شوقِ خلوص، جذبۂ ایثار دیکھ کر
مرنے لگا وہ مجھ پہ مرا پیار دیکھ کر
معصوم حسرتوں کا درِ دل پہ تھا ہجوم
کل رات مجھ کو غم میں گرفتار دیکھ کر
لوٹا سفر سے باپ تو حیران رہ گیا
بیٹوں کے درمیاں کھڑی دیوار دیکھ کر
پتھر تو چند میں نے بھی پھینکے تھے اسکی سمت
للچایا میں بھی تھا اسے پھلدار دیکھ کر
بچوں کے میرے پھول سے چہرے اُتر گئے
لوٹا جو خالی ہاتھ میں بازار دیکھ کر
ہر لفظ خون میں تھا نہایا ہوا رفیق ؔ
بھر آئی آنکھ صبح کا اخبار دیکھ کر
رفیق ؔعثمانی
آکولہ ، مہاراشٹرا
موبائل نمبر؛9421755446
دردِ دل کی دوا ڈھونڈتے رہ گئے
چارہ گر کا پتہ ڈھونڈتے رہ گئے
رُت بہاروں کی ہم پر نہ یاور ہوئی
پھول اک خوشنما ڈھونڈتے رہ گئے
اک کرن کے سبب کچھ ہوئے سُرخرو
کچھ تو ماہِ لقا ڈھونڈتے رہ گئے
شہر جلتا رہا بغض کی آگ میں
لوگ دلکش فضا ڈھونڈتے رہ گئے
عمر گزری ہماری اسی حال میں
اک صنم میں خدا ڈھونڈتے رہ گئے
خاک صحرا کی ہم نے بھی چھانی بہت
دو ستوں میں وفا ڈھونڈتے رہ گئے
رقصِ بسمل ہے جاری یہاں چار سُو
ہم تو گوہرؔ شِفا ڈھونڈتے رہ گئے
گوہرؔبانہالی
بانہال، جموں،موبائل نمبر؛9906171211
نخلِ غم سے پھل خوشی کے مل گئے
رنگ سارے زندگی کے مل گئے
لوٹ آئی ہے خزاں رُت میں بہار
پھر اِشارے عاشقی کے مل گئے
مے کدے میں آج دستِ شوق سے
جام کیا کیا آگہی کے مل گئے
اک بہانے سے ملے دو اجنبی
سو بہانے دوستی کے مل گئے
جا بجا اب کے اندھیری رات میں
دیپ روشن روشنی کے مل گئے
آج بزمِ عشق میں شادابؔ کو
کچھ دیوانے شاعری کے مل گئے
شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435
رنج و غم کے اسیر لکھتے ہو
کیوں مجھے اک لکیر لکھتے ہو
ہر طرح بے نظیر لکھتے ہو
یہ بھی کم ہے سفیر لکھتے ہو
سخت حیرت ہے اب بھی وادی کو
جنتِ بے نظیر لکھتے ہو
بھول بیٹھا ہوں اپنی منزل کو
جب سے تم راہ گیر لکھتے ہو
میں ہوں غربت زدہ زمانے میں
پھر بھی مجھ کو امیرلکھتے ہو
بارہا سوچتا ہوں کیوں مجھ کو
مٹتی سی اک لکیر لکھتے ہو
چاہتا ہے ہتاش زلفیں بھی
زلفوں کے جب اسیر لکھتے ہو
پیارے ہتاشؔ
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
بھلا اس حال سے بڑھ کر قیامت اور کیا ہوگی
ہے لرزہ خیز ہر منظر قیامت اور کیا ہوگی
ہزاروں بستیاں جگ میں غذاؤں کو ترستی ہیں
ہوائیں کرتی نالہ سر قیامت اور کیا ہوگی
بلندی بھول بیٹھی ہے کہ خم ایک روز ہونا ہے
جھکاتی ہی نہیں ہے سر، قیامت اور کیا ہوگی
شرر آباد پر کیوں کر سجائی بستیاں ہم نے
رہا نہ موت کا کچھ ڈر قیامت اور کیا ہوگی
کنول کھلنے سے پہلے ہی مسل دیتے ہیں پتھر دل
نہ گھر محفوظ نا دفتر قیامت اور کیا ہوگی
سجایا ہر طرف کس نے تماشہ بے حیائی کا
سمجھتا ہے اسے بہتر قیامت اور کیا ہوگی
سفر پروازؔ لمبا ہے مگر دن مختصر اپنے
ہے کرنا معرِ کہ یہ سر قیامت اور کیا ہوگی
جگدیش ٹھاکر پروازؔ
لوپارہ دچھن،کشتواڑ،موبائل نمبر؛9596644568
غزل
قربتِ یار کَھل رہی ہوگی
وہ ارادہ بدل رہی ہوگی
ایسے خوش فہمیوں کے جنگل میں
اِک غلط فہمی پل رہی ہوگی
مجھ سے ملنے کی آرزو میں وہ
خود سے باہر نکل رہی ہوگی
ہجر کے اس اندھیرے آنگن میں
یاد بن کر وہ جل رہی ہوگی
یادوں کا بوجھ اور تنہائی
وہ ہنسی میں نگل رہی ہوگی
وقت سے ہار مان کر آخر
اب وہ چپ چاپ چل رہی ہوگی
کون جانے کہ کس اندھیرے میں
وہ نظر سے نکل رہی ہوگی
دیکھ کر آئینے میں اپنا ہی بدن
آپ ہی سے وہ جل رہی ہوگی
ہم بھی اب دل کا بوجھ کم کر لیں
وہ بھی شاید سنبھل رہی ہوگی
درد کی دھوپ چھاؤں میں اب وہ
خود سے دوری پہ چل رہی ہوگی
کیا خبر اب وہ موم سی مورت
کس نظر میں پگھل رہی ہوگی
ہم جو خاموش ہیں تو یہ سوچو
کس قدر بات چل رہی ہوگی
دل کے اندر نہ جھانکو اب کہ وہاں
اک تمنا مچل رہی ہوگی
اس تخیل کی خواب سی وہ غزال
شاعری میں غزل رہی ہوگی
اک مسافت ہے جسم و جاں کے بیچ
روح شاید نکل رہی ہوگی
میر شہریارؔ
اننت ناگ،کشمیر
موبائل نمبر؛7780895105
ہزاروں مُشکلیں ہوں منُتظر آساں ہے مرجانا
مُناسب ہے خلشؔ منظر سے اب تیرا اُتر جانا
تقاضائے حدِ خلوت نشینی کیا کہوں یا رب
ہے اب لازم مُقامِ ہُو سے بھی آگے ٹھہر جانا
کبھی مہتاب بن کر تم کسی شب دیکھ لو آکر
تماشا ہے ۓ دمِ شمشیر سے ہوکے گُزر جانا
نکل جانا ہے طے اس جسم سے یہ رُوحِ رنجیدہ
مگر دـشوار ہے پھر رُوح سے کرب و کسر جانا
تھا آساں خاکِ زنداں میں ملے خاکِ بدن میری
نہ تھا آساں رِوایاتِ وفا سے یوں مُکر جانا
ہزاروں بار مر جانے کا باعِث اب سمجھ آیا
جُنونِ دل کا قسطوں میں تہہِ دامن بکھر جانا
میں متروکِ نظر ہوں حضرتِ آدم نہیں ہوں میں
نہیں ممکن ترے کُوچے میں اب بارِ دگر جانا
سجاد سلیمان خلشؔ
اسلام آباد کشمیر
موبائل نمبر؛7889506582
لٹ گیا ہے عشق میں گھر بار میرا
پھر بھی ٹوٹا ہی نہیں پندار میرا
تشنگی کی اور کھائے زخم ہم نے
عشق کا دریا ہے اب لاچار میرا
میں نے ہنس کر زندگی اپنی گزاری
کس نے دیکھا دل کا یہ آزار میرا
چھوٹوں گا کب قید سے تیری مگر میں
دل تری چاہت میں ہے بیمار میرا
کیا گلہ شکوہ جہاں میں ہو کسی سے
کون ہوگا اب یہاں غم خوار میرا
کیسر خان قیس
ٹنگواری بالا ضلع بارہمولہ ، کشمیر
موبائل نمبر؛6006242157
کسی کے واسطے یہ جان پر بھی کھیل جاتی ہے
محبت میں ہمیشہ لڑکی لڑکے کو ہراتی ہے
کہ اپنے دم سے زائید بھی یہ لڑکی دم لگاتی ہے
جو اُس سے اٹھ نہیں پاتا وہ پتھر بھی اٹھاتی ہے
یہ اکثر چھوٹ جاتے ہیں وہ ان کو پھر لگاتی ہے
کہ وہ کچے بھی رنگوں سے یہاں خود کو سجاتی ہے
یہ مفلس باپ کی توہین کو جب دیکھتا ہے تُو
کہ اس معصوم بچے کے یہ دل کو چیر جاتی ہے
کسی نے جس کے چہرے کو جلایا تھا کہ وہ لڑکی
پرانی اپنی تصویریں مجھے اکثر دکھاتی ہے
میرے راجا، میرے سورج، میرے چندا، میرے دیپک
میری دادی مجھے کتنے ہی ناموں سے بلاتی ہے
وہ تو اک چائے کی چھوٹی دکاں پر کام کرتا ہے
کہ ماں رو رو کے جس بچے کو سوتے سے جگاتی ہے
کہ تجھ کو جن کے بارے میں خبر تک بھی نہیں ہوتی
محبت ایسے بھی امراض سے تجھ کو بچاتی ہے
خوشی کی محفلوں میں بھی نہیں جاتا ہے غم اس کا
میرا جو کھو گیا ہے اس کی ہر دم یاد اتی ہے
کہ اس کے واسطے چھوڑا تھا کیا کیا یاد آتے ہی
کسی کی بے وفائی اور بھی مجھ کو رلاتی ہے
ارون شرما صاحب آبادی
[email protected]