صحر ا دھوپ سفر سایہ اور منزل دور
سانولے بادل پیاس بڑی ہے مشکل دور
تلواروں کے سائے میں سب ر ات کٹی
اس جانب ہیں سارے ڈاکو قاتل دور
آنکھوں کی ویرانی میں ہیں کیا کیا خواب
خاک اڑی اور بکھری یوں پھر حاصل دور
بیماروںپہ آکے کوئی دم کر لو
علم کے چرچے زُہد و تقویٰ کامل دور
آنکھوں سے ہے ظاہر شدت پیاس کی سب
طاقت ساری فوت ہوئی ہے ساحل دور
یاری بچوں کی چھوٹی ہے آنگن سے
شادؔ کہاں ہے اپنے گھر سے جاہل دور
شادؔ سجاد
عمر کالونی وشبگ پلوامہ
شاہراہ سُنسان ہے ہر اک سڑک سُنسان ہے
تیرے ایک اعلان سے ہر شہر قبرستان ہے
٭٭٭
سیف دین گائے اگر بے سوز تو ہڑتال کر
مولوی صاحب کہے ہر روز تو ہڑتال کر
چوک میں مارے اگر خرگوز تو ہڑتال کر
فوج ویسے بھی ہے کینہ توز تو ہڑتال کر
٭٭٭
دین بھی ہڑتال ہو ایمان بھی ہڑتال ہو
دیکھنا! اپنا وطن ہڑتال سے خوشحال ہو
٭٭٭
دھوپ نکلے گی اگر کچھ تیز، تو ہڑتال کر
سیر پر آئیں اگر انگریز تو ہڑتال کر
اور فلمائے کوئی گُلریز تو ہڑتال کر
چوک میں کھاتے ہوں بچے لیز تو ہڑتال کر
یاد رفتگاں
ہر اک چہرے میں تیرا عکس دکھائی دیتا ہے
دیکھنے لگتا ہوں پر سوچ لیتا ہوں
جو پری وش برا مان گئے تو کیا ہوگا
ہم صنم کو ہی خدا مان گئے تو کیا ہوگا
دیکھنے پر یہ بھی گماں ہوتا ہے
کہیں یہ سرد مہری تو نہیں
اپنا سا منہ لے کے نظر پھیر لیتے ہیں
دل کی بستی کو آلام گھیر لیتے ہیں
کہاں ڈھونڈ وں کہاںتلاش کرلوں
مقدر میں ہے کہ
تجسس میں دردر کی خاک چھانوں
بھری دنیا میں تیرا پتہ کون دے گا
کوئی مونس نہیں کوئی غمخوار نہیں
مادیت کے سبھی پرستار ٹھہرے
ہم ہی آخر تیری یادوں کے وفادار ٹھہرے
دن گزر جاتا ہے تمناوں میں
راتیں سب نالہ و فریاد کرتے
بے خودی میں پیا پیٔ صدا دیتا ہوں
آپ ہی اپنے زخموں کو ہوا دیتا ہوں
صبح آنے پر حسب معمول
قصر خوابوں کے خود ہی مٹا دیتا ہوں
تیرے ملنے کی جو دعاء کرتا ہوں
توغیب سے یہ صدا آتی ہے
جو راہئی ملک عدم ہوتے ہیں
تا قیامت وہ پھر نہ بہم ہوتے ہیں
مرزا ارشاد منیبؔ
رابطہ؛بیروہ بڈ گام کشمیر ، موبائل نمبر؛9906486481