آخر ۲۰ اور ۲۱ مئی کی درمیانی رات کو حماس اور اسرائیل دونوں کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان بڑی عجلت اور جلد بازی سے ہوگیا۔ دراصل اس کے لئے لفظ (جنگ بندی) کسی طرح مناسب نہیں لگتا بلکہ اس سے عارضی خاموشی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے کیونکہ جنگ بندی کے لئے بہر حال ایک دستاویز بھی لازمی ہوتی ہے اور اگر عجلت میں دستاویز پر دستخط بھی نہ ہوں تب بھی جنگ بندیاں شرائط سے مشروط ہوتی ہیں اور بین الاقوامی معاہدات کے باوجود کمزور اور طاقت ور کے درمیان کبھی جنگ بندی مستحکم اور پائیدار نہیں رہی ہیں بلکہ طاقت ہر دور میں اپنے لئے خود ہی اپنے قوانین اور اقدار بدلتی رہتی ہے لیکن یہاںدونوں طر ف سے خاموشی کا اعلان ہوتا ہے ۔
ان گیارہ دنوں میں ایک بہت ہی طاقت ور ، مغرور اور ناجائز ریاست محکوم ، مجبور ، لاچار اور ناتواں غزہ پٹی پر ، امریکی و یورپی بھر پور حمایت اور تعاون کے ساتھ حملہ آور ہوجاتی ہے تو ہمیں دل کے بہلانے سے بہتر یہ سمجھنا چاہئے کہ طاقت اور قوت کے لحاظ سے اس کے نتائج کیا ہیں؟ بس یہ فلسطینیوں کا جذبہ شہادت ہے جو انہیں زندگی بخش رہا ہے ۔کمزور ہر سطح اور ہر لحاظ سے نہ صرف پٹتا ہے بلکہ آس پاس کی ساری دنیا بالآخر اسرائیلی اور امریکی طاقت سے مرعوب ’’قوت ‘‘ اور طاقت کے ساتھ چلتی ہے ۔
اس جنگ کی وجوہات اور محرکات پر مجھے کچھ نہیں لکھنا کیونکہ ان گیارہ دنوں میں دنیا کے سارے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا اپنے اپنے نظریات کے ساتھ مسلسل اس پرفوکس کرتے رہے ہیں۔دراصل ۱۹۴۸ سے ہی اسرائیلی تاریخ واضح طور بتادیتی ہے کہ یہ سٹیٹ ،جو یورپی اور امریکی ’’دائیوں ‘‘کی ناجائز اولاد ہے، انہی ماؤوں کے دودھ اور گوشت و خون پر پل کر عفریت کا روپ دھار چکی ہے۔ اب ان سب گاڈ فادرس اور ماوؤں کی اگر چہ اس سے کوئی ضروت نہیں لیکن ’’مفت ہاتھ آئیے تو برا کیا ہے ‘‘ اسرائیل اپنے ان اتحادیوں اور پیار کرنے والوں کا لہو چوستا رہے گا ۔ ۱۹۵۱، ۶۷، ۲۰۱۴ کی بڑی خون ریز جنگوں کے علاوہ مسلسل جنگی صورت حال اسرائیل نے قائم رکھی ہے اور اپنی طاقت کے لئے یورپ اور امریکہ سے ریکارڈ امداد اور فوجی سازو سامان اور ٹیکنالوجی حاصل کرتا رہا ہے ۔اس طاقت اور قوت کے بل بوتے پر آہستہ آہستہ اسرائیلی جنون اس سٹیج کی طرف بڑی تیزی سے گامزن ہوچکا ہے جو وقت کے اختتام کا محرک اور باعث ہوگا۔
نتائج بتارہے ہیں کہ معصوم ، ناتواں اور کمزور ، بچوں ،بوڈھوں ، جوانوں اور عورتوں پر بنا کسی تفریق کے بم و بارود کی بارش ہوتی رہے گی ،یہ روائت رہی ہے اور جب اسرائیلی اہداف ہر جنگ اور تصادم میں پورے ہوتے ہیں تو تھوڑا سا توقف کرنے اور تھوڑا سا وقت دینے کے لئے جنگ بندی یا خاموشی کا اعلان کردیا جاتا ہے جو امریکی منصوبے کے عین مطابق ہوتا ہے ۔امریکہ اب تک بڑی بے شرمی سے ۷۵ سے زیادہ قرار دادیں، جو اسرائیل کے خلاف تھیں ،ویٹو کر چکا ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔ اس دوران نام نہاد مسلم ممالک مذمتی بیانات داغتے رہتے ہیں۔ کچھ یورپی ممالک اور بھارت جنگ بندی کی گذارش کرتے ہیں اور کچھ دوغلے مما لک دونوں ریاستوں سے صبر اور تحمل کی درخواست کرکے قاتل اور مقتول کا فرق کئے بغیر اپنا دامن جھاڈ دیتے ہیں ۔نام نہاد مسلم ممالک کی جماعت او آئی سی ایک قراد داد پاس کرنے کی اجازت بھی امریکہ اور اسرائیل سے ہی حاصل کرکے ’’کاغذی حمایت تک محدود رہتی ہے ، اور کچھ در پردہ اسرائیلی جارحیت کے ساتھ عیش پسند اور امریکی غلام مگر مچھ کے دو آنسو بہاکر مسلم دنیا کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم مسلما نوں اور فلسطین کی حمایت کرتے ہیں۔لیکن یہ بات نوشتہ دیوار ہے کہ ابھی اور بھی بہت سارے مسلم ممالک یہودی ظالم اور دہشت پسند ریاست کو تسلیم کرکے اپنی نگہبانی اور پاسبانی کے لئے اسی سنگ آستاں پر سجدہ ریز ہوں گے ۔ ہر چار، پانچ ،چھ سال کے بعد اس طرح بہت بڑے پیمانے پر بم و بارود سے اس خطے میں بسنے والے فلسطینیوں کو ڈرا دھمکا کر اور جو ڈرتے نہیں انہیں نیپام و میزائلوں سے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے ۔
یہ ایک مسلسل عمل ہے اور یہ عمل متواتر پچھلے ستر برسوں سے اسی طرح ایک ہی منصوبے کے تحت بار بار دوہرایا جاتا رہا ہے اور آگے بھی دہرایا جاتا رہے گا کیونکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہئے کہ اسرائیل اب اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں سے اس سے اپنے اہداف بالکل نزدیک ، سامنے اور اپنی طاقت و ٹیکنالوجی کی بنیاد پر قابل حصول اور آسان نظر آتے ہیں اور آگے ان منازل تک پہنچنے کے لئے اب اس سے کسی ملک کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں لگتی ۔ شیخ جراح، جس محلے کو اس تصادم اور خونریزی کا محرک سمجھا جاتا ہے کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہوئی ہے ۔ ہم تو تاریخ کے کئی مرحلوں میں ستر برس کے دوران دیکھ چکے ہیں کہ اسرائیل نے کبھی اپنے عزائم کو ڈھکے چھپے انداز میں آگے بڑھا نے کی سعی نہیں کی ہے۔جس طرح بھارت میں آر ایس ایس نے کبھی اپنے اصل عزائم کو چھپانے کی ضرور ت نہیں سمجھی ہے ، اسی طرح ڈنکے کی چوٹ پر وہ اپنے ’’گریٹراسرائیل ‘‘ کے نقشے کو ساری دنیا میں نہ صرف پبلک کرتا رہا ہے بلکہ اسی کھلے کھلے انداز میں فلسطینیوں کو اپنی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کرکے ساری دنیا سے یہودیوں کو بلا بلا کر ان میں بسانے کی کوششیں کرتا رہاہے ۔دوئم یہ کہ اسی ڈنکے کی چوٹ پر وہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اللہ کی بر گزیدہ اور اعلیٰ و ارفع قوم کی حیثیت سے دنیا پر حکمرانی کا حق رکھتی ہے اور باقی سبھی کیڑے مکوڑے ہیں جن کی اس زمین پر کوئی ضرورت نہیں ۔ اور تیسری اہم بات یہ کہ( دجال )جھوٹے اور خود ساختہ مسیح کیلئے سٹیج کو سیٹ کرنا بھی اپنے فرائض میں سمجھتا ہے تاکہ یہ قوم آخری دور میں ساری دنیا پر عملی طور پر حکمراں ہو اور بالکل اتنے ہی ڈھیٹ اور کھلے طور پر یہ کہتا رہا کہ ہمیں اپنے خوابوں کی تعبیر تک پہنچنے میں دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔
اسرائیل کا قومی جھنڈا کوئی مخفی راز نہیں جس میں دو نیلی لکیروں کو فرات اور نیل کے درمیان سارے ممالک کو اسرائیلی ریاست سے تعبیر کیا جاتا ہے ) ۔قرآن آل عمران ۶۸اس بات کا اللہ کی طرف سے واضح اعلان ہے کہ ’’یہ قوم کبھی راست روی اختیار کرنے کی طرف گامزن نہیں ہوگی‘‘ اور اپنی انا اور خود پسندی کے خول میں پہلے بھی ہزاروں برس مقید رہی ہے اور اب آخری دن تک اسی بھرم میں مبتلا رہے گی کہ وہ اللہ کی برگذیدہ اور معتبر قوم ہے ، چاہئے ان کے اعمال اور طرز معاشرت دین ابراہیمی کے مخالف اور متضاد ہی کیوں نہ ہو۔
ان تمام باتوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوجاتا ہے کہ اللہ نے ان کے قلوب ، دل و دماغ پر مہر ثبت کی ہے اور ان کی دیکھا دیکھی مسلم ممالک کی بصیرت اور بصارت بھی مقفل ہوچکی ہے تاکہ وہ بھی اس معتوب اور خود سر قوم کے ساتھ ہی اپنے انجام کو پہنچیں جو احادیث میں موجود ہیں کہ یہاں آخری جنگ کے دوران’ سو میں سے نناوے قتل ہوں گے ۔اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گورین نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اسرائیلی عزائم اور ا ہداف کو اپنے ان الفاظ میں منعکس کیا تھا ۔ ’’مستقبل قریب میں واحد عالمی تنظیم(ورلڈ آرڈر )وجود میں آئے گا جو یروشلم کی سربراہی میں ہوگا ، ایک واحد فوج ہوگی اور یروشلم میں اصلی اور حقیقی اقوام متحدہ کا ادارہ ہوگا ‘‘۔یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ اسرائیلی منصوبہ وہی (دجالی ) منصوبہ ہے جس کی پیش گوئیاں احادیث میں شامل ہیں اور بن گورین کا یہ بیان اس جملے کا عکس ہے’’ (مسیحااسرائیل میں ایک حکومت قائم کرے گا جو تمام دنیا کی حکومتوں کا مرکز ہوگی اور تمام غیر یہودی اقوام اس کے ماتحت اور غلام ہوں گے (ایسیاہ ۔۲۔ ۱۲ )) اور اب یہاں آخری جنگ تک کبھی امن اور شانتی نہیں رہے گی ۔
صیہونی سازش کا یہ ایک اہم پہلو ہے کہ انہیں یعنی اسرائیل کو ایک خاص مدت تک کے لئے اپنے آس پاس ایک سیکولر ، کرپٹ ، انسان اور خدا بیزار حکومتوں اور حکمرانوں کا تعاون اور ساتھ چاہئے۔ ایسے حکمرانوں کا اور ایسی حکومتوں کا جو اسلام کا چوغہ زیب تن کئے ہوئے ہوں لیکن اپنے آپ کو اسلام سے جوڑنے میں شرم اور عار محسوس کرتی ہوں اور دوسرے انسانی ازموں ، عرب پین ازم ، عصبیت ، عربی عجمی، یہاں تک کہ فرعونوں کی اولاد ہونے پر فخر کرتے ہوں۔ ایسی سلطنتوں کے ساتھ صیہونی اتحاد اور معاہدات کو کچھ مدت تک نہ صرف قبول کریں گے بلکہ بظاہر یہی ہوگا کہ ان سلطنتوں اور شاہوں کو مکمل یہ گمان رہے گاکہ یہ مادی لحاظ سے ہمارے لئے بہتر ہے اور یہی اسرائیلی ان کی بادشاہتوں کی ضمانت بھی فراہم کر سکتے ہیں۔
اس منصوبے پر ذرا بھی غور کیا جائے تو یہ ان نام نہاد مسلم ممالک اور سرحدوں کی پاسبانی نہیں بلکہ اسرائیل اپنی سرحدوں کے لئے پاسبانی کی گارنٹی لے رہا ہے جب تک اس کا اگلا فیز شروع نہیں ہوتا ۔دجال کا دور جاری ہے اور اب بہت جلد ہی دجال ظہور پزیر ہوگا اور اس طرح احادیث کے مطابق عیسا ابن مریم بھی آسمان سے دو فرشتوں کے ساتھ زمین پر آئیں گے اورحدیث مبار ک کے مطابق صلیب توڑ دیں گے۔خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کا خاتمہ کریں گے (صحیح بخاری )۔اس کے ساتھ ہی اس حدیث مبارک سے یہ پتہ چلتا ہے یا اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کب اتریں گے ۔احادیث کے مطابق یہ وہ دن ہوگا جب بحر گلیلی کا پانی تقریباً یا مکمل طور پر ختم ہو جائے گااور تب تک دنیا کے سارے یہودی فلسطین میں جمع ہوچکے ہوں گے کیونکہ اللہ کی مرضی کے مطابق اس قوم کی فنا پہلے ہی سے ان کے گھمنڈ اور غرور کی وجہ سے طے ہوچکی ہے ۔
������