اے مری جانِ سخن شمعِ شبستانِ غزل
یہ سراپا ہے ترا یا ہے گلستانِ غزل
اس لئے میں کر رہا ہوں ناز برداری تری
تجھ کو تعریفِ غزل میں لکھا ہے جانِ غزل
رب کی اس نعمت کی یارو قدر دانی کے طفیل
ہوں گے ہم سب اُس جہاں میں بھی اسیرانِ غزل
اس کی لذت کس قدر ہے آخرش جادو اثر
ایک شب میں ہوگئے ہم جاں نثارانِ غزل
ہو رہے ہو خود بھی اس کے کیف سے محظوظ روز
یہ بھی سوچا ہے کبھی تم نے حریفانِ غزل
ہم سے بس امید رکھو پیار کے نغمات کی
ہم ہیں عشاقِ غزل ہم ہیں فدایانِ غزل
شعریت، رومانیت سے ہے بھرا اک ایک انگ
خوبصورت جسم ہے اس کا کہ دیوانِ غزل
تم اگر بچھڑیں تو مر جائے گی میری شاعری
اے مری جاناں تمہیں تو ہو مری جانِ غزل
ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج، بارہ بنکی، یوپی، انڈیا
ساتھ ذرا سا چاہئے ہاتھ بڑھا کے دیجئے
دستِ ہنر میں جان ہے زادِ سفر ہے لیجئے
زخم ہرا بھرا رہے داغِ غلامِ عشق ہے
دردِ جگر کے واسطے کوئی دوا ہی کیجئے
دستِ طلب اٹھائے ہیں صبر وسکوں کے واسطے
ہم نے کہاں صدا یہ دی، ’’غم سے رہائی دیجے‘‘
کارِ طبیب ہے نہیں بس کہ دعائے بے نوا
ہجر گزیدہ تشنہ جاں زہرِ گماں ہی پیجئے
رقصِ خبر سے ماورا عکسِ نظر میں آئینہ
دل سے کہیں کہ یار کے در سے دعائیں لیجئے
بین کریں تو کیا کریں چاک ہوا ہے پیرہن
ایک نگاہ وصل کا ہجر پہ دم تو کیجئے
عمر ہے شیداؔ کاٹنی یوں جو سرابِ دشت میں
تشنہ لبی ہے جاں گسل دیدہ نمی ہے پیجئے
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد، کشمیر
موبائل نمبر؛9419045087
یہ اک دیوار گرنی چاہئے تھی
ہوا کو راہ ملنی چاہئے تھی
یہ شہرِ بے صدا ہے رات بھر بھی
تری آواز کھلنی چاہئے تھی
یہ بادل خیمہ زن کیوں رہ گئے ہیں؟
ہوا ہجرت تو کرنی چاہئے تھی
یہاں سورج بہت دن سے نہیں تھا
یہ شبنم بھی پگھلنی چاہئے تھی
کوئی پتھر تو دریا میں گرا تھا
کہیں تو گونج سننی چاہئے تھی
یہ گلی، یہ مکاں، سب ہی وہیں ہیں
مگر بنیاد گرنی چاہئے تھی
راقمؔ حیدر
حیدریہ کالونی آربل شالیمار ، سرینگر
موبائل نمبر؛9906543569
چار دن کی یہ زندگانی ہے
عشق کرلو ابھی جوانی ہے
دونوں عالم کے ذرے ذرے پر
میرے مولیٰ کی حکمرانی ہے
آج سنتا نہیں کسی کی کوئی
سارے عالم کی یہ کہانی ہے
میں معطر ہوں جس کی خوشبو سے
میری دنیا کی رات رانی ہے
روزِ محشر وہ سرخرو ہوگا
بات جس نے خدا کی مانی ہے
میں زباں ہوں فراقؔ و منشیؔ کی
ساری دنیا مری دوانی ہے
تیری شہرت کودیکھ کر احسنؔ
تیرا دشمن بھی پانی پانی ہے
ازقلم افتخار حسین احسن
بانکا،بھاگل پور، بہار
موبائل نمبر;؛6202288565
دوسرا کوئی اس کا ٹھکانا نہیں
ایک تتلی کو گُل سے اُڑانا نہیں
صرف اونچی دکاں پر ہی جانا نہیں
پھیری والے کو ہرگز بھلانا نہیں
چاہے کاغذ کے گُل ہی سجا لو مگر
اپنی دھرتی میں کانٹے اُگانا نہیں
کوئی تحفہ ہو کتنا ہی سادہ مگر
اس کی قیمت کبھی کم لگانا نہیں
سو جگہ چاہے یہ نام لکھا ہے پر
اک جگہ سے بھی اس کو مٹانا نہیں
کتنی جلدی کہ مجرم اُسے کہہ دیا
اس کی مجبوری کو ہم نے جانا نہیں
ایک بے گھر سبھی سے یہ کہتا رہا
ریت کا بھی گھروندا گرانا نہیں
چند سکوں سے بھی بچے کو لگتا ہے
اس سے بہتر کسی کا خزانہ نہیں
اک نیابیج ہونے سے پہلے یہاں
تم پرانے شجر کو گرانا نہیں
اس جگہ سے زمیں لگ رہی ہے جدا
چاند سے مجھ کو نیچے بُلانا نہیں
چاہے سونے کا ہو یا ہو چاندی کا پر
پھینکے سکے کو ہرگز اٹھانا نہیں
پھیری والے کو کچھ سکے ہی بچتے ہیں
اس کے ساماں کی قیمت گھٹانا نہیں
ارون شرما صاحب آبادی