دل ہو تم اَے جان! دلبر تم ہی ہو
زخمِ دل ہو، دل کا زیور تم ہی ہو
دل کے باہر تم ہو، اندر تم ہی ہو
جو چلا اس دل پہ خنجر تم ہی ہو
تم تڑپ ہو، تم محبت، تم جگر
اک سکونِ قلبِ مضطر تم ہی ہو
تم دُرِ مقصود، تم ہو بے بہا
صدفِ بحرِ دل کا گوہر تم ہی ہو
باغِ ہستی میں پئے بلبل ہنوز
گل بدن، گل رو، گُلِ تر تم ہی ہو
چاند کیا ہے، چاندنی کیا چیز ہے
حسن تیرا خوب، برتر تم ہی ہو
راحتِ دل، باعثِ صبر و قرار
تم کو کیا معلوم کیوں کر تم ہی ہو
تم دلِ شادابؔ کی اک آرزو
دل فدا جس پر وہ دلبر تم ہی ہو
شفیع شادابؔ
پازلپورہ شالیمارسرینگر کشمیر
موبائل نمبر؛9797103435
اِس خطا کی جو بھی چاہے دے سزا، پوچھے مجھے
بے وفائی میں کروں تو وہ خدا پوچھے مجھے
گیت گانے، شعر کہنے، کی وجہ پوچھے مجھے
مجھ سے ملنے جو بھی آئے آپ کا پوچھے مجھے
ریت پر ہیں اُنگلیوں کے کچھ نشاں ظاہر، مگر
ریت کا ہے کیا ٹھکانہ؟ یہ ہَوا پوچھے مجھے
جب اُداسی کا سماں ہو، آئے کوئی دوست تب
کس لئے ہو تُم پریشاں، کیا ہوا، پوچھے مجھے
شام ہوتے ہی تھکن سے چُور ہو جاتا ہوں میں
اور سویرا پھر نئے اک کام کا پوچھے مجھے
جب محبت کا جہاں میں کچھ نہیں نعم البدل
پھر وہ دولت مال کا کیوں بارہا پوچھے مجھے
بابِ حیرت، پر کھڑا ممتازؔ ہوں اک عمر سے
کس طرف ہیں منزلیں، یہ راستہ پوچھے مجھے
ممتازؔ چودھری
راجوری، جموں
موبائل نمبر؛7051363499
ارمانوں کو حسرت زندہ رکھتی ہے
دل کو تیری صورت زندہ رکھتی ہے
تنہائی یہ مجھ سے پوچھتی رہتی ہے
کیونکر تجھ کو وحشت زندہ رکھتی ہے؟
آنکھوں سے اشکوں کا دریا بہتا ہے
جس کو دل کی حالت زندہ رکھتی ہے
بکھرے خوابوں کی حسرت بھی زندہ ہے
ان کو تیری فرقت زندہ رکھتی ہے
وقت کے طوفاں سے میں لڑتا رہتا ہوں
حوصلے میرے ، طاقت زندہ رکھتی ہے
دل کے صحرا میں اُگتی ہیں خوشبوئیں
اُن کو تیری محبت زندہ رکھتی ہے
مشکل کہتی ہے کہ تم مر جاؤ لیکن
ہم کو روز مصیبت زندہ رکھتی ہے
راقمَ حیدر
حیدریہ کالونی ،آربل شالیمار سرینگر
موبائل نمبر؛9906543569
وہ کہتے ہیں مجھ سے کہ ہے کیا محبت
ہے قاتل کبھی ہے یہ سایہ محبت
ہو گر ایک طرفہ تو اس کے لئے ہے
مسرت نہیں دل کا دورہ محبت
خیالوں میں اس کے فقط ایک چہرہ
جسے خواب میں بھی ہے کرتا محبت
بھروسہ اگر جو محبت میں ٹوٹا
وہاں ہے اجل کا فرشتہ محبت
نہ دنیا میں باقی رہا اب بھروسا
کبھی بھول کر بھی نہ کرنا محبت
تماشا تو تھا ڈھونگ بھی بن گیا ہے
ہوس اور مطلب ہے اور کیا محبت
منافق چلے کر کے رسوا محبت
حقیقت کبھی تھی عجوبہ محبت
شاداں رفیق
اوڑی، بارہمولہ کشمیر
[email protected]
اُسی کی صبح بھی ہے وقتِ شام ہے اُسکا
ہمارے دل میں ابھی تک قیام ہے اُسکا
تو اُسکے نام پہ لاحول پڑھ رہا ہے مگر
ترا ضمیر مسلسل غلام ہے اُسکا
دروغ گوئی پہ اُترا ہے ان دنوں جو وہ
تو پھر سمجھ لو کہ قصہ تمام ہے اُسکا
پتہ لگاؤ کہ وہ کون سا عمل ہے کہ جو
یہاں سبھی کی زبانوں پہ نام ہے اُسکا
گزشتہ سالوں میں دنیا نے جو بھی دیکھا ہے
بہت ہی ہلکا سا یہ انتقام ہے اُسکا
سیاہ کار ہے وہ اسکی چائے کیا پینی
ہمارے واسطے پانی حرام ہے اُسکا
ثواب مجھ سے زیادہ ہے اسکے حصے میں
مرے سلام اے پہلے سلام ہے اُسکا
پڑھا ہے جس نے اسی نے کہا ہر اک سے یہاں
ہر اک کلام سے بہتر کلام ہے اُسکا
تمہارے لب پہ شکایت بجا نہیں نصرتؔ
جو چل رہا ہے وہ سارا نظام ہے اُسکا
نصرت عتیق گورکھپوری
گورکھپور، اُترپریش
لگی دل کی کو کیا بجھاتا ہوں
میں اپنے ہی دل کو سمجھاتا ہوں
خطا یہ صرف اُس کی تو نہیں ہے
موردِ الزام میں جسکو ٹھہراتا ہوں
مَٹتی ہے یہ یوں ہی تو دلوں سے
میں نفرت کو محبت سے مٹاتا ہوں
نکلتی ہے جو گہرائیوں سے دل کی
غزل ایسی میں گنگناتا ہوں
صورتؔ سیدھی سچی ہے جو نیکی کی
راہ میں وہ سب کو دکھاتا ہوں
صورتؔ سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549
کوئی بتائے کہ یہ موت کہاں نہیں ہوتی
کوئی ایک مقام کہ یہ جہاں نہیں ہوتی
چھلکتے رہتے ہیں یادوں میں صبح و شام آنسوں
حالت دل کی پھر کبھی نہاں نہیں ہوتی
چھپائیں لاکھ دل کے درد سبھی
کون کہتا ہے کہ مایوسی عیاں نہیں ہوتی
دُکھوں کے رہتے ہیں ہر گھڑی سر پر سائے
خوشیوں کی پھر تو جلدی ہاں نہیں ہوتی
جن بیٹیوں کی ہوتی نہیں مائیں سحرؔ
جسم میں اُنکے کبھی جاں نہیں ہوتی
ثمینہ سحرؔ مرزا
بڈھون راجوری، جموں