ستم نہ کر، نہ ستائو، طلب تمہاری ہے
قریب آ کے نہ جائو، طلب تمہاری ہے
چھپا کے آج نہ رکھ چاند سا حسیں چہرہ
نقابِ ابر ہٹائو، طلب تمہاری ہے
نگاہ کر کہ غمِ ہجر کا اندھیرا ہے
چراغِ حسن جلائو، طلب تمہاری ہے
بجھا نہ پائے جسے مل کے سارے دریا بھی
وہ پیاس مری بجھائو، طلب تمہاری ہے
تڑپ رہا ہوں، میں اک دید کے لئے پیہم
کدھر ہو، جلوہ دکھائو، طلب تمہاری ہے
گلوں کی بو یہ صنم راس آئی کب مجھ کو
سیاہ زلف سنگھائو، طلب تمہاری ہے
بلا کے پاس ذرا آج اپنے ہونٹوں سے
شرابِ عشق پلائو، طلب تمہاری ہے
سخن سرا ہو یہ شادابؔ جس میں اے جاناں!
وہ بزمِ عشق سجائو، طلب تمہاری ہے
شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435
زندگی کی جستجو میں زندگانی ڈس گئی
شوق سے پالا تھا جس کو وہ جوانی ڈس گئی
مسکر انا جب بھی چاہا سسکیوں نے گھر کیا
پھر وہ صحرا میں تمہاری شادمانی ڈس گئی
روز آ کے زور اپنے آزماتی موت ہے
موت سے بچ کر جو نکلا زندگانی ڈس گئی
ہر ستم منظور تیرا شوق سے لکھتا مگر
رہ گئی پھر سے ادھوری جو کہانی ڈس گئی
زندگی نے جو دیا ہم نے وہ جانا خوب ہے
اس کی لیکن جان لیوا بد گمانی ڈس گئی
آرزو اُن کی لگائے ہیں کھڑے ہم دیر سے
خاک ہونے کی تمنا ہے پرانی ،ڈس گئی
پھر قلم کی نوک سے شعلے ہوا دینے لگے
تیرے بخشے زخم سانسوں کی روانی ڈس گئی
داستانِ غم سنانے میں چلا جب ایک روز
مہربانوں کی مگر پھر مہربانی ڈس گئی
کہہ سکا نا درد دل کا عمر بھر سہتا رہا
ہر نئی پرواز کو غم کی کہانی، ڈس گئی
جگدیش ٹھاکر پروازؔ
لوپارہ دچھن ضلع کشتواڑ، جموں
موبائل نمبر؛9596644568
کتنی تیزی سے بدلتا ہے زمانہ آخر
فرصت میں ڈھونڈ لینا آخرت کا ٹھکانہ آخر
کبھی دوسروں کی خاطر خود کو مِٹانا پڑتا ہے
اسی آگ میں جل گیا ہے پروانہ آخر
قبل اس سے کہ لوگ کتنے مُخلص ہوا کرتے تھے اب فقط وقت گُزاری رہا دوستانہ آخر
گو ذرا سی بات پہ وہ مجھ سے روٹھ گئے ہیں
ڈھونڈ لیا مجھ سے ترکِ تعلق کا بہانہ آخر
سِتم ڈھا کے وہ مجھ سے میرا ضبط پوچھتے ہیں
لبریز جو ہونا تھا اِس دل کا پیمانہ آخر
جانے کب لوٹ آئے ہیں کبھی جانے والے
کس کی خاطر ہم سجا بیٹھے دل کا آشیانہ آخر
عِشق کرنے کے مشتاقؔ ہم کو بھی ہُنرآتے ہیں
سَدا میری طبعیت رہی ہے عاشقانہ آخر
خوشنویس میر مشتاقؔ
اِیسو اننت ناگ ، کشمیر
موبائل نمبر؛9682642163
ہر اک بات سے بات بنے ہے
ہاں دن تو کبھی رات بنے ہے
اب تو زینتِ جلوہ گہہِ عام
سے حق حینِ حیات بنے ہے
کُن سے پیدا کئے ہیں فلک نو
فیکون سے زمیں سات بنے ہے
ہر اک سمت ہے موت کا کھٹکا
ہر کھٹکے سے حیات بنے ہے
کیوں ہو آہ و فغاں صَفِ آرا
گرچہ ڈھول و برات بنے ہے
تجھ سے ہی اے نگاہِ فُسوں کار
غم, دکھ ,درد صفات بنے ہے
دامن میں چھپا لوں ہَبہَ تمکیت
کیا معلوم منات بنے ہے
جب سے پڑ گیا دیدَۂ حیرت
ذاتِ ھو ھو نجات بنے ہے
زرطشتوں کو نچوڑ کے یاورؔ
کیا کیا لات و منات بنے ہے
یاورؔ حبیب ڈار
بٹہ کوٗٹ ہندواڑہ
موبائل نمبر؛6005929160
نہ جا نے آج مجھ کو کیا ہوا ہے
کہ جیسے چین میر ا کھو چکا ہے
خدا کچھ ایسا کر کہ عشق نہ ہو
مرے لب پہ بس اتنی سی دعا ہے
میں تیری ہاں میں ہاں کرتا چلا تھا
مجھے معلوم کیا تھا یہ خطا ہے
تم آؤ تو چلی آئیں گی خوشیاں
تمہارے بن ہراک شے بے مزا ہے
کہاں حاصل ہمیں خوشیاں، مسرت
کریں کیا جب مقدر میں لکھا ہے
اجازت دو تو رو لوں میں ذرا سا
بہت دکھ من میں میرے بھر چکا ہے
جنابِ دل نہیں مانے ہماری
کہا تھا عشق جاں لیوا بلا ہے
محمد فیضان فیضیؔ
دارالہدی یونیورسیٹی
موبائل نمبر؛7385873566
بعد مدت خزاں میں پھول کِھل آیا ہے
چمن والو ابھی بھی یہاں بہار کا سایہ ہے
پت جھڑ کے موسم صدا تو دے چکے ہیں
کہ مگر پھر بھی یہاں کا گلشن مسکایا ہے
گُل گُل پہ اُس کا ہی نام ہے تحریر
بلبل و پنچھی بھی دیکھو جس کا نغمہ گایا ہے
لمبے وقفے کے بعد پھر دیکھو اُسکی
سلطنت میں مالی پھر مسکرایا ہے
قادریؔ اُسکے نگر میں جا کے دیکھ ذرا
مسرت کا آفتاب ہر طرف چھا یا ہے
فاروق احمد قادری ؔ
کوٹی ڈوڈہ، جموں