک تصانیف کی مصنفہ ہیں۔ موصوفہ کے قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں اپنے تاثرات ہیں اور تقسم ہند پر بھی اُنکی اپنی ایک سوچ ہے جسے تاریخی حلقوں میں قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے۔تقسیم ہند پہ اُنہوں نے 2011ء میں پرنسٹن (Princeton) یونیورسٹی میںسلسلہ وار لیکچروں میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ کتابی شکل میں (The Pity of Partition) کے عنواں سے شائع ہو چکی ہیں۔عنواں کا معنی و مفہوم یہی ہے کہ تقسیم میں ترسانے والی کیفیت تھی۔ حال ہی میں عائشہ جلال نے لاہور کی ایک دانشگاہ کے تاریخ کے اسٹنٹ پروفیسر علی عثمان قاسمی کو ایک طویل انٹرویو دیا جن میں اُنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح اور تقسیم ہند کے حوالے سے اپنے تاثرات ظاہر کئے جو کہ اُن کے طویل تاریخی مطالعے کا نچوڑ ہے ۔یہ طویل انٹرویو پاکستان کے انگریزی اخبارـ’ڈان (Dawn)‘ میں حال ہی میں شائع ہواجبکہ اُس کی پہلی مطبوعاتی اشاعت مجلہ ’ہیرالڈ (Herald)‘ کے جون 2015 ء کے شمارے میں ہوئی تھی۔ اِس انٹرویو کو قائد اعظم محمد علی جناح کا ایک عمیق شخصیاتی تجزیہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہو گاثانیاََ عائشہ جلال نے تاریخ بر صغیر کے حساس ترین نکات کو جس پیرائے میں بیاں کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ موصوفہ کی ہر رائے واظہار خیال سے اتفاق کیا جائے البتہ اُنکے تجزیے میں گہری تحقیق کا عنصر نمایاں ہے جس کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاست کا محور ایک عام تجزیے میں ہندوستان کے اندر مسلمین کے حقوق کا تحفظ تھا جس نے انجام کار ایک علحیدہ ملک پاکستان کی شکل اختیار کی ۔پاکستان کا وجود ایک تاریخی حقیقت ہے لیکن اب بھی یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا واقعی اُن کی صوابدید میں مسلمین ہند کے حقوق کا تحفظ ایک علحیدہ ملک ہی تھایا اُس کی کوئی اور صورت بھی ہو سکتی تھی؟ عائشہ جلال اپنی ایک اور تصنیف بعنوان (Self and Sovereignty)جسے تشخص وسرداری کہا جا سکتا ہے میں تشخص مسلمین کو برطانوی ہند میںتلاش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
(The Sole Spokesman: واحد ترجمان)میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں بنیادی دلیل یہ ہے کہ وہ تقسیم کی اُس شکل کے حق میں نہیں تھے جو منظر عام پہ آئی یعنی وہ پنجاب و بنگال کے بیچوں بیچ لائن کھنچنے کے حق میں نہیں تھے چناچہ جب بنگال کو تقسیم کرنے کی بات منظر عام پہ آئی تو اُنہوں نے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ بنگال متحدہ رہے۔ علی عثمان قاسمی عائشہ جلال سے یہ پوچھتے ہیں کہ قائد اعظم کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ وہ سیکولر تھے جبکہ تحریک پاکستان میں اسلامی عنصر نمایاں تھا۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قائد اعظم خود بھی اسلامی تھے اور اسلامی مملکت کے حامی بھی تھے۔ عائشہ جلال جواب میں یہ کہتی ہیں کہ ’’تحریک پاکستان ایک سیاسی تحریک تھی اور جہاں تک ایک اسلامی مملکت کا تعلق ہے تو یہ ایک الگ بحث ہے ‘‘۔سوال در جواب کے زمرے میں عائشہ جلال یہ سوال کرتی نظر آتی ہیں کہ ــ’’آپ کس اسلامی مملکت کی بات کر رہے ہیں ۔کیا آپ کی مراد ایک ایسی اسلامی مملکت ہے جوملاؤں کی سر براہی میں ہو‘‘؟ عائشہ جلال کا کہنا ہے کہ ’’ایسا جناح کے ذہن میں نہیں تھا۔جب نواب بہادر یار جنگ نے 1943ء نے اُن سے یہ کہا کہ وہ ایک اسلامی مملکت کے وعدہ بند رہیں تو جناح نے مزاحمت کی اور یہ کہا کہ پاکستان کا آئین اُس کے عوامی نمائندوں کی مرضی سے بنے گا اور وہی ہو گا جو لوگ چاہیں گے‘‘۔
عائشہ جلال نے اپنے نظریات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ لوگ محمد علی جناح کے شخصیاتی تجزیے میں غلطی کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ وہ تاریخ کے اِس عظیم انسان کو اُن کی شخصیت کے دائرے میں پرکھتے ہیںجب کہ اُن کے دائرے کار کو نہیں جانچا جاتا بہ معنی دیگر اُس پیرائے کو نہیں جانچا جاتا جس میں اُنہیں کام کرنا پڑا ۔موصوفہ شاید یہ کہنا چاہتی ہے کہ قائد اعظم کا جو بھی اقدام ہوتا تھا وہ حالات و واقعات کے پس منظر اور پیش منظر کے امکانات کو مد نظر رکھتے ہوئے اٹھایا جاتا تھا۔ موصوفہ کے تجزیے کو مد نظر رکھ کے کہا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم سوچ کا محور اُن کی اپنی ذات نہیں تھی بلکہ وہ وقت و حالات کے تقاضے کی مطابق عمل کرتے تھے۔عائشہ جلال کا کہنا ہے کہ یہ بات اُنہوںنے بار بار ہر جگہ دہرئی ہے کہ ’’ جناح تاریخ ساز تھے اور اُنہوں نے خاصی تاریخ تخلیق کی ۔اُنکا عمل مسلمین ہند کو ایک علحیدہ مذہبی فرقہ منوانے سے متعلق تھا حالانکہ نہ ہی وہ متحد نہ ہی منظم تھے‘‘ ۔
علی عثمان قاسمی عائشہ جلال سے پوچھتے ہیں کہ کیا جناح نے ایک اقلیت کوقوم بنایا ؟ عائشہ جلال کا کہنا ہے ’’ہاںاور وہ اِس سے زیادہ بھی بہت کچھ کرنا چاہتے تھے ۔جناح کا تعلق ایک ایسے صوبے سے تھا جہاں مسلمین اقلیت میںتھے اور مسلم اکثریتی صوبوں کی قوت اُن صوبوں کے تحفظ کیلئے بحثیت ڈھال استعمال کرنا چاہتے تھے جہاںمسلمین اقلیت میں تھے ۔مسلم اکثریتی صوبے جن سے پاکستان کی تشکیل ہوئی مسلم اقلیتی صوبوں کے تحفظ کیلئے ڈھال بن جائیں کانگریس کیلئے قابل قبول نہیں تھا چناچہ اُن کے لئے آساں تر یہی رہا کہ تقسیم ہو اور اُن علاقوں کو جانے دیا جائے‘‘ قارئین یہ ذہن نشین کر لیں کی ہندوستان میں پنجاب،بنگال، سندھ ،صوبہ سرحد بلوچستان سمیت مسلم اکثریتی صوبے تھے جبکہ باقی صوبوں میں مسلمین اقلیت میں تھے۔قائد اعظم جناح بمبئی (ممبئی) کے رہنے والے تھے جو کہ ایک مسلم اقلیتی صوبہ تھا۔کئی حلقوں میں یہ سوال بھی در پیش رہتا ہے کہ قائد اعظم نے اپنا پاکستان تو بنا لیا لیکن بھارت میں رہنے والے مسلمین کے تحفظ کا اُنہیں خیال نہیں رہا۔عائشہ جلال کے بھر پور تجزیے کے بعد جس میں اُن کی تاریخی تحقیق کا عنصر غالب ہے اِس ابہام میں مبتلا ہونا کہ بھارت کے مسلمین کو قائد اعظم نے پاکستان بنوا کے غیر محفوظ کر دیا غیر حقیقی ہو گا۔
عائشہ جلال کے علاوہ کئی ایسے محقق ہیں جن کی تصانیف میں یہ ذکر آیا ہے کہ محمد علی جناح ایک ایسے متحدہ ہندوستان میں رہنے کیلئے تیار تھے جہاں ایک فیڈرل سسٹم میں صوبوں کو اندرونی خود مختاری حاصل رہتی۔تاریخ گواہ ہے کہ برطانوی کیبنٹ مشن نے جو صوبوں کی گروپ بندی کی تجویز پیش کی وہ مسلم لیگ نے قبول کی تھی۔کیبنٹ مشن کی سر براہی پیتھک لارنس کر رہے تھے اور جن میں اُن کے علاوہ سر سٹیفورڑ کرپس اور اے وی الیک زنڈرشامل تھے۔گروپ بندی اے بی سی( (ABC)فارمولے پہ کی گئی جس میں اے (A)میں ہندوستان کے ہندو اکثریتی علاقے تھے( بی:B) میں ہندوستان کے شمال مغرب کی مسلم اکثریتی ریاستیںاور سی (C) میں ہندوستان کے مشرق میں بنگال جیسی مسلم اکثریتی ریاستیںشامل تھیں۔یہ تینوں گروپ ایک فیڈرل ڈھانچے میں متحد البتہ اِس میں فیڈرل حکومت کے پاس محدود اختیارات رہتے۔10جولائی 1946ء کے روز پنڈت جواہر لال نہرو نے بمبئی میں ایک بیاں میں یہ کہا کہ آئین ساز اسمبلی میں اِس فارمولے پہ نظر ثانی ہو سکتی ہے۔اِس بیاں کے بعد قائد اعظم نے 16آگست1946ء کیلئے ایک ڈائرکٹ ایکشن کال دی جس کا مدعا و مفہوم یہی تھا کہ کہ تقسیم سے کم کوئی فیصلہ منظور نہیں ہو گا لیکن وہ پنجاب و بنگال کو متحد دیکھنا چاہتے تھے۔عائشہ جلال کا کہنا ہے کہ قائد اعظم کے خیال میں کلکتہ کے بغیر بنگال بے معنی تھااِس حقیقت کے متراوف جہاں کسی شخص سے کہا جائے کہ تم دل کے بغیر رہو!
عائشہ جلال کے نظریے کی جسونت سنگھ کی قائد اعظم کے بارے میں رقم شدہ تصنیف میں بھی تائید نظر آتی ہے۔ بنگال اور پنجاب میں علاقائی تنظیموں کا زور تھا ۔پنجاب میں سرسکندر حیات خان کی یونینسٹ پارٹی کا زور تھا اور بنگال میں فضل الحق چودھری نے ایک علاقائی تنظیم کرشک پرجھا پارٹی تشکیل دی تھی ۔ دونوں پارٹیوں کا نصب العین علاقائی مفادات تھے جبکہ قائد اعظم اِن مسلم اکثریتی صوبوں کے سیاسی وزن کو مسلم اقلیتی صوبوں کے تحفظ کیلئے استعمال میں لانا چاہتے تھے بنابریں قائد اعظم کا سیاسی تحرک دو محازوں پہ رواں تھا ایک تو کانگریس کے خلاف محاز پہ ثانیاََ مسلم اکثریتی صوبوں کی علاقائی لیڈرشپ کو یہ باور کرانا کہ کہ وہ علاقائی مفادات کے بجائے مسلمین ہند کے منجملہ تحفظ کو نظر میں رکھیں۔پنجاب و بنگال کے یہ علاقائی لیڈر تب ہی مسلم لیگ کی گرفت میں آئے جب قائد اعظم کی محبوبیت و مقبولیت اِس قدر بڑھ گئی کہ اُن کیلئے اپنی علحیدہ سیاسی ساخت کو قائم رکھنا مشکل پڑ گیا چناچہ 23مارچ 1940ء کے روز لاہور کے مسلم لیگی اجلاس میں قرارداد پاکستان بنگال کے فضل الحق چودھری نے پیش کی۔اُس سے پہلے 1938ء میں سر سکندر حیات خان کی رہنمائی میں یونینسٹ پارٹی نے کلکتہ کے مسلم لیگی سیشن میں دوہری رکنیت قبول کی یعنی علاقائی سطح پہ یونینسٹ پارٹی کو قائم رکھتے ہوئے اُنہوں نے مسلم لیگ کی ممبرشپ بھی قبول کی۔یونینسٹ پارٹی میں پنجاب کے ہندو و سکھ بھی شامل تھے۔سر چھوٹو رام یونینسٹ پارٹی کے ایک اہم لیڈر تھے۔
علی عثمان قاسمی کے اِس سوال کے جواب میں کہ ایک علاقے یا ایک مملکت کی اکثریت دوسرے علاقے یا دوسری مملکت کی اقلیت کی ضامن بنے کیا ایک یرغمالی کیفیت نہیں ہے عائشہ جلال کہتی ہیں کہ اِسے یرغمالی کیفیت کہنا بیاں کرنے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے البتہ اِسے حقوق کی ضمانت بھی کہا جا سکتا ہے جہاں پاکستان میں غیر مسلمین کی کے حقوق کی ضمانت اِس شرط پہ دی جا سکتی ہے کہ بھارت میں بھی مسلمین کے حقوق کی ضمانت دی جائے۔عائشہ جلال کا ماننا ہے کہ جہاں قائد اعظم ایک متحدہ پنجاب اور بنگال چاہتے تھے وہی وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات امریکہ اور کینڈا جیسے رہیں جہاں سرحدوں پہ بلا روک ٹوک رفت و آمد جاری رہے۔ بہت سارے ایسے بھی تجزیہ نگار ہیں جن کا یہ ماننا ہے کہ قائد اعظم جب تقسیم سے چند دن پہلے دہلی سے کراچی کیلئے روانہ ہوئے تو اُنہوں نے اپنا بمبئی والا بنگلہ جوں کا توں رکھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ شملہ میں اپنے لئے زمین خریدنا چاہتے تھے۔ اُنکے ذہن میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ مڑ کے واپس آنے کے سارے راستے بند ہو چکے ہیں۔
عائشہ جلال کا یہ ماننا ہے کہ مسلمین ہند کے تقاضات کو ایک سیاسی مسلہ سمجھنے کے بجائے ایک نفسیاتی مسلہ سمجھا گیا اور جب مسلمین کی سیاسی اقتدار میں شرکت کی بات منظر عام پہ آئی تو کانگریس نے تقسیم کو قبول کرنے کو اُس پہ ترجیح دی۔ عائشہ جلال کی نظر میں ایک مولانا ابولکلام آزاد تھے جو آخر تک کچھ دو کچھ لو کا راگ الاپتے رہے لیکن اُنکی ان سنی کر دی گئی ۔عائشہ جلال کا کہنا ہے کہ مولانا آزاد کی تصنیف ’انڈیا ونز فریڈم(India Wins Freedom)‘ کے باقیماندہ 30صفحات میں جو کتاب کی اشاعت کے کئی دَہائیوں بعد شائع ہوئے ایسی کوئی قابل ذکر بات نہیں تھی جس کی توقعہ کی جا رہی تھی گو کہ وہ پنڈت نہرو کا تقسیم کا ذمہ وار ماننے کے قریب تر آئے ۔عائشہ جلال شاید یہ کہنا چاہتی ہیں کہ تقسیم کے فیصلے سے پہلے آخری ایام میں پس پردہ کیا ہواوہ مولانا آزاد ہی منظر عام پہ لا سکتے تھے لیکن یہ امید بھر نہیں آئی۔مصنفہ کے نظریہ کا نچوڑ یہی ہے کہ جو پاکستان محمد علی جناح کو ملا وہ اُنکے تصور کا پاکستان نہیں تھا۔
Feedbackon<[email protected]>