کب رہی ہے زندگانی دیر پا اے دوستو
ایک دن ہوکے رہے گی بے وفا اے دوستو
ہاں یہ پہلے پہل یارو گُل کھلائیگی بہت
پھر ہنسا کے دے ہی جائیگی رولا اے دوستو
جسکی خاطر منتظر میں ہوں یہاں پر شوق سے
اضطرابِ عشق کی ہے وہ دوا اے دوستو
داستاں محوِ سفر کی کیا سناؤں میں تمہیں
غم کشاں مجھ سا نہ کوئی پھر ملا اے دوستو
اک تجسُس دل میں لیکن تو بتا اے زندگی؟
اور کتنوں کو کریگی خاک پا اے دوستو!
کارواں کو رفتگاں کی یاد اب آتی نہیں
سب ثقافت کو یہاں حافظ خدا اے دوستو
زندگی کے فیض کو پرواؔز بھی ہے منتظر
پھر مسیحا ئی کرئیگی کب شفا اے دوستو
جگدیش ٹھاکرپروازؔ
دچھن، کشتواڑ،جموں
موبائل نمبر؛9596644568
ہیں کتنے دِل شکن جذبات میرے
کریں گے کیا یہاں جذبات میرے
میں ظاہر میں شگفتہ پھول سا ہوں
مگر ہیں مختلف حالات میرے
یہ راہِ حق ہے مجھ کو دیکھنا ہے
کہاں تک وہ چلیں گے ساتھ میرے
کسی پر جب پڑی کوئی مصیبت
دُعا کو اُٹھ گئے ہیں ہاتھ میرے
وہ رہنے لگ گئے ہیں مجھ سے برہم
کہ سچ ہوتے گئے خدشات میرے
مجھے تسلیم ہے میں دِل شکن ہوں
مگر نہیں تازہ دم جذبات میرے
ہتاشؔ اس کو کہوں تو کیا کہوں میں
وہ دشمن بن گئے بے بات میرے
پیارے ہتاشؔ
دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
موبائل نمبر؛8493853607
شام کتنی میری سہانی ہے
اس میں ڈھلتی تیری جوانی ہے
یہ جہانِ فکر و عمل ہے کیا ؟
اک فسانے کی کچھ کہانی ہے
یادِ رفتہ کو یاد کیا میں نے
جب کہ بات صدیوں پُرانی ہے
کیا کہوں میں داد و دہش تری
لوگ کہتے یہ لن ترانی ہے
نو عُروسِ آرائشِ چمن
چارسو کی یہ گل فشانی ہے
ہر طرف ہے سود و زیاں کا کھیل
جس میں لپٹی میری جوانی ہے
غرقِ آب ہو ناؤ کیوں مری
سامنے پڑی اک روانی ہے
بس یہی ہے مال و متاع جو
میں ہوں اور میری نشانی ہے
یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٗٹ ہندوارہ کپوارہ
[email protected]
نہیں ممکن جو تیرا شاملِ تقدیر ہو جانا
مقرر ہے سفر کا اور بے تدبیر ہو جانا
ہزاروں حالتیں دل کی خلشؔ تحریر ہو جانا
ہے مشکل اب سخن کا اور بھی دلگیر ہو جانا
زباں کا تلخ ہو کر اس طرح شمشیر ہو جانا
ہے آساں اس دلِ بسمل کا اب نخچیر ہو جانا
رسائی تیرے کوچے کی نہیں مشکل مگر ہائے
تری حرمت کا میرے پاؤں کی زنجیر ہوجا نا
نہیں اب میرے حق میں دل مرا تو پھر بھلا کیسے
ہے ممکن میرے حق میں پھر رُخِ تصویر ہو جانا
حیاتِ غم رسیدہ ایک لمبی موت ہے لوگو
قیامت ہے قیامت ہونے میں تاخیر ہو جانا
ہے ظاہر اہلِ محفل پر خلاصہ میری غزلوں کا
کٹھن ہے آبِ دیدہ کی خلِشؔ تفسیر ہو جانا
خلِشؔ
اسلام آباد کشمیر
موبائل نمبر؛7889506582
محبت کے سبھی جذبے وطن سے جوڑ دیتا ہوں
کوئی حق میں نہ ہو اس کے، تو اس کو چھوڑ دیتا ہوں
کھلونے اپنے بچوں کے کبھی لاتا ہوں خوش ہو کر
کبھی غصے میں آ کر ان کو خود بھی توڑ دیتا ہوں
لہو سے اپنے گلشن کی کیا کرتا ہوں سیرابی
ہوا کا رخ جدھر بھی ہو میں اس کو موڑ دیتا ہوں
کوئی مذہب ہو یا فرقہ، کبھی آڑے نہیں آتا
وطن کی پاسبانی کے میں رشتے جوڑ دیتا ہوں
وطن کے پاسبانوں پر فدا ہوتا ہوں میں ہر دم
عدو جب سر اٹھاتا ہے، تو اس کو توڑ دیتا ہوں
جو دشمن ہیں وطن کے ان سے امجدؔ اتنا کہہ دینا
بُری نظروں سے جو دیکھے، تو آنکھیں پھوڑ دیتا ہوں
ڈاکٹر امجد علی بابر پونچھی
پونچھ سٹی، جموں
موبائل نمبر؛9469072127
سدا تم پہ مرنے کو دل چاہتا ہے
یہ جی اپنا بھرنے کو دل چاہتا ہے
نہ اس کے سوا ہے کوئی تو مداوا
تمہی پر تو مرنے کو دل چاہتا ہے
جہاں ہے ٹھکانہ یہ تیرا صنم اب
وہاں گھر بسانے کو دل چاہتا ہے
ترے عشق نے جو کیا حال ہے اب
وہ سب ہی سنانے کو دل چاہتا ہے
ٹھکانہ دکھا اپنا طلحہؔ کو کوئی
ترے پاس آنے کو دل چاہتا ہے
جنید رشید راتھر طلحہؔ
آونورہ شوپیان، کشمیر
کہیں سبزہ ،کہیں شبنم ،کہیں خوشبو نکلے
جس طرف میری نظر جائے اُدھر تُو نکلے
تجھ سے ملنے کی تمنا تو بہت ہے لیکن
تیرے دیدار کا واجب کوئی پہلو نکلے
جب ضرورت تھی ،مجھے اس نے سہارا نہ دیا
کتنے کمزور مرے یار کے بازو نکلے
میری راہوں سے اندھیروں کو سمیٹے گا کون
میں نے سورج جنہیں سمجھا تھا وہ جگنو نکلے
اُن چراغوں کی حفاظت بھی خدارا کرنا
روشنی بانٹنے طوفاں میں جو ہر سُو نکلے
گھر سے نکلا تو پلٹ کر نہیں دیکھا میں نے
جس طرح جھاڑ کے دامن کوئی سادھو نکلے
یہ چمکتا ہے اظہارِ خوشی کا شاید
ہنستے ہنستے جو کرنؔ آنکھوں سے آنسو نکلے
پریم کرن
پٹنہ سٹی ، بہار
موبائل نمبر؛9334317153