خوشی یا غم مرے جذبات میں نہیں شامل
کوئی فریب مری بات میں نہیں شامل
بدن کی تیغ پہ اک وصل کی ہے خواہش بس
زبانِ قلب ملاقات میں نہیں شامل
یہ بات بات ہے سطحی یہ گفتگو رسمی
خلوصِ قلب ملاقات میں نہیں شامل
پلادیا ہے کسی اور نے تمہیں اَمرت
یہ زہر میرے خیالات میں نہیں شامل
اُترتی تھیں مرے گاؤں سے شہر کی جانب
وہ برکتیں کہیں برکات میں نہیں شامل
جواب جس کا کئے دیتا ہر معمہ حل
وہی سوال سوالات میں نہیں شامل
جو رہ گئی تری آنکھوں میں اَن کہی عادل ؔ
وہی غزل مری کُلیات میں نہیں شامل
اشرف عادل ؔ
سرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛ 9906540315
دیکھے ہیں دُنیا میں ہم نے ایسے بھی فرزانے لوگ
اوروں کے دُکھ سُکھ میں جاکے دیتے ہیں ہرجانے لوگ
اندھیارے کو اُجلا کرکے چاند ستارے بنتے ہیں
سہتے ہیں اِس دورِ فلک کی سختی بھی مردانے لوگ
بُھوکم کے چند جھٹکوں میں جب دھرتی بوجھ اُگلتی ہے
پلکوں کے جھپکاتے ہی پھر پاتے ہیں غم خانے لوگ
کُڑھتا ہے دل، سچ کی چادر چَھل پر جب چڑھاتے ہیں
تیری میری بستی کے یہ جانے کیوں پہنچانے لوگ
بھیگی رُت کی چَھم چَھم دُھن میں کھوئے سب جب رہتے ہیں
تانے بانے بُنتے بُنتے لکھتے ہیں افسانے لوگ
ربطِ اَدب میں جب بھی ہم نے لُطفِ فنوں کی باتیں کیں
جن سے داد ملی وہ سب تھے اپنوں میں بیگانے لوگ
چھاجاتی جب دُھند کی چادر انسانوں کی بستی میں
ٹیرھے میڑھے رَستوں میں تب پھنستے ہیں انجانے لوگ
مایوسی کی تہہ جمتی ہے قلب و خِرد کے دَرپن پر
سیدھی سادی باتوں پر بھی دیتے ہیں جب طعنے لوگ
سوچوں کی یہ دُوری ہے تو کوئی ہم سے کیوں خوش ہو
کہہ دو سب سے میرؔ کہ ہم جو ٹھہرے ہیں دیوانے لوگ
ڈاکٹر میر حسام الدین
گاندربل کشمیر
موبائل نمبر؛9622729111
وہ ان میں ٹھیک سے جچتا نہیں تھا
امیروں میں کبھی بیٹھا نہیں تھا
سمجھنے کا دکھاتا تھا وہ ناٹک
مگر انگریزی وہ سمجھا نہیں تھا
فقط وہ پینٹ میں اور کوٹ میں تھا
کہ ٹائی باندھنا آیا نہیں تھا
چُھرے کانٹے کی اس محفل میں اس نے
کہ کچھ بھی ٹھیک سے کھایا نہیں تھا
کہ اگلے روز تھی دعوت کہیں پر
تو کلو رات بھر سویا نہیں تھا
پکڑ لی بیوی کے بدلے میں چاچی
کہ اس کو ٹھیک سے دکھتا نہیں تھا
جہاں بھی مفت کی ملتی تھی اس کو
وہ ا ک بوتل سے کم پیتا نہیں تھا
تو جمن مارنے لگتا تھا مکھی
کہ اس کا مال جب بکتا نہیں تھا
ارون شرما صاحب آبادی
پٹیل نگر ،غازی آباد اُتر پردیش
کوئی عالِم ہے مسجد میں بڑی تقریر ہونی ہے
بچھونا اپنے بابا کا بچھاؤں تو چلا جاؤں
عزاخانے میں مجلس ہے عزاداروں کا غلبہ ہے
میں اپنی ماں کے پیروں کو دباؤں تو چلا جاؤں
میرا اک یار غصہ ہے کرے نہ بات وہ مجھ سے
میں گھر میں روٹھے بھائی کو مناؤں تو چلا جاؤں
گلی میں ایک نُکڑ پہ سنیں سب چٹکلے مجھ سے
میں اپنی روتی بہنا کو ہنساؤں تو چلا جاؤں
جہاں بھر کی حسینائیں ملی ہیں گھر سے دفتر تک
گلے سے اپنی بیگم کو لگاؤں تو چلا جاؤں
موالی ہیں کئی بچے محلے میں، پڑھاؤں گا
ادب میں اپنے بچوں کو سکھاؤں تو چلا جاؤں
یہ موسم حج کا ہے لیکن نظر میں اک یتیمہ ہے
میں مہندی اس کے ہاتھوں میں رچاؤں توچلا جاؤں
ہوا بیوی سے جھگڑا ہے پڑوسی نے بلایا ہے
میں پہلے گھر کے شعلوں کو بُجھاؤں تو چلا جاؤں
فلک ؔمالک بلائے تو شرم آئے گی جانے میں
ذرا اعمال کو اپنے سجاؤں تو چلا جاؤں
فلکؔ ریاض
حسینی کالونی چھترگام،کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109
تمہاری یادوں میں آج پھر سے یہ دل ہمارا مچل رہا ہے
مگر ہمارے جگر میں اک اک لہو کا قطرہ بھی جل رہا ہے
چلے ہیں پھر آج ترے سائے ندی کنارے وہ ٹھنڈی آہیں
یہ کون آبِ رواں میں اکثر ہمارے ارماں بدل رہا ہے
ذرا سا وہ تم بھی یاد کرنا دو چہرے جب ایک ہوگئے تھے
تو کیوں زمانہ ابھی سے اُن میں سے ایک چہرہ نگل رہا ہے
ہماری جانب تو دن اندھیرے، تمہاری قسمت میں چاندنی ہے
ہمارا چہرہ اُداس مانندِ کالا بادل اُبل رہا ہے
وہ عاشقی کے نئے ترانے سنائے شمسیؔ سنے زمانہ
ابھی ہمارے قلم سے اکثر وہی فسانہ نہ نکل رہا ہے
شفیع الشمسیؔ
نیو ہائٹس، ہمہامہ سرینگر
موبائل نمبر؛9541413537
یہ کیسا عشق ہے، میں ڈوب کر بھی ابھر آیا؟
کہ جیسے راہ ہستی میں کوئی نقشِ در آیا
میں جلتا ہی رہا شمعِ تمنا کی طرح کتنا
مگر ہر بار تیرے ہجر میں شام و سحر آیا
خودی کو روند کر دیکھو، تو شاید تم سمجھ پاؤ
کہ کیسے ایک دیوانے کے دل میں یہ اثر آیا
آنکھیں تھک گئیں ہر شب ستارے گننے والے کی
یہ قسمت تھی کہ خوابوں میں بھی اک نقشۂ در آیا
میں تیرا ہو چکا ہوں، اب میرا کچھ بھی نہیں ہے
مری ہستی سے آگے بس ترا ذکر و اثر آیا
مجھے دل نے کہا تھا ایک دن رستہ بدل لینا
مگر تقدیر میں لکھا تھا، مجھے تیرا سفر آیا
جہاں والے یہ کہنے پر ہوئے مجبور ہیں عرفاتؔ
کہ اس دنیا میں ایسا عشق کب کوئی بشر آیا؟
وانی عرفات
کچھمولہ ترال پلوامہ،کشمیر
سرخ چشموں کا ایسا منظر ہو
سب ٹھکانوں کا حال بدتر ہو
شہر میں تیرا آنا جانا ہو
شہر میں صرف میرا دفتر ہو
اب پگھلنے نہیں دیا جائے
چاہے ہونٹوں کا رس میسر ہو
تم تو سرشار ہو بدن والے
ہم کو بھی کردے تو برابر ہو
زلف لہرا کے آو مجمعے میں
سب پگھل جائے چاہے پتھر ہو
خواہشیں بڑھ گئی ہیں جانِ جاں
تیری بانہوں میں سونا اکثر ہو
حسن والے نہ دور ہو ہم سے
رقص ایسا ہو سب کا بہتر ہو
مسکرا کے لے اس اذیت کو
تم تو پیشے سے اک سخنور ہو
امان وؔافق
گریز بانڈی پورہ،کشمیر
موبائل نمبر؛6006622656
گئی وہ بھی دل میں تھی جو اِک آس
رہا کیا ہے اب مجھ گدا گر کے پاس
مٹا دے گا اِسے بھی وقتِ گُزراں مگر
میں جیوں کا کیا مَٹنے تلک یہ پیاس
شدتِ غم نے اِسے بے حس بنادیا
دِل میرا اب نہیں ہے پہلے سا حساس
ہوتا تھا کہاں مجھے کسی کے درد کا
گذری جب اپنے دل یہ تو ہوا احساس
کرتا میں کیا جب آیا ہی نہیں کچھ
مجھ کو شعر و شاعری کے سِوا راس
کھڑا ہوں میں اِسی کے دم سے صورتؔ
تری محبت ہے مری زندگی کی اَساس
صورت سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549