بامِ اُلفت پر فلک سے آج پھر اُترا ہے چاند
شاد آنکھیں ہوگئی ہیں، سامنے دیکھا ہے چاند
جس کی دلکش چاندنی سے بن گئے انجم ہزار
آج بزمِ عشق میں وہ شوق سے آیا ہے چاند
حُسن و رعنائی میں یکتا، خوبصورت، دل نشیں
کر نظر جیسا تھا پہلے آج بھی ویسا ہے چاند
اس زمیں پر جو مداوا مل سکا نہ درد کا
وہ مداوا آسماں سے ڈھونڈ کر لایا ہے چاند
چشمِ دل سے دیکھتا تھا جس کو اکثر خواب میں
اس سہانی رات میں کیا خوب وہ نکھرا ہے چاند
آج روشن ہے مری قسمت کا تارا ،اس لئے
حُسن کی سوغات لے کر سامنے بیٹھا ہے چاند
یک بیک شادابؔ غم کے سب اندھیرے چُھٹ گئے
روبرو آ دیکھ میرے جلوہ گر پیارا ہے چاند
شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435
خونِ دل ٹپکا مری آنکھوں سے بینائی گئی
ایسے عالم میں تری تصویر دکھلائی گئی
رات بھر قدموں کی آہٹ کان میں آتی رہی
صبح میرے ہاتھ میں زنجیر پہنائی گئی
کر دیا فرہاد نے تیشے سے اپنا سر قلم
بات جھوٹی تھی مگر یہ بات پھیلائی گئی
ظلمتں ہی ظلمتیں تھیں شہر میں چاروں طرف
یوں ہوا پھر چاندنی سے رات نہلائی گئی
میرے حجرے کے دریچے پھر معطر ہو گئے
جب ہوا کے دوش پر خوشبو تری لائی گئی
میں نے کب جاویدؔ چاہی تھی تجلّی طور پر
کیوں مرے سینے میں پھر یہ آگ دہکائی گئی
سردار جاوید خان
مینڈھر، پونچھ، جموں
موبائل نمبر؛ 9419175198
بس تری یادوں میں ہم غرق رہا کرتے ہیں
اس طرح جان ترے بعد جیا کرتے ہیں
یاد آتے نہیں اندازِ ستم اب اُن کے
دل کے زخموں کو چلو پھر سے ہرا کرتے ہیں
پُر سکوں اور یہ خاموش سا من ہے جو مرا
اس میں طوفان بھی رہ رہ کے اٹھا کرتے ہیں
تم بہت سوچ سمجھ کر ہمیں کھونا یارو
ہم جدا ہو کے نہیں پھر سے ملا کرتے ہیں
کتنے انمول گہر ہیں جو مری پلکوں پر
دردِ تنہائی کی ٹیسوں سے سجا کرتے ہیں
انتظاروں کا فقط لوٹتے رہتے ہیں مزہ
ہم کہاں وصل کے چکر میں پڑا کرتے ہیں
جانتے ہیں کہ وہ ہرگز نہیں آنے والا
ایک ٹُک اس کی مگر راہ تکا کرتے ہیں
یہ ہیں مرجھاتے اسی پر ہی وفا تو دیکھو
جس پہ نازک سے حسیں پھول کِھلا کرتے ہیں
حسنِ اخلاق کا میرے ذرا دیکھو تو اَثر
میرے دشمن بھی مرے حق میں دعا کرتے ہیں
اپنی مرضی سے جب اک سانس بھی لے سکتے نہیں
آخرش کس لئے ہم اتنا اُڑا کرتے ہیں
بن گیا عشق ذکیؔ پیار ہمارا کب کا
اس کا ہم جسم نہیں روح چھوا کرتے ہیں
ذکیؔ طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج، بارہ بنکی، یوپی
کتنی پرکیف زندگانی ہے
آپ کی جب سے مہربانی ہے
اشک ڈھلتے ہیں ایسے گالوں پر
گویا شعلوں پہ بہتا پانی ہے
آپ کی ہم سے تھی شناسائی
بات سچ ہے مگر پرانی ہے
حسن پہ ناز مت کرو اتنا
یہ نہ بھولو کہ حسن فانی ہے
چاہے جتنا بھی تم جتن کر لو
جان تو ایک روز جانی ہے
میری آنکھوں میں اشک ہیں لیکن
تیری آنکھوں میں کیسا پانی ہے
سن سکو گے نہ داستانِ رفیق ؔ
یہ بڑی غم زدہ کہانی ہے
رفیقؔ عثمانی
سابق آفس سپرانٹنڈت BSNL
آکولہ، مہاراشٹرا
زلف بکھراکے حسیں شہر میں بلکھاتی پھرے
سر پہ فیشن کا دو پٹا بھی وہ لہراتی پھرے
قدرتی رنگ پہ نو رنگ چڑھانے کے لئے
اک نہیں چار دکانوں پہ نظر آتی پھرے
جب تکے آئینہ وہ عکس بھی ان کو ہی تکے
حسن نکھراجو ذرا اور بھی نکھراتی پھرے
عام تقریب کوبھی خاص بنانے کے لئے
خوش نما چہرہ بناکے وہ تو اِتراتی پھرے
نرم پائوں کی چھمک سے کئی شعلے بھڑکے
آتے جاتے نو جوانوں کو بھی لہکاتی پھرے
ہر گلی کوچے میں ہوتے ہیںحسیں کے چرچے
غیر حاضر میں بھی سپنے یونہی دکھلاتی پھرے
دیکھ پستی سے حسیں چاند بلندی پہ دِکھے
پرچمِ عشق جہاں میں یہی پھہراتی پھرے
شادؔ اب بس بھی کرو کھینچ دو سارے پردے
اِ س کے دم سے ہی یہ دنیا بھی تو اِترا تی پھرے
خطاب عالم شا دؔ
مغربی بنگال
موبائل نمبر؛9339966186
زخم دے کر دوا نہیں کرتا
میں کسی سے وفا نہیں کرتا
چوٹ کھانا مِرا مقدر تھا
اس لئے میں گِلہ نہیں کرتا
چند ہی پھول کھِلتے ہیں ورنہ
باغ سارا کھِلا نہیں کرتا
آپ تو خیر غیر ہیں صاحب
میں تو خود سے وفا نہیں کرتا
آپ تو ابرِ کرْم ہیں مالک
آپ سے اِلتجا نہیں کرتا
جب دُکھوں کا پہاڑ ٹوٹتا ہے
کون ہے؟ جو دُعا نہیں کرتا
جو مِرے دِل میں قید ہو جائے
میں اُسے پھر رِہا نہیں کرتا
عشق ہو یا شراب ہو اِندرؔ
میں کبھی یہ نشہ نہیں کرتا
اِندرؔ سرازی
پرشولہ، ضلع ڈوڈہ، جموں
موبائل نمبر؛7006658731
ای میل؛ [email protected]
گھر گھر میں بیداری رکھ
عقبیٰ کی تیاری رکھ
اوپر والا پھل دے گا
اپنی محنت جاری رکھ
آئیں گے اچھے دن بھی
بس عہدہ سرکاری رکھ
چغلی غیبت مہلک ہیں
’’پاس نہ یہ بیماری رکھ‘‘
چین وسکوں گر چاہیے تو
اپنوں سے ہوشیاری رکھ
وقت مصیبت جو دے ساتھ
بس ان سے ہی یاری رکھ
جو ہے ابھی طفلِ مکتب
بوجھ نہ اس پر بھاری رکھ
میرے نبیؐ کی سنت ہے
احسنؔ تو بھی داڑھی رکھ
افتخار حسین احسن
موبائل نمبر؛ 6202288565
اے دل تو ہنوز محوِ گردش اغیار ہے
پھر کیونکر تجھ میں پیدا انتشار ہے
نظریں آس کی جمائی ہے تم نے کہاں
ذرا دیکھ تو سہی کس کا طلبگار ہے
تمنائی تُو ابھی تک مال و منال کا ہے
دل رعب و سطوت کا خواستگار ہے
کاسئہ قلب ہر سو پھرا رہے ہو نادان
اس در کے سوا کون تیرا مددگار ہے
چاہ ہے تبدل کا طوفان بپا ہو جائے
اے اویسؔ تجھے کس کا انتظار ہے
اویسؔ ابن بشیر قادری
آلوچہ باغ، سرینگر، کشمیر
تم جو آتے تو مے کشی ہوتی
اس طرح تم سے دوستی ہوتی
صبح سے شام تک ستمگر کی
اب نہیں مجھ سے چاکری ہوتی
اشک آنکھوں سے بہہ رہے ہیں مرے
وہ رفاقت بھی دائمی ہوتی
مری بربادی کے جنازے وہ
اپنے کوٹھے سے دیکھتی ہوتی
اپنی اوقات میں ہی رہتا ہوں
ورنہ یہ رات نوچتی ہوتی
کاش وہ فن بھی مجھ کو آ جاتا
مثلِ قندیل زندگی ہوتی
کل اجالے جہاں کو بانٹے تھے
ورنہ آنگن میں روشنی ہوتی
خامشی ہر طرف یہ کہتی ہے
” تم جو آتے بڑی خوشی ہوتی “
اس سے گر لو لگا لئے ہوتے
ایسی حالت نہ قادریؔ ہوتی
سعید قادری
صاحب گنج مظفرپور بہار
موبائل نمبر؛9262934249
قلبِ نازک پر ہیں چوٹ کھائے ہوئے
ہم عصر جب سے میرے پرائے ہوئے
میں نے ویرانوں میں ہے تلاشا اُنہیں
مجھ کو حاصل فقط اُن کے سائے ہوئے
بستی بستی سے واقف وہ تھے خوب تر
راستے اُن کے تھے سب آزمائے ہوئے
گوشۂ گمنامی میں آج تنہا ہوں میں
مجھ سے انجان گھر تک کے سائے ہوئے
مات دے گا کوئی مجھ کو ممکن نہیں
ہاتھ میرے ہیں اَب آزمائے ہوئے
ایسی صورت میں صورتؔ ہوں میں آجکل
میرے خود کے ہیں آسیب لائے ہوئے
صورت ؔسنگھ
رام بن جموں
موبائل نمبر؛9622304549