رعونت عقل پہ انساں کی پردہ ڈال دیتی ہے
سب اٹھنے والی آوازوں پہ پہرہ ڈال دیتی ہے
سیاست پھولنے پھلنے نہیں دیتی ہے لوگوں کو
ہمیشہ دوستوں کے دل میں کینہ ڈال دیتی ہے
تمہارے طنزیہ لفظوں سے ہوتا ہے جگر چھلنی
تمہاری بات دل پر زخم گہرا ڈال دیتی ہے
مسائل کے بھنور کو پار کر جاتا ہوں لمحے میں
مری ہمت سمندر میں سفینہ ڈال دیتی ہے
مرے گھر کے ہر اک کھانے کی لذت وازوانی ہے
مری محنت جو روزی میں پسینہ ڈال دیتی ہے
میں جب گھر سے نکلتا ہوں دعا پڑھ کر نکلتا ہوں
مری ماں پھر بھی دس روپے کا صدقہ ڈال دیتی ہے
جہاں جاتا ہوں میں اللہ کی رحمت برستی ہے
مشیت دھوپ میں بادل کا سایہ ڈال دیتی ہے
ڈاکٹر شمس کمال انجم
صدر شعبۂ عربی/ اردو/ اسلامک اسٹڈیز
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر؛9086180380
ازل سے حالتِ زیر و زبر میں رہے
رہے جس حال میں صبر و تشکر میں رہے
بکھر چکے ہیں پارہ ہائے قلب و جگر لیکن
رہے، رہے پھر بھی تیری نظر میں رہے
عتاب برق سے دوچار ہوگئے لیکن
تمام عُمر ہم ترے سایہ شجر میں رہے
عزائم اور دیکھو حوصلہ اپنا
بصورتِ فاتح ہم خشک و تر میں رہے
ستمِ بالائے ستمِ یہ اور اِس پر
قدم پہ قدم کیا سایۂ خنجر میں رہے
عُشاق کشتواڑی ؔ
کشتواڑ، موبائل نمبر؛9697524469
دُشمنوں کی نہ ضرورت ہے ستانے کے لئے
زیست میں دوست ہی کافی ہیں رُلانے کے لئے
تیر ہاتھوں میں تمہارے ہیں چلانے کے لئے
میرا سینہ بھی لو حاضر ہے نشانے کے لئے
یہ شرارت ہے کسی کی یا کسی کا ہے غرور
ہم ترستے ہی رہے ہاتھ ملانے کے لئے
خوب احسان کیا ہے تونے میرے غم خوار
زخم تازہ دئے ہیں درد جگانے کے لئے
اس طرح روٹھ گئے ہیں وہ کہ لگتا ہے مجھے
عمر درکار ہے پھر اُن کو منانے کے لئے
آگ،پانی،ہوا،دن،رات،زمیں ،تارے ،فلک
کوئی سمجھے تو نصیحت ہے زمانے کے لئے
ہم ہی جبّارؔ نہ موجود رہیں گے اس میں، پر
لوگ آتے رہیں گے بزم سجانے کے لئے
عبدالجباربٹ
گوجر نگر ،جموں،موبائل نمبر؛9906185501