صبر و فرصت کی بات کرنی ہے
کچھ تو فرقت کی بات کرنی ہے
نفرتوں کے حصار میں آؤ
اک محبت کی بات کرنی ہے
سیڑھیوں سے اتر کے آنگن میں
بارشو، چھت کی بات کرنی ہے
قافلوں سے کہو ٹھہر جائیں
یعنی ہجرت کی بات کرنی ہے
کون جیتا ہے وقت سے بازی
کس کی قسمت کی بات کرنی ہے
پھر وہی وحشتوں کا آئینہ
پھر اَذیت کی بات کرنی ہے
مجھ قلندر سے کیا اُلجھنا یوں
کیا حقیقت کی بات کرنی ہے
اپنا کشمیر ہے علی شیداؔ
ارضِ جنت کی بات کرنی ہے
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد،
موبائل نمبر؛7889677765
دیوارِ خامشی کو گرانے کی دیر تھی
اک تیشۂ صدا کو اُٹھانے کی دیر تھی
سب مصلحت شعار سرِ شام سو گئے
اِک ہم کو شمعِ جان جلانے کی دیر تھی
وہ کون راہبر تھے جنہیں خود میانِ راہ
اپنے ہی قافلوں کو لُٹانے کی دیر تھی
ہم کشتگانِ درد کو ہر جا جہان میں
بارِ غمِ حیات اُٹھانے کی دیر تھی
صد شکر جلد پڑھ لیا تم نے وہ نقشِ دل
پائے خرد سے جس کو مٹانے کی دیر تھی
پھر شش جہت میں پھیلنے امجدؔ لگا دھواں
اک یاد کا چراغ بجھانے کی دیر تھی
امجد اشرف ملہ
شلوت، سمبل سوناواری، بانڈی پورہ
موبائل نمبر؛7889440347
اپنی ہر بات زمانے سے مُبہم رکھتے ہیں
اِس دل میں چُھپائے کیا کیا سِتم رکھتے ہیں
اِک تیری یاد مُرتسّم ہے دل کے نہاں خانے میں
تیری تصویرکو اِن آنکھوں میں چُھپائے ہم رکھتے ہیں
اب نگاہِ شوق سے ہم کو پینے کی عادت ہے ساقیا!
ہم نہ بادہ ، نہ صُراحی ، نہ جامِ جم رکھتے ہیں
عین ممکن ہو کہیں کہ میرے تصّور میں تو سما جائے
اپنے سجدوں میں بسائے ہم دیروحرم رکھتے ہیں
اب کہ خوابوں کے سہارے ہی میں بہلاتا ہوں خود کو
تم کوئی خواب ہو کہ حقیقت ہو بس یہی وہم رکھتے ہیں
شرطِ اوّلین ہے محبّت میں تعظیم و تکریم کا ہونا
تیری عزّت کو جاناں ہم سب سے مُقدم رکھتے ہیں
سب پہ لازم ہے یہ مشتاق ؔآدابِ محبّت بجا لائے
جو تیری چوکھٹ پہ آئے سرِ تسلیمِ خَم رکھتے ہیں
خوشنویس میر مشتاق
ایسو اننت ناگ ، کشمیر
موبائل نمبر:_9682642163
عشق میں یہ ضروری ہے
ہر کہانی ادھُوری ہے
یاد کیسے رہونگا میں
بیچ میں کافی دوری ہے
مت پریشاں ہو اتنا تُو
کیوں کی دوری عبوری ہے
مجھ کو ہر شب رُلاتی ہے
یاد اِک لا شعوری ہے
زندہ رہنے کو تھوڑی سی
بے رُخی بھی ضروری ہے
وصل خوابوں میں ہوتا ہے
کیوں دلوں میں یہ دوری ہے
جو لکھی میں نے ہے تم پر
وہ غزل تو ادھوری ہے
ہجر پر قیسؔ ہنستے ہو
یہ بھلا کوئی دوری ہے
کیسر خان قیس ؔ
ٹنگواری بالا ضلع بارہ مولہ ، کشمیر
موبائل نمبر؛6006242157
میرے زخموں کو یوں بھی ہوا دیتا ہے
تنہا جینے کی مجھ کو دعا دیتا ہے
اس کو غم خواری کا دعویٰ ہے مجھ سے یوں
جیسے بچھڑا کوئی پھر صدا دیتا ہے
دل میں جلتا ہے مشکل سے خوں کا چراغ
وہ مرے دل میں آکر بجھا دیتا ہے
سرمئی چشم ساقی کی سرمست ہے
ایسی قاتل نگہ سے پلا دیتا ہے
پرسکوں باتوں سے دل کے جذباتوں سے
گہرے زخموں پہ مرہم لگا دیتا ہے
میرا خورشید مہ رخ ہے مجھ سے خفا
میرا ہمراؔز مجھ کو سزا دیتا ہے
عاقب اللّٰہ ہمراز
[email protected]>