غزلیات

دل کو دل کے روبرو کرتے ہیں ہم 
’’شاعری میں گفتگو کرتے ہیں ہم ‘‘
 
چشمِ ساقی کو سبو کرتے ہیں ہم 
میکدے کو سرخرو کرتے ہیں ہم 
 
دامنِ دل تر کُبھو کرتے ہیں ہم 
آنسوؤں کی آبرو کرتے ہیں ہم 
 
دل کے بت خانے سے گرتے ہیں صنم 
خود کو جب بھی قبلہ رو کرتے ہیں ہم 
 
لفظ میں رکھتے ہیں خوشبو کا ہنر 
شاعری کو مُشکبو کرتے ہیں ہم 
 
بولتے ہیں بدزبانوں سے کبھی 
اپنے لہجے کو لہو کرتے ہیں ہم 
 
کیوں نہیں ہوتی دعائیں اب قبول 
خونِ دل سے کیا وضو کرتے ہیں ہم 
 
اشرف عادل ؔ
کشمیر یونیورسٹی 
حضرت بل سرینگر موبائل نمبر؛7780806455
 
 
سُنو ! کچھ دیر دریا کے کنارے بیٹھ جاؤ
بجھائیں پیاس یہ قسمت کے مارے بیٹھ جاؤ
سکوں پا جائیں گی لمحوں میں یہ موجیں تڑپتی
جوچُھو لیں پاؤں یہ نازک تمہارے بیٹھ جاؤ
یہ پنچھی، پُھول، بادل، رنگ، موسم حسرتوں سے
تمہیں ہیں دیکھتے کب سے یہ سارے بیٹھ جاؤ
یہی ہے آرزو لہروں کی شائد آج پھر سے
ملیں تنہائی میں دو دل کنوارے بیٹھ جاؤ
اند ھیری رات میں جگنو یہی کہتے ہیں تم سے
ترے دامن پہ ٹانکیں گے ستارے بیٹھ جاؤ
ملا ئے پھول د و ٹہنی پہ اس نے، دیکھ کر یہ
سمجھ لو ان ہواؤں کے اشارے بیٹھ جاؤ
شفق پھر سے سمانے جھیل کی آغوش میں ہے
دکھاؤں میں تمہیں دلکش نظارے بیٹھ جاؤ
تمہا ر ا لمس پا نے کے لئے بے تا ب ہیں یہ
سبھی ہیں مُلتمس خالی شکارے بیٹھ جاؤ
 تر ا معصُو م چہر ہ رحل سے تکتا ہے مجھ کو
پڑھوں گا رفتہ رفتہ سب سپارے بیٹھ جاؤ
 
پرویز مانوس
رابطہ :آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر،9419463487
 
 
زندگی کی بیل گاڑی کو سہارا دیجیے
رینگتی ہے دھیرے دھیرے اس کو دھکّا دیجیے
شان سے تاکہ چلیں یہ مدرسے احساس کے
اپنے دل کو خوبرو جذبوں کا چندہ دیجیے
دل کا بچہ جارہا ہے عقل کے اسکول میں
لاکے اس کو صبر کا اچھا سا بستہ دیجیے
زندگی اپنی خزاں آلودہ جیسے ہوگئی
آپ اپنی یاد سے تو اس کو مہکا دیجیے
جا رہا ہے دیکھیے وہ میری یادوں کا جہاز
دوستو ہٹ جائیے اور اس کو رستہ دیجیے
عقل کی جو لوگ باتیں کررہے ہیں آج کل
دل کی مجلس میں انہیں کچھ وقت بیٹھا دیجیے
وہ جو صحرا کی طرف پیاسے گئے ہیں لوگ کچھ
فرق صحرا او دریا ان کو سمجھا دیجیے
کھوگئی ہے زندگی میں اس طرح میری شناخت
میرے محسن ڈھونڈھ کر چہرہ مرا لا دیجیے
تاکہ پی کر مست ہوجائیں یہ دیوانے سبھی
اپنی یادوں کا انہیں اے شمسؔ صہبا دیجیے
 
ڈاکٹر شمس کمال انجم
صدر شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری موبائل نمبر؛9086180380
 
 
ستم جب جب بھی وہ برپا کریں گے
اُسے ماتھے پہ ہم لکھا کریں گے
یہی داغِ ستم دھونے کی خاطِر 
دیوانے جان کا سودا کریں گے
لگیں گےڈوبنے جب وہ بھنئور میں
کنارے رہ کے ہم دیکھا کریں گے
حسیں ہو گا نظارا خوب وہ بھی
وہ جِس دم گِر کے پھر سنبھلا کریں گے
اگر موجود محفل میں رہے ہم
بہت سےراز ہم بھی وا کریں گے
کدورت کے چمن میں دیکھنا تُم
وفا کے پھول پھر مہکا کریں گے
یقیں جانو میری یادوں کے چشمے 
تمہاری آنکھ سےپُھوٹا کریں گے
دلِ مضطرؔ سمندر ہو گیا ہے
کریں گر وہ بُرا، اچھا کریں گے
 
 اعجاز الحق
کشتواڑ،
موبائل نمبر؛9419121571
 
 
ہر اِک کی زبان پہ تو مجذوب تھا
نہاں دل میں میرے عشقِ محبوب تھا
دِل کی قسمت میں ایسا ہی مکتوب تھا
دیدتیری نے کردیا مضروب تھا
نظر بھر کے جوں ہی میں نے دیکھا صنم
آپ غالب آئے میں تو مغلوب تھا
ایک مُدّت ہجر میں مجھے ہوگئی
عشق ایسا مجھے نہ تو مطلوب تھا
حُسن تیرا یہ شہرئہ آفاق ہے
گَر یہ فانی نہ ہوتا تو کیا خُوب تھا
اَز رُخِ بے رحم جوں ہی پردہ ہٹا
چہرہ صر صر کا پایا جو مغضوب تھا
ناداروں کی واں نہ رہی آبرو
دور ظلمت کا ایسا ہی سلوب تھا
دورِ سیاست ہیں فائق ستم رانیاں
کوئی جو پیچھا چُھڑاتا نہ معیوب تھا
 
عبدالمجید فائق ادھمپوری
ادھمپور جموں
موبائل نمبر؛9682129775
 
 
 
تاروں کے ساتھ رات بھر ہم جاگتے رہے
دیوانے ایسے ہوگئے کیا چاہتے رہے
 
بے چارگی سے کیسے اُبھرتی یہ زندگی
جب یاد میں تمہاری چلے ڈوبتے رہے
 
جس نے فریب دے دیا مجھ کو حسیں لگا
وہ لے گیا تمام اور ہم دیکھتے رہے
 
بازی گروں نے چھین لی جب سے خوشی مری
پی کے شراب دوست یوں جھومتے رہے
 
ظاہر نہ ہوں زمانے پہ مجبوریاں مری
کتنے دکھوں کو اس طرح ہم ٹالتے رہے
 
قاتل کا کر رہا ہوں میں اب شکریہ سعیدؔ
میری لحد پہ مٹی کیا وہ ڈالتے رہے!
 
سعید احمد سعید
احمد نگر سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛9906355293
 
 
کوئی فسانہ سنائو کہ غم کی رات کٹے
کسی طرح سے ہنسائو کہ غم کی رات کٹے
ہم ایک عمر سے میخانے میں ہیں تشنہ لب
ہمیں شراب پلائو کہ غم کی رات کٹے
ہمارے آگے نہ بیٹھو یوں سر جھکائے ہوئے
"نظر نظر سے ملائو کہ غم کی رات کٹے"
تھیں تلخ ہجر کی راتیں ہےوصل آج مگر
حجاب رخ سے ہٹائو کہ غم کی رات کٹے
کٹی تلاش میں اسکی یہ زندگی ساری
کہیں سے اسکو بلاو کہ غم کی رات کٹے
جو سوئے ہوئے ہیں یہ شبِ غم کے مارے یہاں
انہیں اٹھائو، جگاو کہ غم کی رات کٹے
اُداسی چھائی ہوئی ہے یہاں پہ مدت سے
یہاں پہ حشر مچائو کہ غم کی رات کٹے
اندھیروں سے ہی رہا ہے ہمارا رشتہ میرؔ
 ذرا چراغ بجھاو کہ غم کی رات کٹے
 
میر ثاقب 
دیارو شوپیان، کشمیر
موبائل نمبر؛9596455617
 
 
ہمیں لوگ کیوں کر گدا سوچتے ہیں
مگر یہ حقیقت بجا سوچتے ہیں
ستائش  کریں گی، تمنا کسے ہے
تغافل کریں گے بھلا سوچتے ہیں
رہے فرش سے عرش تک بول بالا
فدا جان من بر خدا، سوچتے ہیں
ہمیں فکر تیری شب و روز رہتی
عجب ہے مگر وہ برا سوچتے ہیں
عداوت سہی ہے مگر دشمنوں سے
کروں کوچ ’’پاشا ؔجیا‘‘ سوچتے ہیں
رہا ڈوب جانے کو کیا پاس میرے
مجھے لوگ مُفلس ، گدا سوچتے ہیں
 ہویں دھڑکنیں کب بتا تیز یاورؔ
بھلا سوچتے ہی فنا سوچتے ہیں
 
یاور حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ، کشمیر
موبائل نمبر؛9622497974
 
 
ارمان کتنے لئے دل میں بیٹھے ہیں
جاناں ہم تری محفل میں بیٹھے ہیں
 
ہے تشنگی اور بے بسی کے سوا کیا
محبت کے صحرائے حاصل میں بیٹھے ہیں
 
رہائی اس سے ہمیں منظور نہ تھی
بند قفصِ ضمِ کاکل میں بیٹھے ہیں
 
امتحان ہوشائد یہ ہمارے صبر کا
انصاف ہوگا ایوان عدل میں بیٹھے ہیں
 
ٹوٹ جائے گا نہ محبت کا بھرم صورتؔ
خانۂ صنمِ سنگ دل میں بیٹھے ہیں
 
صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549
 
 
اس طرح سے مٹ گئی ہستی نہیں ملی
ڈوبنے کے بعد پھر کشتی نہیں ملی
 
درد و غم تقدیر نے دی ہے بہت مگر
زندگی میں دو گھڑی مستی نہیں ملی
 
نفرتوں کا شہر ہم نے ہر جگہ دیکھا مگر
چاہتوں کی ایک بھی  بستی نہیں ملی 
 
آرزو جس کی ہمیں برسوں تلاش تھی
کر کے ہم نے دیکھ لی گشتی نہیں ملی
 
بڑھ گئی ہے مہنگائی اس قدر بازار میں 
چیز کوئی خوشنما ؔ سستی نہیں ملی 
 
خوشنما حیات ایڈوکیٹ 
بلندشہر اُتر پردیش