برسوں سے رہ رہا ہوں میں وہم و گماں کے بیچ
یعنی کسی ادھوری سی اک داستاں کے بیچ
بے سمت قافلہ ہے گُمراہ راہبر
ششدر ہوں آگیا ہوں میں کس کارواں کے بیچ
میں عکس تیرا ذہن کے شیشے پہ کھینچ لوں
اور اہتمام زیست ہو اب کہکشاں کے بیچ
کشمیر کو تو کہتے ہیں اک خطہء بہشت
زندہ ہیں ہم یہاں مگر آہ و فُغاں کے بیچ
بسملؔ فنا فنا کا ہے اک شور چار سُو
میں کس زمیں کے بیچ ہوں کس آسماں کے بیچ
خورشیدبسمل ؔ
تھنہ منڈی، راجوری، جموں
موبائل نمبر9622045323
کرنی ہے مجھ سے بات تو پھولوں کی بات کر
چُھوتی ہے اُن کے گال جو زلفوں کی بات کر
اُن کی ادائیں، چشم و لب، حُسن و شباب سے
آتی ہیں جو وجود میں غزلوں کی بات کر
ہر بار جو بھی باندھ لے دل کو عجب طرح
وہ مسکراتے ہونٹ، وہ آنکھوں کی بات کر
چاہت کے گیت، پیار کی سرگم ، سرور و شوق
اُن کے لبوں سے نکلیں جو نغموں کی بات کر
پہلو میں جس کے بیٹھ کے دنیا ہی بھول جائے
اے دوست، بس اُسی کے تو سپنوں کی بات کر
ملتا ہے جس کے ھُسن سے معنی حیات کو
رنگیں خیال، خواب اور صدقوں کی بات کر
ان کی نظر کا جادو، وہ خوشبو کا بانکپن
پھرتی ہے جو بھی رات میں خوشبو کی بات کر
دنیا کی تلخیوں سے نہیں کچھ غرض مجھے
دل کو سکوں ملے جو ان لمحوں کی بات کر
گزرے ہوئے دنوں کا کوئی ذکر ہی مت چھیڑ
بس آج کے حسین سے لمحوں کی بات کر
منظر جو یادگار ہیں دل کے قرین میں
طوفان کی بجائے ان جذبوں کی بات کر
چاہت میں جن کے رنگ ہو پھولوں کے نرم سے
بس اُن حسین خواب کے پہلو کی بات کر
پرویز مانوسؔ
آزاد بستی نٹی پورہ سرینگر ،موبائل نمبر؛9622937142
یہ مت پوچھ ہم کیا سے کیا ہو گئے
خطا کار تھے، پارسا ہو گئے
کسی کے لئے ٹھہرے ہم دل شکن
کسی کے لئے دل رُبا ہو گئے
جو دنیا میں تھے کل تلک بد نُما
نظر آج کر خوش نما ہو گئے
فلک جھک کے کرتا ہے جس کو سلام
اُسی آستاں کے گدا ہو گئے
یہ شاہی مبارک تمہیں، دیکھ ہم
غلامِ شہِ لافتیٰ ہو گئے
قلم آج رقصاں ہے قرطاس پر
یہ الفاظ نغمہ سرا ہو گئے
کبھی ذرّے سے ہو گئے آفتاب
کبھی پل میں کالی گٹھا ہو گئے
نبھائی وفا ایسی شادابؔ نے
کہ حیران اہلِ وفا ہو گئے
شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435
رقص کرتی ہیں سرورِ جادواں نظریں تری
ساقیا قاتل ہیں ظالم مے فشاں نظریں تری
یار دیکھا ہی نہیں شاید کسی نے غور سے
دو جہاں میں ہیں بلائے ناگہاں نظریں تری
اضطرابِ عمر جن کو دیکھ کر بڑھنے لگا
پھر تشفّی کر گئی ہیں مہرباں نظریں تری
شوق میرا ہے عبادت روبرو معبود تو
پھر بھی لیتی ہیں مجھی سے امتحاں نظریں تری
ڈوبنے دے مجھ کو ساحل کی ضرورت اب نہیں
بن کے آئی ہیں بھنور میں کہکشاں نظریں تری
اک نظر کا منتظر میں اس لئے دیوانہ ہوں
یار ہونگی کب تلک پھر مہرباں نظریں تری
عزم اپنے بخت کا پروازؔ سب کو مل گیا
خاک اوڑھے اب کھڑی ہیں آسماں نظریں تری
جگدیش ٹھاکر پروازؔ
ساکنہ لوپارہ دچھن ضلع کشتواڑ
موبائل نمبر؛9596644568
نگاہِ یار میں ہم سو گئے ہیں
وجودِ خاک تک ہم کھو گئے ہیں
جہاں تیرا بسیرا تھا مسلسل
وہاں کے لوگ پاگل ہو گئے ہیں
ہمیں پرواہ نہ صدمہ ہے کہ لوگو
وطن کی خاک میں خود سو گئے ہیں
میری حالت فسرده دیکھ کر وہ
پلٹ جانے سے پہلے رو گئے ہیں
زمانے کا جنازہ کیوں نکالیں
وہی کاٹیں گے جو ہم بو گئے ہیں
پکاریں گے شبِ ظلمات میں ہم
انہیں جو خوابِ غفلت سو گئے ہیں
تمہارے شہر کے سارے فسادی!
ستارے نوچ لینے کو گئے ہیں
بہاریں لوٹ کے آئیں گی یاور
مگر ہم شان و شوکت کھو گئے ہیں
گلی کے بام پر چڑھ کر تو دیکھو
وه سورج چاند تارے ہو گئے ہیں
یاور ؔحبیب ڈار
بٹہ کوٹ ہندوارہ، کشمیر
موبائل نمبر؛6005929160
چلتے ہیں سرد ہوا کے دھارے ڈل کے کنارے
تیرتے ہیں یادوں کے شکارے ڈل کے کنارے
جانے کس خوشبو کے سہارے ڈل کے کنارے
کب سے بیٹھے ہے ہجر کے مارے ڈل کے کنارے
تیرے بغیر بھی دیکھتا ہوں میں ساتھ تمہارے
مہکے مہکے سے شام نظارے ڈل کے کنارے
کہکشاں روشنیوں کی جیسے پھیلی ہوئی ہے
آج اُترے ہیں کتنے ستارے ڈل کی کنارے
پانی کی آتی جاتی لہروں پر گنتا ہوں
تجھ سے بچھڑ جانے کے خسارے ڈل کی کنارے
گہرے اور خاموش ان نیلے پانیوں میں آج
محوِ رقص ہیں عکس تمہارے ڈل کے کنارے
کتنے دلکش تھے سارے تمہیں یاد تو ہے ناں
لمحے جو ہم نے ساتھ گزارے ڈل کے کنارے
خواب میں یا کہ حقیقت میں جانے کب تک تھے
میرے ہاتھوں میں ہاتھ تمہارے ڈل کے کنارے
رات کے سناٹوں میں گونجتی ہے تنہائی
جیسے چیخیں کوئی پکارے ڈل کے کنارے
زندگی تھم سی گئی ہوں اک لمحے میں جیسے
مر گئے خواب وہ سارے ہمارے ڈل کے کنارے
اڑتے پرندے، پانی کی لہریں، کنول کی خوشبو
پوچھتے ہیں یہ تمہارے بارے ڈل کے کنارے
دل کے دامن میں رہ گئیں بس یادیں تیری
زندگی سب چھوڑ آئی کنارے ڈل کے کنارے
چاند بھی دیکھو اتر گیا ہے ڈل کے پانی میں
اب اُٹھ چل اپنے گھر پیارے ڈل کے کنارے
میر شہریار
اننت ناگ، کشمیر،موبائل نمبر؛7780895105
وہ مجھ پہ مہربان بہت دیر تک رہا
مجھ کو یہی گمان بہت دیر تک رہا
اے صاحبو! نہ جاؤ مری جھونپڑی پہ تم
میں صاحبِ مکان بہت دیر تک رہا
اب اس کی لاش کیلئے کاندھے بھی کم پڑے
جو ہر کسی کی جان بہت دیر تک رہا
ہاں جان بچ گئی مری لفظوں کے وار سے
دل پرمگر نشان بہت دیر تک رہا
افراد جس کے آج ہیں کاسہ لئے ہوئے
حاکم وہ خاندان بہت دیر تک رہا
رخصت میں کر گیا اُسے اور اُس کے بعد پھر
تکتامیں آسمان بہت دیر تک رہا
دردِ شبِ فراق کا کیا تذکرہ کریں
جاری وہ امتحان بہت دیر تک رہا
دادی توکچھ روایتوں کو ساتھ لے گیئں
پر گھر میں پان دان بہت دیر تک رہا
کوثرؔ اسی نے جان کا سودا کیا تری
جو تیرا جانِ جان بہت دیر تک رہا
سید کوثرؔ بخاری
ریسریچ اسکالر ،شعبہ اردوعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی
چیوڈارہ،بیروہ،بڈگام، کشمیر
موبائل نمبر؛9682645166
کچھ اپنے شرف لکھتا ہوں
ہوا پر حرف لکھتا ہوں
دیا طوفاں میں لکھنا ہے
اَگن پہ برف لکھتا ہوں
بچھاؤں لفظ آسماں پر
کہ میں ہر طرف لکھتا ہوں
میں ان کی یاد میں اپنی
جوانی صرف لکھتا ہوں
بہیں جو یاد میں ان کے
وہ آنسو صدف لکھتا ہوں
خدا جن کو نہیں دکھتا
انہیں کم ظرف لکھتا ہوں
نیا رنگ دوں کہانی کو
ابھی میں عطف لکھتا ہوں
غزل کا تیر ہے پھینکا
تمہیں بس ہدف لکھتا ہوں
فلک ؔکربل کی دھرتی پہ
لہو سے نجف لکھتا ہوں
فلکؔ ریاض
حسینی کالونی چھترگام کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109
اِتنے قَریں ہے
لگتا نہیں ہے
کیسا یقیں ہے
ہاں میں نہیں ہے
کس سے کہیں ہم
کس پر یقیں ہے
اوپر فلک ہے
نیچے زمیں ہے
جائیں کدھر ہم
رستہ نہیں ہے
جیسا دِکھا تھا
ویسا نہیں ہے
محبوب میرا
پردہ نشیں ہے
وہ لڑکی سچ مچ
مہ رُو جبیں ہے
جس جا نہیں تھا
نکلا وہیں ہے
اِن عاشقوں کا
مذہب نہ دیں ہے
کچھ دِن سے اِندرؔ
گوشہ نشیں ہے
اِندرؔ سرازی
پرشولہ، ضلع ڈوڈہ، جموں
موبائل نمبر؛700658731