لے گیا وہ چھین کر ایمان کو
فائیدہ سمجھا تھا میں نقصان کو
یاد رکھا ہر کسی انسان کو
بُھول بیٹھا حضرتِ رحمان کو
ایک مشتِ خاک میری حیثیت
خاک اوڑھے گی میری پہچان کو
کیا ضروری تھا یہ پوشاکِ بشر؟
اے متاعِ جان، میری جان کو
تم پہ تو دنیا مسلط ہو گئی
تم نے کیا کھولا کبھی قرآن کو؟
اب میسر ساتھ غم کا بھی نہیں
ہو گیا ہے کیا دل ِ ویران کو
یاد آتا ہے مجھے بے حد عقیلؔ
چاہتیں کتنی تھیں اُس نادان کو
عقیلؔ فاروق
بنہ بازار شوپیان
موبائل نمبر؛7006542670
بغاوت تو آنکھوں نے آنکھوں سے کی ہے
مگر دل کو میرے سزا کیوں ملی ہے
ہوا حال رو رو کے ابتر ہےمیرا
تُجھے کیا خبر چیز کیا دل لگی ہے
ترے ساتھ جینا بھی مرنا بھی میرا
محبت یہ پہلی میری آخری ہے
تری ہی کمی عمر بھر اب رہے گی
کہ تو زندگی میں مری قیمتی ہے
کسی چیز کی آرزو اب نہیں ہے
مجھے تیری خوشبو جو اب آگئی ہے
وہ موجود ہے قیسؔ اس میں ہمیشہ
عمارت یہ دل کی نہیں عارضی ہے
کیسر خان قیسؔ
ٹنگواری بالا ضلع بارہ مولہ
موبائل نمبر؛6006242157
بہ چشمِ نم یہ درد نامہ سنا رہا ہوں
سب کو روداد میں اپنی بتا رہا ہوں
اے اہل وفا ہو کے با ہوش دیکھ لو
چمنِ دل کی ویرانیاں دکھا رہا ہوں
اک بلبل نغمہ سرا اس باغ میں تھا
دامِ صیاد سے اس کو چُھڑا رہا ہوں
اس خوش گلو کی آواز کا کیا کہنا
شکستہ حالی کو اپنی بہلا رہا ہوں
کی ورق گردانی جب زندگی کی تو
یاس کے سوا کچھ نہیں پا رہا ہوں
بے لوث کوئی دلدادہ یہاں نہیں سُن
صدا سب کانوں میں پہنچا رہا ہوں
کارِ عصیان سے اے دل اب ہاجَر ہو
گناہوں کے دلدل میں گرا جا رہا ہوں
ہر گزر گاہ پر کانٹے بچھائے گئے ہیں
بہ مشکل اپنے دامن کو بچا رہا ہوں
رنگ دیا نفس کو ذلت کے کاموں سے
خاک پچھتاوے کی منہ پر اُڑا رہا ہوں
اپنے ہی یاں غم دہندہ ہیں اے اویسؔ
کب سے سب کو یہ سمجھا رہا ہوں
اویس ابن بشیر قادری
اقبال کالونی،شالہ پورہ،آلوچہ باغ،سرینگر ،کشمیر
موبائل نمبر؛9596515922
جب سے موسم بد گماں ہو گیا ہے
دیکھ ویراں سارا جہاں ہوگیا ہے
رُخ جو بدلا سلطنت سے ہوا نے
پشیماں تب سے وہ حکمراں ہوگیا ہے
وفاؤں کے گل کھلا کے یہاں
جانے کیونکر بے وفا باغباں ہوگیا ہے
عجب و حشت طاری ہے اُس چمن میں
جب سے خزاں یہاں مہرباں ہوگیا ہے
قادریؔ جہاں جہاں بھی دیکھتا ہے تو
ٹکڑے ٹکڑے کِھلتا گلستان ہوگیا ہے
فاروق احمدقادری ؔ
کوٹی ڈوڈہ، جموں